دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔ اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اللہ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔


سلوان

سلوان


شام سات بجے مجھے عمار اپنے گھر دعوت کے لیے لینے آگیا۔ سلوان کی بستی جہاں عبدالقادر کا گھر واقع ہے، اس کی تنگ و تاریک گلیوں سے گزرتے ہوئے مجھے لگا کہ عبدالقادر کا گھر مقبرہ ابسلام سے بہت نزدیک ہے۔ ہم جس گھر میں داخل ہوئے وہ اپنے سائز میں چھوٹا اور اپنی شان میں بہت بڑا تھا۔ اس کے ہر کونے اوردریچے میں محبت کا شاندار چراغاں تھا۔ ایسی اپنائیت اور اتنی گرمجوشی جو آپ کو اپنے پیاروں کے گھر میں داخل ہوتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔ وسطی دالان قدرے بڑا اور بیضوی تھا یہ ان کا مین لاؤنج سمجھ لیں۔ آل ابو صبیح کے بچے مہمان خصوصی کی آمد سے بے نیاز ادھر اُدھر دوڑ رہے تھے، خواتین خانہ تیاری طعام اور لامتناہی گفتگو میں مصروف تھیں۔ عبدالقادر کے صاحب زدگان کو البتہ ہوش ربا مہنگائی نے مار ڈالا تھا وہ سر جوڑے اس کے سدباب کا سوچ رہے تھے۔ صاحب خانہ خود ایک کونے میں بیٹھے تمباکو پی رہے تھے۔ میری آمد پر ہر جانب سے اظہار مسرت ہوا۔ مردوں کو افریقا آنے اور ملازمت و کاروبار میں دل چسپی تھی۔ اس کی بیٹی دعا جب میرے پاس آئی تو اس کی معصومیت اور رعنائی دیکھ کر مجھے لگا کہ میری بیوی اگر اسے دیکھ لیتی تو وہ اسے اپنی بہو بنانے کا سوچتی۔ دعا کو ڈاکٹر بننے میں دل چسپی تھی۔ ذہانت اس میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اس کا لب و لہجہ اعتماد سے شبنمی اور اس کا حوصلہ ان نامساعد حالات میں بھی غیر متزلزل تھا۔ اپنے تعلیمی مستقبل سے ہراساں تھی۔ اس کے پاس نہ وسائل تھے نہ کوئی اس کے معاملے میں دل چسپی رکھتا سوائے عبدالقادر کے جسے بہت ارمان تھا کہ وہ ڈاکٹر بن جائے۔ بے چارہ اپنی مالی حالت دیکھ کر اس بچی کے خواب سن کر بطور باپ روز شرمندہ ہوتا تھا۔ میں نے اس سے فی الفور وچن دیا کہ زندگی رہی تو وہ ڈاکٹر ضرور بنے گی ۔ اس کام میں میری مدد مکمل طور پر دامے، درمے، سخنے شامل رہے گی۔ آپ اسے بے جا بڑائی نہ مانیں تو خیر سے ہماری بھتیجی دعا کا داخلہ عرب دنیا کی ایک بہترین میڈیکل یونی ورسٹی میں ہوگیا ہے۔ اللہ عظیم ہے ۔ مسبب الاسباب ہے۔ دو ماہ میں ایک مظلوم اقلیت کی ایک نمائندہ ذہین لڑکی اپنے کیریئرکے ایسے راستے پر گامزن ہوگئی ہے جو دوسروں کے لیے بھی مشعل راہ ثابت ہوگا۔ ایک بہت بڑے عرب ڈاکٹر صاحب میرے دوست اس کے وہاں نگران و مربی بن گئے ہیں۔ یہ سارا گھرانہ بے حد خوش ہے۔

