مورچہ

Urdu

زبان کسی بھی تہذیب کا پہلا مورچہ ہے۔اردو محض زبان نہیں۔ اسی کے دم سے برصغیر میں مسلمانوں کے نظریاتی اور ثقافتی وجود کی ترتیب وتہذیب ہوئی۔یہ ہماری قومی خودی کا ایک قلعہ ہی نہیں ہماری اجتماعیت کو باندھے رکھنے کی ایک رسّی بھی ہے۔

تحریک ِ پاکستان میں اردو زبان کے مسئلے کو ایک بنیادی اہمیت حاصل رہی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ’’اردو ہندی تنازع‘‘ نے برصغیر کے مسلمانوں میں سب سے پہلے شکوک پیدا کئے تھے۔ یہ بات کسی اور نے نہیں تقسیم کے سب سے بڑے مخالف گاندھی نے کہی تھی کہ ’’یہ زبان صرف مسلمانوں کی ہے کیونکہ یہ قرآن کے حرفوں میں لکھی جاتی ہے۔‘‘اس سے قبل یوپی اور بعض دیگر علاقوں میں ہندی کے فروغ کی تحریک اُٹھائی گئی۔ یہ ۱۸۵۷کے فوراً بعد کا زمانہ تھا۔انگریز حوصلہ افزائی کررہے تھے جب پنجاب میں اردو کے اثرات کم کرنے کے لئے آریا سماج تحریک اُٹھی۔انگریز کی سیاسی حکمتِ عملی کا ایک اثر یہ پڑا کہ خود ہندوؤں کا وہ طبقہ جو اردو سے محبت کرتا تھااچانک ہندی کی حمایت میں کھڑا ہوگیا۔سر سید احمد خان جب اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندو مسلم کبھی اکٹھے نہیں رہ سکتے اور یہ دو قومیں ہیں تو اس کے پیچھے اس لسانی اختلاف کا پس منظر بھی تھا۔

تقسیم سے قبل مسلمانوں کایہ خوف غلط نہیں تھا کہ انگریزوں کی سیاسی حکمتِ عملی کے تحت اور ہندو تعصب میں اُن پر ہندی زبان مسلط کردی جائیگی۔چنانچہ مسلم وفد نے شملہ میں وائسراے ہند ارل آف منٹو(۱۹۰۵ تا ۱۹۱۰)سے ۱۹۰۶ میں ملاقات کرتے ہوئے جب اپنے مطالبات کی فہرست پیش کی تو اس میں سب سے پہلا مطالبہ اردو کے تحفظ کا تھا۔ اردو زبان پر ایک ایسا وقت بھی آیا جب ہندوؤں نے مختلف حیلوں بہانوں سے اس کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ہندو ادیبوں کی ایسی مہم ۱۹۳۵ میں ناکام ہوئی۔بعد ازاں واردھا اسکیم بھی اِسی تاثر سے آلودہ تھی۔تب بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق خود اگلے مورچے پر کھڑے ہوگئے۔رفتہ رفتہ اردو کا تحفظ مسلمانوں کا ایک قومی مطالبہ بن گیا تھا بآلاخر اِسے مسلم لیگ نے اپنے مطالبات کی فہرست میں بھی شامل کرلیا۔تاریخ کا یہ سفر طے کرتے ہوئے اردو نے آزادمملکت پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان کا درجہ حاصل کیا۔ اپنے تاریخی تناظر میں اردو ایک پاکستانی ذہن کی آئینہ دار زبا ن ہے ۔ اس زبان کی حفاظت پاکستانیت کی حفاظت کے مترادف ہے۔ اردو نے قیام ِ پاکستان کے بعد کسی بھی سرکاری حمایت کے بغیر اپنے دامن کو وسیع کیا اور فروغ پزیر رہی۔ یہ اس زبان کے اندر موجود وسیع تر امکانات کا ایک بیّن ثبوت ہے۔

