فصل کی برداشت اور تابع دار

urdu words

پنجاب میں زراعت کے تعلق سے ایک اصطلاح نظر سے گزری جو ہمارے لیے نئی ہے اور ممکن ہے بہت سے لوگوں کے لیے بھی نئی ہو۔ یہ ہے ’’برداشت‘‘ کا استعمال۔ ویسے تو عوام ہی بہت کچھ برداشت کررہے ہیں اور صورتِ حال پر برداشتہ خاطر (بیزار، اداس، آزردہ) بھی ہیں۔ لیکن ایوب زرعی تحقیقاتی ادارے، فیصل آباد کے ڈائریکٹر نے کسانوں کو ہدایت کی ہے کہ ’’گندم کی فصل برداشت کے مرحلے میں داخل ہوگئی، بروقت کٹائی کا انتظام کرلیں‘‘۔ اسی طرح لاہور سے محکمہ زراعت کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ ’’چنے کی فصل برداشت کے لیے تیار ہے، برداشت میں تاخیر سے پیداوار متاثر ہوسکتی ہے۔‘‘

تابع دار کی اصطلاح بہت عام ہے، خاص طور پر اخبارات میں۔ مطلب لیا جاتا ہے اطاعت کرنےوالا۔ مثلاً جب یہ کہا جائے کہ ’’میں آپ کا تابعدار ہوں‘‘ تو یہی سمجھا جائے گا کہ میں آپ کا تابع اوراطاعت گزار ہوں۔ حالانکہ مطلب اس کے بالکل الٹ ہے، یعنی تابع رکھنے والا‘‘۔

ان ہدایات سے یہ تو ظاہر ہوگیا ہے کہ ’’برداشت‘‘ کٹائی کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن کیا یہ اصطلاح کسانوں کے علم میں بھی ہے یا زرعی تحقیقاتی ادارے کے ماہرین اور محکمہ زراعت تک محدود ہے۔ ویسے برداشت کے مقابلے میں ’’کٹائی‘‘ استعمال کرنے سے کیا فصل کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے؟ اب تک تو فصل کی کٹائی ہی سنتے بلکہ دیکھتے بھی آئے ہیں۔ یہ اصطلاح کہاں سے آئی؟

برداشت فارسی کا لفظ اور مونث ہے۔ مطلب ہے صبر، تحمل، بردباری، سہنا، اٹھانا، جانوروں کی پرورش و پرداخت، قرض، ادھار لینا وغیرہ۔ لیکن جانوروں کی پرورش، دیکھ بھال اور قرض ادھار کے معنوں میں بھی برداشت کا استعمال نہیں دیکھا۔ کیا کوئی قرض مانگتے ہوئے کہتا ہے کہ تھوڑی سی برداشت دے دو۔ البتہ فارسی ہی میں ’’برداشت خانہ‘‘ ہوتا ہے جس کا مطلب ہے گودام، وہ کمرا جس میں سامان رکھیں۔ گندم کی کٹائی کے بعد اگلا مرحلہ اس کو محفوظ رکھنے کے لیے گودام، خرمن اور کھتّے کا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ خرمن اور کھیت کو ہم معنیٰ سمجھتے ہیں۔ جب کٹائی کے لیے برداشت استعمال کیا گیا ہے تو گودام کے لیے برداشت خانہ بھی برداشت کرلیا جائے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ کسان پوچھتے ہی پھریں گے کہ یہ کہاں سے ملے گا؟

برداشت ہی سے فارسی کا ایک اور لفظ ہے برداشتہ۔ یعنی اٹھایا ہوا، ہٹایا ہوا، لے جایا گیا۔ بعض لوگ قلم برداشتہ لکھ ڈالتے ہیں۔ لیکن برداشتہ یعنی گندم اٹھانے کا مرحلہ اس برداشت کے بعد ہی پیش آئے گا۔ برداشتہ مرکبات میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے دل برداشتہ۔ داشتہ کا مطلب ہے رکھی ہوئی چیز۔ جیسے ’’داشتہ آید بکار‘‘۔ یعنی رکھی ہوئی چیز کام آجاتی ہے۔ لیکن اردو میں صرف داشتہ اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتی۔ برداشت کی تکرار سے قارئین ’’برداشتہ خاطر‘‘ نہ ہوں بلکہ برداشت کرلیں۔ زراعت کے حوالے سے باردانہ کی اصطلاح تو عام ہوگئی ہے، جانے بوری کہنے میں کیا قباحت ہے!