تل ابیب کے مخملی اور شاہانہ ڈیوڈ انٹرکانٹیننٹل کے ڈائننگ ہال میں اسرائیل کے بہترین یہودی ڈاکٹروں کی دعوت طعام سے ہٹ کر یہاں مظلومین کی بستی سلوان میں اپنے ہم مذہب مسکین طبع عرب خانوادے میں گھر کی پکی ہوئی مستند عرب ڈشوں کا ذائقہ ان کے خلوص نے دو بالا کردیا تھا۔ فلسطینی مقلوبہ کباب اور ان کا پکوان منصف ایسے لذیذ تھے کہ مجھے یقین آگیا کہ عبدالقادر کی بیوی جیسی دنیا میں کوئی عورت فلسطینی کھانا بنا ہی نہیں سکتی۔

کھانے کے بعد جب میں اور قادر بالکونی میں بیٹھے تھے تو میں نے اس سے ایک ہفتے کی ٹیکسی اور سفری رہنمائی کے معاوضے کا پوچھا تو وہ تاؤ کھاگیا کہ میں نے اس کی بے عزتی کی ہے۔ وہ کہنے لگا کہ زندگی بھر میں نے کئی مسافر اپنی ٹیکسی میں بٹھائے۔ ایسا کوئی نہ تھا جسے میں اپنے گھر میں ایسے لایا ہوں جیسے میرے بھائی آتے ہیں۔ تم بھاڑے کی سواری نہ تھے تم تو میرے بھائی ہو۔ تم یہ نہ سمجھو کہ میں نے تمہارے بارے میں گوگل نہ کیا تھا، مجھے تمہاری کافی مصروفیات اور اسٹیٹس کا علم تھا مگر عجب بات تھی کہ تم نے وہی کھایا جو میں نے کھلایا۔ کئی دفعہ میری کار کو دھکا بھی لگایا، کئی مرتبہ تم پیسوں سے بھرا بٹوا میری کار ہی میں چھوڑ گئے۔ میں نے تم سے ایک پھوٹی کوڑی بھی چارج نہیں کرنی۔ میں نے کہا یہ میرے لیے بہت ظلم کا مقام ہوگا کہ میں دس دن تک تمہارے وقت اور کار بمعہ پیٹرول اور تمہاری خوشدلانہ خدمات اور موجودگی کا کوئی معاوضہ نہ دوں ۔ محض اس لیے کہ تم مجھے بھائی کا درجہ دیتے ہو۔

وہ کہنے لگا کہ دکھ یہ ہے کہ ہماری رفاقت کے یہ دن بہت تھوڑے تھے۔ یہی کل دس دن۔ آؤ چائے پیتے ہیں۔ چائے ختم ہوئی تو میں نے اس کے پورے گھرانے کے نوجوانوں بچے بچوں کو بطور مالدار چچا اپنے ارد گرد جمع کیا اور اپنی جیب خالی کردی، یہ رقم اس سے کہیں زیادہ تھی جو قادر مجھ سے دس دن کے جائز طور پر مانگ سکتا تھا۔ وہ اور اس کے اہل خانہ احتجاج کرتے رہے مگر میں نے کہا یہ چچا اور ان بچوں کا معاملہ ہے مگر میں نے صرف اتنی درخواست کی کہ کل وہ ایئر پورٹ کا کرایہ نہیں مانگے گا کیونکہ میرے پاس نقد رقم اب بالکل ختم ہوگئی ہے۔ اگلی صبح وہ چار بجے مجھے لینے آگیا۔ ہوٹل کے منیجر رفیق صاحب موجود نہ تھے میں نے شکریے کا ایک نوٹ ایک عدد تحفے کے ساتھ چھوڑ دیا ۔ بل میں سر شام ہی ادا کرچکا تھا۔

یروشلم سے تل ابیب کے بن گوریاں ائیر پورٹ تک کا راستا ہم نے نسبتاً خاموشی کاٹا ۔ وہ جب میرا سامان کار کے بوٹ سے نکال رہا تھا تو میں نے بہت آہستگی سے اسے کہا کہ شکریہ ادا کرکے میں اس کی رفاقت کی توہین نہیں کرنا چاہتا۔ میں نے ایک دنیا دیکھی ہے، نصف سے زیادہ۔ ہر رنگ اور نسل کے لوگوں سے ملا ہوں پر تم بہت انوکھے ہو۔ میں تمہیں بھول نہیں پاؤں گا۔ اس نے بھی مجھے خبردار کیا کہ ایسا ہرگز نہ کرنا، اگلی دفعہ اپنے بیوی اور بچوں سمیت آؤ۔ ان سے کہنا تمہارا جیٹھ اور تمہارا تایا وہاں منتظر ہے۔

