امریکا و روس جنگ بندی پر متفق، بشار جنگ جاری رکھنے پر مصر

شام کے صدر بشار الاسد نے امریکا اور روس کی مدد سے ہونے والی جنگ بندی سے چند گھنٹے پہلے پورے شام کو دوبارہ اپنی سرکار کے زیر نگیں لانے کا عزم ظاہر کیا۔

قومی ٹیلی وژن نے دکھایا کہ اسد دمشق کے نواحی علاقے داریا کا دورہ کر رہے تھے کہ جو بہت عرصے سے باغیوں کے قبضے میں تھا اور گزشتہ مہینے سرکاری افواج نے اس کو دوبارہ فتح کیا ہے۔ اسی علاقے کی ایک مسجد میں بشار نے نماز عید بھی ادا کی، جس کی تصاویر اس وقت ذرائع ابلاغ میں گردش کر رہی ہے۔ اپنی تازہ گفتگو میں شامی صدر نے جنگ بندی کے معاہدے کا کوئی ذکر تک نہیں کیا لیکن یہ ضرور کہا کہ وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کسی بھی داخلی یا بیرونی حالات سے قطع نظر اپنا کام جاری رکھیں گے۔

جنگ بندی کے ساتھ ہی امدادی سامان کی ترسیل بہتر ہوگی اور امریکا اور روس مشترکہ طور پر داعش کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لیں گے لیکن اس کا سب سے بڑا چیلنج ہوگا حکومت مخالف باغیوں اور شدت پسندوں کے درمیان تفریق کرنا۔

باغیوں کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کا فائدہ بشار الاسد کو ہوگا جو جنگ کے ابتدائی ایام سے لے کر اب تک کی مضبوط ترین پوزیشن پر دکھائی دیتے ہیں اور اس مقام تک پہنچانے میں اہم کردار ایران اور شام کا ہے جو ان کی پشت پر کھڑے ہیں۔

روس کی فضائی مدد اور ایران کی ملیشیا کی مدد سے شامی فوج نے باغیوں کے شہر حلب کے نصف حصے کا مکمل محاصرہ کر لیا ہے۔

2011ء میں عرب بہار کے زیر اثر اٹھنے والی تحریک کو کچلنے کے لیے جو اقدامات اٹھائے گئے ان سے ملک عملاً تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ گزشتہ سال بشار الاسد کے اتحادی روس نے میدان میں قدم رکھا۔ اس کے بعد سے اب تک بشار کے لیے حالات بہتر ہوتے جا رہے ہیں۔

اب روس-امریکا معاہدہ سال میں جنگ بندی کی دوسری کوشش ہے۔ اس سے قبل فروری میں ہونے والا معاہدہ ٹوٹ گیا تھا جس میں نے فریقین نے ایک دوسرے پر خلاف ورزی کے الزامات لگائے۔

شام کی اس خانہ جنگی میں لاکھوں افراد اپنی جان سے گئے ہیں اور 11 ملین بے گھر ہوئے جس نے دنیا میں مہاجرین کا بدترین بحران پیدا کیا۔ نئے معاہدے کو فریقین کی حمایت حاصل ہے جن میں اسد کا حامی ایران اور ان کا اہم مخالف ترکی بھی شامل ہیں۔

کیا یہ معاہدہ قائم رہے گا؟ شام کی پیچیدہ صورت حال میں کہ جہاں معاملات بہت خطرناک روپ دھار چکے ہیں کیا کسی کی زبان پر اعتبار بھی ہوگا؟ کہیں اس معاہدے کا حشر بھی گزشتہ معاہدے جیسا تو نہیں ہوگا؟ ان تمام سوالات کے ساتھ شام ایک اور ‘غیر یقینی کی کیفیت’ میں داخل ہو چکا ہے۔ دیکھتے ہیں اس بار کون سا منظر سامنے آتا ہے۔ ‘پردہ اٹھنے کی منظر ہے نگاہ’!