تابع دار کی اصطلاح بہت عام ہے، خاص طور پر اخبارات میں۔ مطلب لیا جاتا ہے اطاعت کرنے والا۔ مثلاً جب یہ کہا جائے کہ ’’میں آپ کا تابعدار ہوں‘‘ تو یہی سمجھا جائے گا کہ میں آپ کا تابع اور اطاعت گزار ہوں۔ حالانکہ مطلب اس کے بالکل الٹ ہے، یعنی تابع رکھنے والا‘‘۔

تابع دار عربی و فارسی کا مرکب ہے۔ تابع عربی ہے جس کا مطلب ہے فرماں بردار، ماتحت، پابند۔ افعال میں تابع کرنا، تابع ہونا۔ اور تابع دار کا مطلب ہے تابع رکھنے والا۔ لیکن معنوی لحاظ سے اس کا استعمال فرماں بردار، مطیع، ماتحت، نوکر کے لیے ہوتا ہے جو بالکل غلط ہے۔ عربی میں طابع بھی ہے۔ اس کا ایک مطلب فرماں بردار ہے اور دوسرا چھاپنے والا، پرنٹر۔

اب یہ تابع دار غلط کیوں ہے؟ اس کی وجہ ’’دار‘‘ ہے۔ یہ لاحقہ فاعلی ہے اور داشتن مصدر سے صیغہ امر، جو کسی اسم کے بعد آکر اسے اسم فاعل ترکیبی بنادیتا ہے اور رکھنے والا کے معنی دیتا ہے، مثلاً دلدار، آب دار، قرض دار، طرح دار وغیرہ۔ بہتر ہے کہ تابع دار کی جگہ صرف تابع سے کام چلایا جائے۔
دار پھانسی یا سولی کو بھی کہتے ہیں اور درخت کو بھی۔ میر تقی میرؔ کا شعر ہے:

موسم آیا تو نخلِ دار پہ میرؔ
سر منصور ہی کا بار آیا

برسبیل تذکرہ، منصور کے نام سے شہرت پانے والے کا نام حسین تھا، منصور اس کے والد کا نام تھا یعنی حسین ابنِ منصور۔ بدنام یا نیک نام باپ ہوگیا۔ اسی طرح وہابی یا وہابیت کا معاملہ ہے جس کی نسبت محمد بن عبدالوہاب سے ہے۔ عبدالوہاب کو تو پتا بھی نہیں ہوگا کہ ان کی نسبت سے ایک مسلک کی بنیاد پڑجائے گی۔ وہاب اﷲ کا نام ہے۔ اگر بیٹے کی نسبت سے کہا جاتا تو یہ ’’محمدی‘‘ مسلک ہوتا جو ہر مسلمان کا ہے اور ہونا چاہیے۔ چنانچہ تائید یا مخالفت کرنے والوں نے باپ سے نسبت جوڑ دی۔ پاکستان میں لوگ پرویز کے بجائے مشرف پر تبرا بھیجتے ہیں، حالانکہ مشرف اُن کے والد کا نام ہے۔ دار عربی میں گھر، محل، قصر، مقام، محلہ، کوچہ، شہر، قصبہ، علاقہ، ملک کو بھی کہتے ہیں۔ دارالآخرت، دارالادب، (درسگاہ، یونیورسٹی جہاں آج کل ادب کا گزر نہیں)، دارالاقامت ہوسٹل کو کہتے ہیں، دارِفانی سے آئے دن لوگ کوچ کرتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ اس کے لیے رحلت کا لفظ استعمال کرتے ہیں جس کا مطلب سفر کرنا ہے۔

غلہ رکھنے کے گودام کے لیے کھتّے کا لفظ استعمال کیا تھا۔ اس کی تصغیر ’’کھتّی‘‘ ہے، یعنی زیر زمین غلہ بھرنے کا ذخیرہ۔ لغت نویس پلیٹس کے مطابق خزانہ، اسٹور، نقد رقم اور ذخیرہ وغیرہ۔

زراعت کے حوالے سے بات ہوئی ہے تو ابوالفضل صدیقی (مرحوم) کی متوازی فرہنگ کا ایک بار پھر تذکرہ ہوجائے۔ انہوں نے ایک لفظ ’’ٹھنٹھی‘‘ دیا ہے۔ خریف کی فصل میں سے دانہ نکالنے کے بعد جو بھوسا یا کوڑا کرکٹ بچتا ہے اُس کو ٹھنٹھی کہتے ہیں۔ اس میں خال خال دانہ رہ جاتا ہے۔ مزید کٹائی پٹائی سے پھر کچھ نکل آتا ہے۔ ربیع کی فصل کے لیے انہی معنوں میں لفظ گانٹھا ہے۔ ہمیں تو یہ عوام پر عائد کردہ طرح طرح کے بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسوں کی تعریف لگتی ہے۔ کٹائی، پٹائی عوام ہی کی ہورہی ہے اور جو کچھ نکل آئے وہ ’’آف شور‘‘ ہوجاتا ہے۔ لیکن جس طرح ہم نے فصل کی کٹائی کے لیے برداشت کی اصطلاح نہیں سنی، اسی طرح ابوالفضل صدیقی کی یہ ٹھنٹھی اور گانٹھا سننے یا پڑھنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ ممکن

ہے یہ اصطلاحات یوپی کے گاؤں، دیہات میں کبھی استعمال کی جاتی ہوں۔ اب تو وہاں بھی سنسکرت ملی ہندی کا راج ہے۔