عبدالقادر سے گلے لگ کر بوجھل قدموں سے رخصت ہوا تو میرے Carry -on Baggage میں زندگی کے کئی سبق، دوستی کے نئے معیار میرے ساتھ تھے۔ کہنے کو وہ عرب، نیم خواندہ تھامگر محبت اور تعلق کو علم کا مساوی سمجھا جائے تو وہ ان مضامینِ دلداری میں یقینا ڈبل پی۔ ایچ ۔ ڈی تھا۔

اسرائیل کو چھوڑنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کسی مہم جو فوجی حاکم کے لیے کابل کو، مغل بادشاہ بابر نے جب انیس ماہ کی حکمرانی اور قبضے کے بعد دشمنوں سے جان بچا کر راہ فرار اختیار کی تو ہندوستان کا رخ کرنے سے پہلے اس نے کابل کے لیے کہا تھا کہ ’’ اس شہر میں بطور حاکم داخل ہونا آسان اور زندہ بچ نکلنا محال ہے ۔ وہی اسرائیل پر صادق آتا ہے۔ ایک سے زائد مقام پر آپ کی مغربی کنارے کے دورے سے ملاقاتیوں کے کوائف کے بارے میں تصدیق کی جاتی ہے۔ کئی مقامات پر آپ کو بلاوجہ روک کر بیگ کی دوبارہ تلاشی لی جاتی ہے۔ بمشکل فراغت ہوئی، ڈیپارچر لاؤنج میں کافی کی پیالی ہاتھ آئی تو میں سوچنے لگا کہ میرے تجربات کے اس سفر میں کتنے پرتو Layers ہیں۔ کچھ قابل بیان، کچھ نجی محسوسات۔ مثلامیری جو رات مسجد الاقصیٰ قدیم میں گزری وہ نجی وارداتوں کا ایک طوفان بلاخیز ہے، عشق کی ایک گھات ہے۔ داغ دہلوی نے کہا تھا

دل میں رکھنے کی بات ہے غم عشق
اس کو ہرگز نہ برملا کہیے

جو کچھ میں نے ان تینتیس اقساط میں بیان کیا ۔ وہ بعینہ وہی کچھ ہے جو میں نے دیکھا اور سمجھا ۔ اسرائیل کا سفر محض ایک ویزہ اور عبدالقادر کی سفری رہنمائی نہیں۔ یہ تو پیاز کی طرح پرت در پرت مسافت ہے چھیلتے چلے جاؤ ۔ مجھے یقین ہے میں نے فلسطنیوں کی زبوں حالی اور مظلومیت کو بلا کم و کاست سچائی سے بیان کیا ہے ۔ قدرے Clinically۔ اپنے مذہبی لگاؤ اور وابستگی کو وہاں شدت سے محسوس تو ضرور کیا مگر اسے اپنے بیانیے سے دور رکھا ۔ مجھے اس بات کا بھی شدت سے احساس ہے کہ ان فلسطینی عرب مسلمانوں کی جرات اور ان پر ہونے والے مظالم دونوں ہی کے بارے میں میرے اظہار ہمدردی اور ادارک میں ایک جڑواں کمزوری ہے۔