اردو زبان کو آج بھی ایک طبقہ قومی زبان کے طور پر پھلتا پھولتا دیکھنا نہیں چاہتا۔ اُن کے پاس جدیدیت اور ترقی کے نام پر نہایت دقیانوسی قسم کی کج بحثیں ہیں۔ وہ انگریزی کو ترقی کی زبان اور معلومات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ایسا سوچتے ہوئے وہ صرف اردو اور انگریزی کے تعلق کے قیدی بن جاتے ہیں۔ اور زبانوں کی تاریخ ونفسیات میں جھانکنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔اُن کے تمام دلائل کی نہاد میں بات صرف اتنی ہے کہ ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے اور اب ساری دنیا انگریزی بولتی ہے۔ اور بس یہی علم کی زبان ہے۔یہ اوپر سے نیچے تک ایک باطل تصور ہے ۔برسبیلِ تذکرہ!اس طبقے کو ذرا تولا اور ٹٹولا جائے تو یہ تاریخ ونظریۂ پاکستان کے حوالے سے بھی ایک مختلف الرائے جتھہ نظر آتا ہے۔یہ ان میں کوئی حادثاتی اتفاق نہیں ہے۔

پہلے اس عمومی دعوے کاایک جائزہ لے لیجئے کہ ساری دنیا انگریزی بولتی ہے۔سیموئیل پی ہنٹنگٹن کا ایک مضمون ’’تہذیبوں کا تصادم ‘‘ ۱۹۹۳ کے موسمِ گرما میں شائع ہوا۔ بعدا زاں یہ کچھ تبدیلیوں کے ساتھ ایک کتابی شکل میں چھپا اورعالمی سطح پر ایک بحث کا عنوان بن گیا ۔ مصنف نے تین عشروں سے زائد عرصے پر محیط یعنی ۱۹۵۸ سے ۱۹۹۲ تک کی دستیاب معلومات کے حیرت انگیز نتائج کو مرتب کرکے اُن تمام تصورات کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے جو’’ انگریزی‘‘زبان کے حوالے سے چند طفیلی دانشوروں میں پائے جاتے ہیں۔مصنف کے مطابق اس عرصے میں انگریزی، فرانسیسی، جرمن، روسی اور جاپانی بولنے والوں کے تناسب میں نمایاں کمی آئی۔ ان تمام زبانوں کی بہ نسبت چینی زبان مینڈارین بولنے والوں میں کمی نسبتاً کم دیکھنے میں آئی۔ اس کے برعکس ملائی، انڈونیشیائی، عربی،بنگالی، اسپینی، پرتگالی اور دیگر زبانیں بولنے والوں کی تعداد بڑھ گئی۔ہنٹنگٹن نے ایک دنیا کو اعدادوشمار سے حیران کیا کہ دنیا میں انگریزی بولنے والوں کی تعداد ۱۹۵۸تک کچھ یوں تھی کہ دس لاکھ افراد کے مجموعے میں انگریزی بولنے والے ۸ء۹ فیصد تھے جو ۱۹۹۲ تک گر کر ۶ء۷ فیصد رہ گئے۔ہنٹنگٹن کے اعداد وشمار کے مطابق انگریزی فرانسیسی، جرمن، پرتگالی اور اسپینی بولنے والوں کی تعداد ۱۹۵۸ میں دنیا کی کل آبادی کا ۱ء۲۴ فیصد تھی جو ۱۹۹۲ میں کم ہوکر ۸ء۲۰ فیصد رہ گئی۔۱۹۹۲ میں انگریزی بولنے والوں کے مقابلے میں تقریباً دُگنی آبادی، یعنی عالمی آبادی کا ۲ء۱۵ فیصد، مینڈارین بولتی تھی۔ان کے علاوہ مزید ۶ء۳ فیصد چینی زبان کی دوسری شکلیں استعمال کرتے تھے۔ہنٹنگٹن یہاں آکر اتنا تو تسلیم کرتا ہے کہ

’’ایک مفہوم میں جو زبان (مراد انگریزی) دنیا کے بانوے (۹۲) فیصد لوگوں کے لئے اجنبی ہو وہ عالمی زبان نہیں ہو سکتی۔‘‘

