بشارالاسد کی سنگ دلی ۔۔ خون مسلم سے رنگین مملکتِ شام میں فیشن شو کی رنگینیاں

فیشن شو میں بچوں کو بھی نمائش کے لیے پیش کیا گیا،دوسری جانب لاکھوں بچے بھوک سے بلک رہے ہیں اور ہزاروں بچوں کے والدین کی شہادت کے باعث وہ یتیم و بے آسرا ہوچکے ہیں

شام میں صدر بشار الاسد کے آبائی صوبے لاذقیہ میں شامی وزارت سیاحت کے زیر نگرانی ایک ہفتے پر مشتمل فیشن شومنعقد کیا۔
ایک طرف شامی حکومت کے طیاروں اور اس کے حلیف روس کی جانب سے شام میں حلب اور حمص اور ادلب صوبوں کے شہروں سمیت ملک کے دیگر شہروں پر بم باری کا سلسلہ شدید کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب لاذقیہ صوبے کے ایک سب سے بڑے سیاحتی مقام میں متنازع فیشن شو کی رنگینیاں بکھیری جا رہی ہیں۔
مذکورہ “فیشن ویک” اپنی نوعیت کا دوسرا ایونٹ تھا۔ اس سے قبل 2015 میں لاذقیہ میں اس سلسلے کا پہلا ہفتہ منعقد کیا گیا تھا۔ اس فیشن ویک کا ذکر شام کے تمام سرکاری ذرائع ابلاغ میں کیا گیا۔ ان میں نیوز ایجنسی سے لے کر ، سیٹلائٹ چینلوں ، تمام تر اخبارات اور ویب سائٹیں شامل ہیں۔اس متنازع فیشن شو کے حوالے سے سوشل میڈیا پر لوگوں کے غم وغصے پر مشتمل شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ نغم علی کے نام سے تبصرے میں کہا گیا کہ “عوام کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ، ہم ایک دوسرے کو کھا رہے ہیں۔ ایسے میں ہمیں اس طرح کے فیشن شو سے کیا حاصل ہوگا ،ایسے بہت سے امور ہیں جو شہریوں کے لیے فیشن شو سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں”۔
ایسے وقت میں جب کہ شام کے مختلف شہروں میں بچوں خواتین اور مریضوں کو بھی بشار کے جنگی طیار ے نہیں بخش رہے اور ان کی جانب سے ہلاکتوں اور بربادی کی کارروائیوں کا سامنا ہے، فیشن شو میں بچوں کو بھی نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔فیشن شو کی ایک تصویر میں ایک ننھی بچی شادی کے لباس میں ملبوس نظر آرہی ہے جس کو کیٹ واک کے لیے مخصوص ریمپ پر پیش کیا گیا۔دوسری جانب لاکھوں بچے بھوک سے بلک رہے ہیں اور ہزاروں بچوں کے والدین کا سایہ ان کے سر سے چھن گیا ہے ۔
یہ سب کچھ ایسے وقت میں سامنے آ رہا ہے جب روس نے طرطوس اور لاذقیہ کے ساحلوں کے مقابل متعین اپنی بحریہ کی جانب سے شامی شہروں پر دور مار کرنے والے میزائلوں کے ذریعے دوبارہ بم باری شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں ملک کے انفرا اسٹرکچر کو عظیم تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے علاوہ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ بھی ہوا ہے۔
خبریں یہ بھی ہیں کہ شامی صدر بشار الاسد سے تعلق رکھنے والی ملیشیا صقور الصحراء کے کمانڈر محمد جابر کا کہنا ہے کہ ملیشیا کے ارکان نے یقینی طور پر حلب میں بشار حکومت کے زیر کنٹرول آجانے والے علاقوں میں مختلف نوعیت کی چوری کی کارروائیاں کیں۔ مذکورہ ملیشیا کو ایران سے تربیت اور مالی رقوم ملتی ہے اور اس کے روس سے قریبی تعلقات ہیں۔
واضح رہے کہ شامی صدر کے ہمنوا ایک عرب سیٹلائٹ چینل کے نمائندے نے ایک شامی ریڈیو چینل سے گفتگو کرتے ہوئے اْن شامی سرکاری حکام کے ناموں کا انکشاف کیا جنہوں نے حلب میں بشار کی فوج کے زیر کنٹرول آنے والے علاقوں میں شہریوں کے گھروں میں چوریوں کا ارتکاب کیا۔چینل کے نمائندے کے مطابق حلب میں ان چوری کی کارروائیوں میں صقور الصحراء اور درع الامن العسری” ملیشیاؤں کے عناصر ، بشار الاسد کے ایک انتہائی قریبی فوجی افسر کرنل سہیل الحسن سے تعلق رکھنے والے عناصر ، علی الشلہ کے نام سے معروف ایک مقامی سرغنہ شامل ہیں۔نمائندے کے مطابق ان “مافیاؤں” کو مکمل سپورٹ اور تحفظ حاصل ہے اور کوئی ان کے نام لینے کی جرات بھی نہیں کر سکتا۔ نمائندے کے بیان کے نتیجے میں اسے متعدد اطراف سے قتل کی دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں۔مذکورہ شامی ریڈیو چینل نے صقور الصحراء ملیشیا کے کمانڈر سے جو اس وقت روس میں مقیم ہے رابطہ کیا اور اس کے عناصر کے ہاتھوں حلب کے شہریوں کے گھروں میں اور املاک کی چوریوں کی تصدیق چاہی۔ اس پر کمانڈر نے ان کارروائیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ روس سے واپسی پر حلب شہر میں اس نمائندے سے ملاقات کرے گا۔
یاد رہے کہ ذاتی املاک اور گھروں میں چوری کی کارروائیاں ان تمام علاقوں میں دیکھنے میں آ رہی ہیں جہاں شامی اپوزیشن کی فورسز کے نکل جانے کے بعد بشار کی سرکاری فوج کا کنٹرول ہوجاتا ہے۔ اس نوعیت کی چوریوں کا سب سے مشہور واقعہ کچھ عرصہ قبل دمشق کے نواحی علاقے “دارا” میں پیش آیا۔ شامی حکومت کے عناصر نے علاقے کے مکینوں کو زبردستی ہجرت پر مجبور کیا اور گھروں میں اعلانیہ طور پر چوری کی کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ اس حوالے سے بشار الاسد کے قریب شمار کیے جانے والے ایک میڈیانمائندے وسام الطیر نے اپنے فیس بک پیج پر بتایا کہ درحقیقت بشار الاسد کی ملیشیاؤں کے عسکری وردیوں میں ملبوس ارکان علاقے میں “جنگ کا مالِ غنیمت” بٹورنے کی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