ایک اور پہلو کا بھی یہاں بیان لازم ہے اور یہ پہلو قدرے کم توجہی کا شکار رہا ہے۔ اس کے اظہار میں میرے کئی ایسے یہودی دوست جن کی انسان دوستی، دیانت داری اور قابلیت کی میں تہہ دل سے عزت کرتا ہوں وہ اس سے کچھ کبیدہ خاطر ہوں گے ۔ عالم اسلام میں بسنے والے خصوصاً ہر یہودی کو لالچی، بے ایمان، بے رحم اور اپنا اور اسلام کا دشمن سمجھتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں، میں نے دنیا بھر میں ان کے ساتھ کام بھی کیا ہے اور ان سے دوستیاں بھی پالی ہیں۔ یہ بڑے لاجواب لوگ ہیں۔ ان میں ڈاکٹر لانس اور ڈاکٹر کلور جیسے ہمدرد، وفا دار، دیانت دار اور غریب پرور انسان تو مسلمانوں میں نایاب ہوں گے۔ اسرائیل کے اس سفر میں میری آنکھیں ایک تلخ انکشاف نے کھول دیں۔ اسرائیل میں اپنی آنکھوں سے میں نے جو کچھ دیکھا۔ اس حقیقت کو اگر میں بیان نہ کروں تو یہ میرے لیے ایک جھوٹ اور روحانی اور عالمانہ غداری ہوگی ۔

مراکش کے یہودی علما

مراکش کے یہودی علما


آپ تو جانتے ہی ہیں کہ جنگ عظیم اول سے ہی ایک تسلسل سے د نیا کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ یہودی ایک مذہب اور ایک قوم ہے۔ اسرائیل ان کی ارض موعود یعنیPromised Land ہے۔ اس سر زمین قدیم جہاں وہ خود بھی جان بچا کر بطور پناہ گیر مصر سے پہنچے تھے۔ اس سرزمین وعدہ میں رہنے کا حق تنہا صرف ان ہی کوہے۔ یہ محض ایک صیہونی پروپیگنڈہ ہے۔ یہودی بھی نسلاً ایک دوسرے سے اتنے ہی مختلف ہیں جتنے مختلف اقسام کی بلیاں اور طوطے ۔ عرب روسی اوریہودی، ایتھو پیا کا سیاہ فام یہودی اور ایران کا یہودی، یورپ کا یہودی اور ہندوستانی یہودی یہ ایک دوسرے کو اسرائیل میں اپنی زبان نسل، کلچر اور دیگر تخصیص کی بنیاد پر ایک دوسرے کو خوش دلی سے برداشت نہیں کرتے ۔

اسرائیل کی موجودہ صورت حال کو اگر تاریخ کے تناظر میں دیکھیں تو یہودی واضح طور پر دو بڑے گروہوں میں منقسم ہیں۔ ان کو Sephardic یعنی ہسپانوی اور عرب یہودی جن میں Mizrahi بھی شامل ہیں، جنہیں خود عرب سفاردیون اور المشرقیون کہتے ہیں اور Ashkenazic” یعنی جرمنی، روس اور اس سے ملحقہ علاقوں کے یہودی۔ ان کی بڑی اکثریت امریکا، اسرائیل، جرمنی، برطانیا اور کینیڈا میں رہتی ہے اور کل تعد اد سوا کروڑ کے لگ بھگ ہے ۔

عرب یہودی حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے شام کی اولاد ہیں ۔ مذہبی تفاوت سے قطع نظر عرب عیسائی، عرب یہودی اور عرب مسلمان دور کہیں جاکر آپس میں خونی رشتوں سے جڑے ہیں۔ یوں یہ سب ایک ہی نسل، علاقے اور زبان کے مضبوط بندھنوں سے پیوستہ لوگ ہیں۔ یہ پر امن طور پر رہنے کے عادی ہیں۔ ایک دوسرے سے زبان اور ثقافت کے حساب سے ایسے جڑے ہیں کہ عرب مسلمان، عرب یہودی اور عرب عیسائی کا ایک گروپ اگر کہیں موجود ہو تو وہ ایک پنجابی مسلمان، کیرالہ کے یہودی اور نیپالی عیسائی کے دوسرے گروپ کی نسبت آپس میں ایک دوسرے سے زیادہ یگانگت اور لگاؤ محسوس کرے گا اور پہلا گروپ پہلے گروپ والوں میں ہی زیادہ گھل مل جائے گا یقین مانیے عرب مسلمان، عرب یہودی اور عرب عیسائی ایک بنگالی، پختون اور کاشغر کے مسلمان کی نسبت زیادہ شیر و شکر ہوں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے ۔ آپ مان لیں تو اچھا ہے۔

