کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے!

shoaib-shaikh

ایگزیکٹ کے چیئرمین اور سی ای او شعیب شیخ یکم ستمبر کو رہا ہو گئے، مگر پاکستانی ذرائع ابلاغ اس پر پراسرار طور پر بے خبر رہے۔ پورےپاکستان کو شعیب شیخ کی گرفتاری پر ایک ہیجان میں مبتلا کردیا گیا تھا۔ اور اُن کے متعلق ایسی واہیات اور خانہ ساز خبروں کو گھڑ گھڑ کر پھیلایا گیا کہ روشن دماغ لوگ بھی آلودہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ پاکستان کے تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں شعیب شیخ کو ایک عفریت بنا کرپیش کیا گیا تھا۔ اور مسلسل کئی دنوں تک وہ ٹیلی ویژن کی تمام اسکرینوں اور اخبارات کے صفحہ اول پر دنیا کے سب سے بڑے تعلیمی فراڈ اور جعلی اسناد کے سب سے بڑے اسکینڈل میں ملوث قرار دیئے جاتے رہے۔ مگر بعد کے دنوں میں یہ سارا کھیل محض مسابقت میں ناکامی کے خوف کے باعث رچایا ہوا ایک ڈراماثابت ہوتا رہا۔

تفصیلات کے مطابق شعیب شیخ 27 مئی 2015 کو گرفتار کیے گئے۔ اُن پر ایک ہی الزام میں اسلام آباد میں الگ اور کراچی میں الگ مقدمات کااندارج ہوا۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک انوکھا واقعہ تھا۔ اسلام آباد میں 27 اور کراچی میں 14 افراد گرفتار کیے گئے تھے۔ شعیب شیخ کے خلاف پاکستان پینل کوڈ، الیکٹرانک کرائمز آرڈی نینس 2002اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010کی مجموعی طور پر کل سات دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے شعیب شیخ کو حراست میں لیا گیا اور بعد میں مقدمہ درج کیا گیا۔ پاکستان میں سیاسی طور پر مقدمہ کی تیاری اور ریاستی اداروں کو مقتدر اور بااثر افراد کے لیے استعمال کرنے کی اس سے بدترین مثال شاید ہی کبھی مل سکے۔ حیرت انگیز طور پر ذرائع ابلاغ نے شعیب شیخ پر جس منی لانڈرنگ کے حوالے سے سب سے بڑا طوفان مچایا تھا۔ اُنہیں یہ بھی اطلاع نہیں ہوسکی کہ وہ اس معاملے سے باعزت بری ہوگئے ہیں۔ شعیب شیخ اس مقدمے کے دوران باربار چیختے رہے کہ وہ ملک سے پیسہ بھیجنے کے مرتکب نہیں ہوئے بلکہ وہ تو ملک میں پیسہ لانے کے ذمہ دار ہیں۔ اُنہیں اس پر ایوارڈ ملنا چاہئے تھا مگر اُنہیں مقدمے میں الجھا دیا گیا۔

ایگزیکٹ پر الزام لگا کہ انہوں نے جعلی یونیورسٹیز بنا رکھی ہیں، نقلی ڈگریاں فروخت کرتے ہیں اور دنیا بھر میں ان کےدولاکھ سے زیادہ متاثرین ہیں، اس الزام کی آڑ میں ایف آئی اے نے ایگزیکٹ کے دفاتر پر قبضہ کرلیا جو آج تک جاری ہے، ایف آئی اے حکام ان کے پانچ ہزار سے زائد کمپیوٹر ز کی ہارڈڈسکس نکال کر بیچ چکے ہیں، ساڑھے نوسو سے زائد گاڑیاں قبضے میں لے لی گئی تھیں۔ حیرت انگیز طور پر ابھی تک ان چوریوں پر کوئی جواب دینے کو تیار نہیں۔ یہ سرکاری اداروں کا وہ چہرہ ہے جس سے اندازا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح نجی ملکیتوں کے ساتھ سلوک کرتے ہیں جب اُنہیں “اوپر” کی حمایت مل جائے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اتنے بڑے واقعات اور حادثات سے اُبھر کر واپس طلوع ہونے والے ایگزیکٹ کے چیئرمین شعیب شیخ کی رہائی کوئی ایسا واقعہ بھی نہیں کہ مرکزی ذرائع ابلاغ میں ایک سنگل کالم خبر بن سکے۔ اس ضمن میں ذرائع ابلاغ سے وابستہ ایک اہم تجزیہ کار نے کہا کہ شعیب شیخ نے رہاہو کر ایگزیکٹ کے دفتر میں قدم رکھا تو ایک بار پھر یہ ثابت کیا یہ وہ بڑے ادارے کے بڑے دل کا چیئر مین ہے۔ جس نے بے انتہابحرانوں کے نرغے میں رہنے کے باوجود اپنے ملازمین سے اپنے اوپر ظلم کے باعث رعایتیں نہیں مانگیں، بلکہ اُنہیں مراعاتیں دینے کا اعلان کر دیا۔ شعیب شیخ ذرائع ابلاغ کی دنیا میں بھی ملازمین کے لیے یہی فرق پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی لیے اُن کاراستا روکا جارہا ہے۔