مصنف آگے جاکر اپنی مرضی کا کلہاڑا چلاتا ہے اور پھر اس صورتِ حال میں بھی انگریزی کی برتری کے ناقابلِ قیاس تصورات باندھتاہے جو مختلف لسانی گروہوں اور ثقافتوں سے منسلک افراد کے تال میل میں بطور رابطہ انگریزی زبان کے استعمال کی صورتوں سے متعلق ہیں۔ یہاں امر واقعہ کے طور پر صورتِ حال یہ ہوچکی ہے کہ مختلف لسانی گروہ یا ثقافتیں ایک دوسرے کے ساتھ متوازی طور پر رہنے کے بجائے ایک دوسرے کے مقابل پنپ رہی ہیں۔دنیا کی بناؤٹ ہی کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ یہاں چیزیں حریفانہ اور رقیبانہ روابط میں آباد یا برباد ہوتی ہیں۔ اس صورت میں انگریزی زبان غیر جانبدار رہ کر مختلف لسانی گروہوں اور ثقافتوں کے مابین رابطے کے فرائض بجالانے کے بھی قابل نہیں رہ گئی اور اس کا یہ کردار بتدریج سکڑ رہا ہے۔مثلاً ۱۹۹۲ کے بعد مینڈارین زبان کی طرف متوجہ ہونے والوں میں ایک بڑی تعداد غیر چینیوں کی بھی ہے۔ پھر معاشی طور پر چین کے مسلسل مائل بہ عروج ہونے کے بعد یہ ایک ایسے ملک کا نمونہ بن چکا ہے جس کے معاشی مقاصد اب اُس کے موجودہ سیاسی کردار کے برتن سے چھلکتے جارہے ہیں ۔ لہذا بہت تیزی سے چین کا سیاسی کردار بھی تبدیل ہو رہا ہے۔جس سے اُس کی زبان کا اُفق بھی حیرت انگیز طور پر وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔

اس کے برعکس انگریزی زبان کے ساتھ استعمار کی نفرت بھی شامل ہورہی ہے اور بہت سی قوموں میں یہ شعور بیدار ہوا ہے کہ زبانوں کا کوئی ’’غیر نسلی ‘‘مزاج نہیں ہوتا۔یہ اینٹ یا پتھر کی طرح نہیں ہوتی، جو مختلف قوموں کی تعمیرات میں جاکر کسی دیوار سے چپک جائے تو کوئی فرق نہ پڑے۔ زبانیں دراصل ایک نسلی یا تہذیبی مزاج رکھتی ہیں اور کسی قوم کی بڑھتی ہوئی طاقت اُس کے اہلِ زبان میں ایک لسانی جارحیت پیدا کردیتی ہے۔اس کا سب سے شاندار اعتراف بھی ہنٹنگٹن کے ہاں ملتا ہے، وہ جو کچھ کہتا ہے، اس کا لطف لیجئے!
’’دوسری تہذیبوں کے مقابلے میں مغرب کی طاقت کے بتدریج زوال کے ساتھ انگریزی اور دوسری مغربی زبانوں کا دوسرے معاشروں میں اور مختلف معاشروں کے مابین رابطے کے لئے استعمال بھی آہستہ آہستہ کم ہوتا جائے گا۔ اگر مستقبل بعید میں کبھی چین مغرب کی جگہ دنیا کی غالب تہذیب بن گیا تو انگریزی کی جگہ مینڈارین عالمی لنگوا فرینکا بن جائے گی۔‘‘

درحقیقت انگریزی کے ایک بالادست زبان کا گیت خلافِ حقائق ہے۔ یہ زبان کی برتری سے کہیں زیادہ چند طفیلیوں کے احساسِ کمتری کا غمازروّیہ ہے۔انگریزی کو علم کی زبان باور کرانا بھی ایک کج فہمی ہے جس میں تصورِعلم سے لے کر منہجِ علم تک اور محورِعلم سے لے کر مقصودِعلم تک ہر چیز میں ایک خلقی خلل ہے، مگر یہاں تحریر کا دامن تنگ پڑتا ہے، سو اِسے کسی اور وقت کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں۔ سمجھنے کی بات صرف اتنی ہے کہ زبان کسی بھی تہذیب کا پہلا مورچہ ہے اور کسی بھی تہذیب کا سپاہی اپنے مورچے کو چھوڑ کر دشمن کے مورچے میں خود اپنے ہی دشمن کا تحفظ کرنے نہیں چلا جاتا۔