جنگ عظیم اول کے بعد Sykes-Picot معاہدے کے تحت قومی ریاستوں نیشن اسٹیٹ کے قیام سے قبل بہت امن و سکون اور بھائی چارے سے رہتے تھے۔ ان میں قتل و غارت گری کی کوئی بڑی تاریخ نہیں ۔ اسلام اپنے دور وسعت میں بھی عرب یہودیوں کے لیے کبھی بہت بار گراں نہیں رہا۔ جتنے روہنگیا مسلمان برما میں بدھ بھکشو وؤں نے مارے ہیں ان کی نسبت آدھے مسلمان بھی رسول اکرم ﷺکے زمانے سے آج تک یہودیوں کے ہاتھوں ہلاک نہیں ہوئے۔

Ashkenazi یہودیوں کا معاملہ مختلف ہے۔ یہ وسطی ایشیا کے جنگجو، لادینی قبیلوں Khazars کی اولاد ہیں۔ یہ ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جو بہت شدید اخلاقی انحطاط کا شکار تھا۔ سن750 عیسوی میں ان کے بادشاہ بولان نے اپنی قوم کا اخلاقی قبلہ درست کرنے کے لیے ایک بڑے دین کو اپنانے کاسوچا۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنی مملکت میں موجود یہودی، عیسائی اور مسلم مذہبی رہنماؤں کو مکالمے کے لیے طلب کیا۔ اس نے بہت تحمل سے تینوں کے دین کے محاسن کو سنا اور یہودی مذہب کو اپنا سرکاری مذہب چن لیا۔

اس فیصلے میں سیاسی مصلحت زیادہ اور مذہبی ذوق فکر کم تھا۔ اس کی بادشاہت کو ایک جانب سے مسلمان مملکتوں نے تو دوسری جانب سے عیسائیوں نے گھیرا تھا۔ کسی ایک کو اپنانے کا مطلب دوسرے کو مستقل بنیاد پر ناراض کرنا تھا۔ منگولوں نے چنگیز خان کے دور میں انہیں ما ر بھگایا تو یہ مغرب کی سمت پولینڈ اور ملحقہ روسی علاقوں میں ہجرت کی تلخیوں، دطن کی محرومی اور اپنی طاقت میں بے پناہ اضافے کے جذبات اپنے دلوں میں چھپائے پناہ گزیں ہوگئے۔

ان یہودیوں کو وہاں مقامی زبان میںAshkenazi کہا جانے لگا یعنی قازار پناہ گیر۔ تب تک صلاح الدین ایوبی کے طبیب یرون بن ماؤن نے تلمود ترتیب دے دی تھی۔ یہ ان قبائل کے لیے توریت کی نسبت زیادہ قابل عمل کتاب تھی۔ اس میں63 ابواب ہیں جو سماجی قوانین پر مشتمل ہیں جنہیں یہودی ربائیوں کے ایک چھوٹے سے گروپ نے اپنی سمجھ سے لکھا تھا۔ اس میں غیر یہودیوں یعنی Gentiles, کے لیے بہت نازیبا کلمات درج ہیں، کئی مقامات پر تو انہیں جانوروں کا ہم پلہ شمار کرکے ان کی عورتیں مال منال مملکت سبھی پر جائز ناجائز طریقے سے قبضہ یہودیوں کے لیے Kosherیعنی حلال اور پسندیدہ فعل قرار دیا گیا ہے۔

اشکینازی یہودیوں کے سربراہ ڈیوڈ لاؤ

اشکینازی یہودیوں کے سربراہ ڈیوڈ لاؤ


اسرائیل میں موجود حکمران طبقہ اور یورپ امریکا کے بیشتر بااثر اور مالدار صیہونی یہودی انہیںAshkenazi یہودیوں کی اولاد ہیں۔ دنیا بھر میں جو بڑے یہودی نام ہیں ان کی اکثریت جیسے ڈارون، آئن اسٹائن، برنی سینڈر، ٹراٹسکی، کارل مارکس، ٹراٹسکی، میڈلن البرائٹ، روتھ شیلڈز، سوروز، موشے دایان، بن یامین نیتن یاہو، اداکارہ اسکارلیٹ جوہناسن ان ہی اشکانزئی یہودیوں کی نسل ہیں ۔ ان کے طرز فکر اور ان کے رویے پر تلمود کی انہیں انتہا پسندانہ تعلیمات کا اثر بہت شدت سے غالب ہے۔

