آرٹس کونسل کے انتخابات: فن وادب کا ادارہ تاجروں اور صنعت کاروں کے نرغے میں

ahmed-shah

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے انتخابات ہوگئےمگر نتائج کا معاملہ تعطل کا شکار ہوگیاہے۔ نتائج میں تاخیر شہر قائد پینل کی جانب سے اعتراض کے بعد ہورہی ہے۔ جن کا کہناہے کہ برسر اقتدار گروپ نے اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھاکربیلٹ پیپر چھاپ لیےاورنتائج تبدیل کرنے کی کوشش کررہاتھا۔ احمد شاہ گروپ کاروایتی موقف سامنے آیا ہے کہ مخالفین ہار سے خو فزدہ ہو کر دھاندلی کے الزامات لگارہے ہیں۔

کمشنر کراچی نے، جو بر بنائے عہدہ آرٹس کونسل کے چیئرمین ہیں، مداخلت کرتے ہوئے فریقین کو بدھ کی صبح گیارہ بجے طلب کیاہے اب کیا فیصلہ ہوتاہے یہ تو چند گھنٹوں کے بعد ہی واضح ہو جائے گا مگر متاثرہ فریق عدم اطمینان کی صورت میں عدالت سے بھی رجوع کر سکتاہے۔

فن و ادب کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا یہ ادارہ اب تاجروں اور صنعت کاروں کے ساتھ ایسے لوگوں کابھی سالانہ مسکن بن گیا ہے جن کا فن تو دور کی بات ادب اور آداب سے دور کابھی رشتہ نہیں۔ سالانہ شاہی مہمان شاہ شاہ کرتے شاک دے جاتے اور ہاتھ کرجاتے ہیں۔ یہ شاہی رجحان آرٹس کونسل میں زیادہ پرانا نہیں، احمد شاہ اور یہ رجحان ساتھ ہی اس ادارے سے وابستہ ہوئے یہ فیصلہ مشکل ہے کہ کون پہلے آیا؟

احمد شاہ دوہزار نو میں پہلی مرتبہ سیکریٹری بنےاس کے بعد آئین میں ترمیم سے بلڈنگ میں اضافے تک تمام معاملات ان کے ہاتھ میں چلے گئے۔ اس سے پہلے اس ادارے میں دستوراور روایت کا دخل تھا پھر ان سب کوبے دخل کردیا گیا

آرٹس کونسل پردوہزار چار سے جزوی اور دوہزار نو سے مکمل طور پر احمد شاہ گروپ کا غلبہ ہےدوہزار نو میں پہلی مرتبہ احمد شاہ سیکریٹری بنےاس کے بعد آئین میں ترمیم سے بلڈنگ میں اضافے تک تمام معاملات ان کے ہاتھ میں چلے گئے۔ اس سے پہلے اس ادارے میں دستوراور روایت کا دخل تھا پھر ان سب کوبے دخل کردیا گیا۔ نوے کی دہائی کے آخر میں مرحوم ایس ایچ ہاشمی صاحب آرٹس کونسل کے نائب صدر بنے پھر ان کے صاحب زادےبھی رہے۔ ان حضرات کی آمد سے تاجر وصنعتکار اس ادارے کی جانب متوجہ ہوئے۔ پھر سیاسی جماعتو ں نے بھی اثر ونفوذ بڑھایا۔ مگر دوہزار دس کے بعد جو رجحان آیاہے اس نے آرٹس کونسل کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے پاکستان کی سیاست کی طرح دستور کو موم کی ناک بناکر محبین اور مخالفین کی سیاست کو پروان چڑھا کر احمد شاہ نےمزاج ہی بدل دیاہے۔ اب رواداری کی بجائے یہاں انتہاپسندی غالب آگئی ہے جو احمد شاہ کے حامی ہیں وہ شدید حمایت کرتے ہیں اور جو مخالف ہیں وہ اس سے زیادہ شدت رکھتے ہیں۔ ہرسال الیکشن سے پہلے چند سو نئے اراکین بناکراحمدشاہ جیت تو رہے ہیں مگر اس سے ا نکے مخالفین میں احساس محرومی بڑھ رہاہے اور وہ بھی ادارےپر ایک بارغلبہ حاصل کرنے کےلیے کسی کے ساتھ بھی جانے پر تیار ہیں اور ہر ایک سے حمایت لے رہے ہیں۔ اب برسر اقتدار گروپ سے مخالفین کا مطالبہ ہے کہ ری پولنگ کرائی جائے جبکہ احمد شاہ گروپ کی خود اعتمادی کا عالم یہ ہے کہ وہ کہہ رہاہے کہ کچھ بھی کرلو ساڈا پلہ بھاری ہے۔ اس حد سے زیادہ خو داعتمادی کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ جسے چاہے اپنے پینل سے الیکشن لڑادے، اسے جیت کا یقین بھی دلاتاہےاور اس یقین کےلوازمات بھی ساتھ لاتاہے۔ کس قدر عجیب بات ہے کہ گزشتہ سال کے انتخابات میں ایک مہم جو امیدوار نے شہر قائد پینل کے ارکان پر اپنی دریا دلی اور فیاضی کاتاثر قائم کر کےجوائنٹ سیکریٹری کا انتخاب لڑااور سودے بازی کی پوزیشن بناکر اس بار احمد شاہ پینل کاحصہ بن گیا چونکہ یہاں پینل کی جیت یقینی نظر آتی تھی اس لیے گورننگ باڈی کےرکن کی حیثیت سے لڑنا بھی گوارا کرلیاگیا۔ یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے ہے۔

باخبر ذرائع کا یہ بھی کہناہے کہ مذکورہ امیدوارعجلت میں کوئی عہدہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں انہیں کسی نےمشورہ دیاہے کہ غیر منفعت بخش فا ونڈیشن سے منافع حاصل کرنے کامعاملہ حساس اور تحقیقاتی اداروں کی نظر میں آچکا ہے،بچنے کاراستہ یہی ہے اس لیے لوٹا بننا بھی قبول کیا مگر شومئی قسمت کہ جیت یاتو چھن گئی یا پھر دور کردی گئی ہے۔