اسرائیل کے یہ یورپی یہودی Mizrahi اور Sephardic یہودیوں کو وہی درجہ دیتے ہیں جو ہندوستان میں دلت ہندو جاتی کو دیا جاتا ہے۔ انہیں جاہل، کم عقل اور حقیر سمجھا جاتا ہے۔ بہترین ملازمتوں کے دروازے ان پر مسقلاً بند ہیں۔ تل ابیب، جافا میں رہنے والے کئی ایسے خاندان یہودیوں کی اسی عربی ا لنسل شاخ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ مظلوم یہودی خط غربت سے نیچے بہت غیر انسانی معیار کی زندگی گزارتے ہیں، میں نے ان کی بستیوں میں کئی ایسے افراد دیکھے جو یہودی تھے اور فلسطینی عرب مسلمانوں کی سی مظلوم، بے آسرا اور غربت کی ماری زندگی گزار رہے تھے۔ صرف یہودی ہونے کی وجہ سے ان پر وہ بے رحم قوانین کا سنگ دلانہ اطلاق نہیں ہوتا جن کا وہاں کے عرب مسلمانوں کو آئے دن سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنے قیام کے دوران مجھے ان Sephardic یہودیوں کاایک ایسا بھی گھر دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں دو کمرے کے گھر میں اٹھارہ افراد رہائش پزیر تھے۔

تل ابیب اور ان کی بستیوں میں آپ کو کم سن، بمشکل بالغ لڑکیاں بطور طوائف عام دعوت گناہ دیتی دکھائی دیں گی۔ ان مظلومین کا موازنہ آپ غریب سے غریب مسلمان عرب بستی سے کریں تو کیامجال آپ کو کوئی بوڑھی عورت بھی بے حجاب اور بلا ضرورت گھر سے باہر دکھائی دے ۔ میں نے معصومیت، پاکیزگی، بلند کرداری، صبرجمیل کے جو عظیم اور قابل تقلید اوصاف ان خواتین کے معمولات زندگی میں دیکھے وہ قابل تحسین و دعا ہیں ۔ غیرت، کردار اور عورتوں کے معاملے میں فلسطین کے عرب مسلمانوں کا طرز فکر خالصتاً اسلامی افکار پر استوار ہے اور قدرے قدامت اور شدت پسند سلفی سوچ والا۔ اللہ ان کی استقامت کی جزا ان کو یہاں اور بعد اززماں بھی دے۔

سفاری یہودیوں کے رہنما ربائی یوسف استاخیز

سفاری یہودیوں کے رہنما ربائی یوسف استاخیز


ایک اور بے حد دل چسپ راز

فدائی حملوں میں فلسطینی عرب اس بات کا خاص اہتمام کرتے ہیں کہ عربی النسل Sephardic یہودیوں کو نشانا نہ بنائیں۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے انہیں چھوڑ دیا اور یورپی نسل کےAshkenazi یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اب آپ کو علم ہوگیا ہوگا کہ ایرانیوں کی طرح عربوں میں بھی رشتہ داریوں کا جال بہت دور تک اور بری طرح سے پھیلا ہے۔ یہ سب کے سب نسل پرست ہیں۔ Sephardic یہودیوں کی اکثریت اب یورپ کا رخ کررہی ہے۔ صرف وہی یہاں رکے ہوئے ہیں جن کے پاس سفر کا وسیلہ نہیں۔ آپ کو اس نسلی امتیاز، اس معاشرتی تفاوت کا ادراک دلانا ضروری تھا۔ قومیں جب نسل و زبان کو اپنا بنیادی بونڈ بناتی ہیں تو اس میں بہت سی فرقہ بندیاں ہوجاتی ہیں۔

مجھ پر یہ فرض بنتا ہے کہ میں آپ کو اس حقیقت سے آگاہ کروں کہ اسرائیل میں یہ نسلی امتیاز جس بُرے طریقے سے یہودیوں نے درآمد کیا ہے۔ یہ نسلی امتیاز ان کی قومی زندگی کے رگ و پے میں ایک خفیہ زہر بن کر سرائیت کرچکا ہے ۔ اس کے بارے میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت لا علم ہے۔ جس طرح امریکی مغربی استعمار عیسائی نیو کونز اور صیہونیت نے روس کی افغانستان میں آمد اور ایرانی انقلاب کی در پردہ شدید معاونت کرکے ہمارے ہاں اب فرقہ واریت کو ہوا دے کر دنیائے اسلام کو سنی ۔ شیعہ کیمپ میں تقسیم کردیا اور مشرق وسطی میں ایک آتش نمرود بھڑکا دی ہے۔ اسی طرح ہمیں بھی اپنے بیانیے کے خطوط نئے طور پر استوار کرنے پڑیں گے تاکہ جب نئے حرب عظیم یعنی Armageddon. کا وقت آئے تو ہمارے لیے دوستوں اور دشمنوں کی تقسیم سہل ہوجائے۔

اسرائیل کی ائیرلائن El-AL نے جوہانسبرگ کے لیے اڑان بھری تو مجھے کئی جانے پہچانے چہرے نظر آئے، ایتھوپیا کے سیاہ فام درجہ سوئم یہودی، خوش حال جنوبی افریقی گورے درجہ اول کے یہودی۔ عیسائی پادری اور نن بی بیاں، میری نشست بدقسمتی سے کسی برق تپاں خاتون کے بجائے زندگی کے دن تسبیح پر شمار کرتی ایک بوڑھی یہودن اگاتھا کے پہلو میں تھی۔ میری نشست پر آمد سے وہ ایسے ہی خوش ہوئی جیسے میں اداکارہ جینفر لارنس ماڈل گیگی حدید یا دیپکا پڈکون کے آنے پر ہوتا۔

اپنی دانتوں سے عاری بے پایاں مسرت کا اظہار اس نے اتاولے پن سے ایک جنجر بسکٹ مجھے تھما کر کیا۔ میرے دوست اقبال دیوان ساتھ ہوتے تو کہتے ’’ ہائے بچاری ہماری زندگی ۔ ڈاکدر کیش بابو کس دوراہے پر آگئی ہے۔ یہ پہلی خاتون ہے جو اپنی ہی سیٹ پرہمارا انتظار کرکے بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہوگئی ہے‘‘مادام اگاتھا کی ملازمہ ان سے پرے اکانومی کلاس میں موجود تھی ۔ خود سال بھر کی اسرائیل یاترا سے لوٹ رہی تھیں۔ جہاز نے ٹیکسی کرنا شروع کیا تو میں نے کھڑکی سے اس بنجر و بے لطف زمین پر نگاہ ڈالی جسے انبیاء نے اپنا مسکن بنایا۔ مجھے ایسا لگا کہ ائیرپورٹ کی بتیوں کی جگہ عبدالقادر، نبیل انصاری، راجہ ممریز، نبیل انصاری اور شیخ نائف مجھے ہاتھ ہلا کر رخصت کررہے ہیں۔ میرے ذہن میں عالی مرتبت شیخ نائف کے الفاظ گونج رہے تھے ۔

انہوں نے کہا تھا ’’۔ ‘ ابتدائے آفرینش سے ہی اہل سلوک و مشتاقان دید و دلداری یہاں تلاش حق میں آئے ۔ ہمیشہ سے لٹتی اس سرزمین نے آستانہ اور دامن درویش کی طرح کسی کو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹایا۔ جان لو کہ اس سر زمین نے تمہیں بھی اپنالیا ہے۔ یہ اب تمہارے وجود کا حصہ بن گئی ہے۔ یہاں سے کبھی کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹا، تم غور کروگے تو تمہاری زندگی بھی یہاں سے لوٹ جانے کے بعد نئی وابستگیوں سے آشنا ہوجائے گی‘‘۔

میں انہیں خیالات میں غلطاں تھا کہ اسپیکر پر اعلان ہوا کہ اسرائیل کی مقدس سرزمین کو ہم اب خیر باد کہنے والے ہیں۔ جو منظر یہاں آمد کے وقت تھا اس میں رجائیت تھی تو اب دم رخصت معاملہ اس کا بالکل الٹ شام غریباں والاتھا ۔ ایک طرف تو جھک جھک کر کورنش بجاتے ہوئے ربائی سوگوار تھے تو تقدیس جدائی سے نڈھال فربہ اندام یہودی بیبیاں بھی باآواز بلند ہچکیاں لے لے کر اشک بار تھیں۔ انہیں مسافران دل گزیدہ میں جوہانسبرگ کے ایک سنگ دل ہارٹ سرجن کے دو آنسو بھی اشک رواں کی اس لہر میں چپکے سے شامل ہوگئے تھے۔


اختتامیہ

میں اپنے عزیز دوست اقبال دیوان کا مشکور و ممنون ہوں جن کی بے حد حوصلہ افزائی اور تحریک پر مجھے جرات اظہار ملی۔ وجود کے ایڈیٹر محمد طاہر کا بھی شکریہ جن کی فراخ دلی نے میری ان نگارشات کو بہ کمال حسن اور مناسب انداز میں پیش کیا۔

دیوان صاحب نے اسے بے حد دل چسپ پیرائے میں قالب اردو میں ڈھالا۔ میرے جملے اور بیانیہ ایک طبیب بے نوا کا نسخہ ہوتے تھے۔ سرجیکل آلات جیسے بے رحم اور مطلب پرست، پتلے حفاظتی دستانوں جیسے بے لذت۔ دیوان صاحب انہیں ایسا پرکار بناتے اور برمحل تصاویر سے یوں مزین کردیتے کہ قاری رفیق سفر بن جاتا تھا۔ ان کی ہمت افزائی نہ ہوتی تو مجھے ادیب بننے کا یہ چسکا بھی نہ پڑتا۔ یہ جرات تحریر نہ آتی۔ یوں یہ سفر نامہ ایک تحریک نہ بنتا جس کی وجہ سے وہاں مقیم بہت سے نوجوان مظلومین کی زندگی نہ بدل پاتی۔ آپ نے عبدالقادر کی صاحبزادی دعا کا احوال تو پڑھ ہی لیا کہ کس طرح اس کی رکی ہوئی تعلیم کا سلسلہ یوں جڑا کہ وہ اپنے گھرانے اور قبیلے کی ڈیڑھ سو لڑکے لڑکیوں میں پہلی بچی ہے جو کچھ بین الاقوامی مسلمان مہربان ڈاکٹروں کے طفیل عرب دنیا کے بہترین میڈیکل کالج میں پہنچ گئی ہے۔ سوچئے اس سفر نامے نے چند درد مند بااثر کو آپس میں کیسے جوڑ دیا ہے کہ یہ تحریک کسی ضابطے، قانون کو توڑے بغیر چند مظلوم ترین افراد کی زندگی میں ایک عظیم تبدیلی کا باعث بن گئی اور اللہ کی مدد شامل حال رہی تو اس چراغ سے مزید چراغ جلیں گے۔

میرے قارئین کا بھی بے حد شکریہ، جنہوں نے ہر قدم، ہر فقرے، ہر مقام پر اپنی دل چسپی کا برقی پیغامات اور فیس بک کے ذریعے اظہار کیا۔ یہ میر ے لیے بہت حوصلہ افزائی کا باعث بنا۔ اللہ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور آپ کی اور فلسطینی عرب مسلمانوں کی مشکلات آسان کرے۔ میرے وہ قارئین جنہیں وقت اور یادداشت اتنی مہلت نہیں دیتے وہ تین ماہ اور صبر کریں تاکہ یہ سفر نامہ کتاب کی صورت میں انہیں مل جائے۔

اسکول واپسی

اسکول واپسی