تری پورہ کے مسلمانوں کا قصور کیا ہے؟

شمال مشرقی ریاست تری پورہ میں کئی روزسے شعلے بلند ہورہے ہیں۔یہاں وشوہندو پریشد کے کارکنوں نے مسجدوں ، مسلمانوں کے گھروں اور کاروباری اداروں کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران کم ازکم ایک درجن سے زائد مسجدوںمیں توڑپھوڑاور آتشزنی کی گئی ہے اور مسلمانوں کے مکانوں ، دکانوں اور کارخانوں پر جارحانہ حملے کئے گئے، جس کے نتیجے میں مسلمانوںکو خاصامالی نقصان پہنچا ہے۔مسجدوں سے جلے ہوئے قرآنی نسخے اور حدیث کی کتابیں برآمد ہوئی ہیں۔وشوہندو پریشد کے سینکڑوں کارکنوں نے تری پورہ کے مختلف حصوں میں ریلیاں نکال کر مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزنعرے لگائے۔یہی وجہ ہے کہ تری پورہ کے مسلمان عدم تحفظ کے شدید احساس مبتلا ہیں۔کئی علاقوں میں وہ اپنے مکان اور کاروباری ادارے چھوڑکر محفوظ علاقوں میں چلے گئے ہیں۔کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ’’تری پورہ میںمسلمانوںبھائیوں پر مظالم ہورہے ہیں۔ہندو کے نام پر تشدد برپا کرنے والے ہندو نہیں بلکہ ڈھونگی ہیں۔‘‘کئی دیگر ارکان پارلیمنٹ نے بھی تری پورہ کے واقعات کے لیے آرایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کو موردالزام قرار دیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ تشدد بنگلہ دیش میں مندروں پر ہوئے حملوں کا ردعمل مانا جارہاہے۔ کئی جگہ وشوہندو پریشد نے جلوس نکال کر اشتعال انگیزی کی ہے اور بنگلہ دیش کے واقعات کا انتقام تری پورہ کے مسلمانوںسے لینے کی کوشش کی گئی ہے۔واضح رہے کہ تری پورہ بنگلہ دیش کی سرحد سے ملا ہوا ہے اور یہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ یہاں کی بیشتر آبادی ان ہندوئوں پر مشتمل ہے جوبنگلہ دیش سے نقل مکانی کرکے یہاں آباد ہوئے ہیں۔بنگلہ دیش میں اس ماہ کے اوائل میں درگا پوجا کے دوران ایک مندر میں قرآن کی بے حرمتی کے بعد مندروں پر حملے ہوئے تھے اور ہندوئوں کے کاروباری اداروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس پر ہندوستان نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے بنگلہ دیش حکومت سے ہندوئوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کہا تھا۔ جبکہ اس سے پہلے ہی بنگلہ دیش سرکار حرکت میں آگئی تھی اور اس نے تشدد میں شریک لوگوں پر پولیس فائرنگ بھی کی تھی جس کے نتیجے میں کم سے کم پانچ بنگلہ دیشی مسلمان ہلاک ہوگئے تھے۔ پولیس نے تشدد میں شامل لوگوں کے خلاف 72 مقدمات درج کئے تھے اور کم وبیش 700 افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔ بنگلہ دیش حکومت کے وزیرنے ہندو علاقوں میں جاکر ان کے زخموں پر مرہم رکھا تھا، لیکن تری پورہ میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور مسجدوں کو نشانہ بنائے جانے کے دس دن بعد بھی نہ تو ریاستی حکومت نے کوئی مذمتی بیان جاری کیا ہے اور نہ ہی مرکزی حکومت نے اس سے بازپرس کی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تری پورہ کے مسلمانوں کے خلاف جارحیت میں شامل کسی ایک بھی شخص کو ابھی تک گرفتار بھی نہیں کیا گیا ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر تری پورہ کے مسلمانوں کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے؟اگر بنگلہ دیش میں مندروں پر حملے ہوئے ہیں تو اس کاقصوروار تری پورہ کے مسلمانوں کو کیوں ٹھہرایا جا رہاہے؟
ہم آپ کو یاد دلادیں کے جس وقت بنگلہ دیش میں مندروں پر حملوں کے واقعات پرہندوستان نے اپنا ردعمل ظاہر کیا تھا تو وہاں کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے ہماری حکومت کو باخبر کیا تھا کہ وہ اپنے ہاں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم پر روک لگائے، کیونکہ اس قسم کے واقعات کا ردعمل بنگلہ دیش میں بھی ہوتا ہے۔اس بات سے قطع نظر کہ ہندوستان کو بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنی چاہئے تھی یا نہیں ،یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ شیخ حسینہ واجد نے قصورواروں کے خلاف سخت ایکشن لیا۔ پولیس فائرنگ ہوئی اور سینکڑوں ملزمان کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ بنگلہ دیش کابینہ کے ایک سینئر وزیر نے متاثرہ ہندو خاندانوں سے جاکر ملاقات کی اور ان کے زخموں پر مرہم بھی رکھا۔
اس معاملے میں مزید روشنی ڈالنے سے قبل ہم آپ کو تھوڑا پیچھے کی طرف لیے چلتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگاکہ گزشتہ سال کے شرو ع میں دہلی کے نارتھ ایسٹ علاقہ کے سیلم پور، جعفرآباد علاقوں میںہوئے فرقہ وارانہ فساد میں درجنوں مسلمانوں کی جانیں گئی تھیں۔ پولیس نے سینکڑوں مسلمانوں کو ہی فساد بھڑکانے کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا ، جو آج بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اس انتہائی ہولناک فساد کے بعد پوری دنیا نے اپنی تشویش ظاہر کی تھی۔ ترکی اور ایران جیسے مسلم ملکوں نے بھی باقاعدہ ہندوستان سے احتجاج درج کرایا تھا۔لیکن ہماری حکومت نے ترکی اور ایران کے احتجاج کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا تھا کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر اسلامی ملکوں کا احتجاج مودی سرکار کے لیے اس کا ’اندرونی معاملہ ‘ہے تو وہ پھرکس منہ سے بنگلہ دیش میں مندروں اور ہندوئوں کی املاک پرہونے والے حملوں کے خلاف بنگلہ دیش سے احتجاج درج کرارہی ہے؟
تری پورہ میں تشدد کا شکارہونے والے عبدالمنان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’’ میری عمر44 سال ہے،لیکن میں نے کبھی ایسے حالات نہیں دیکھے۔ اب جینا مشکل ہوگیا ہے۔حملے سے ایک رات پہلے وشوہندو پریشد کے ارکان نے ان کے گھر پر بھگوا جھنڈا لہرایا تھا۔عبدالمنان ایک معروف تاجر ہیںاور صوبائی اسمبلی کے ایک ممبر کے قریبی رشتے دار بھی ہیں ، لیکن وہ خود پر ہونے والے حملے کو نہیں روک پائے۔وہ کہتے ہیں کہ جہاں ہم رہتے ہیں، وہاں مسلمانوں کے صرف پانچ دس گھر ہی ہیں۔ اگر حملے نہیں رکے تو ہمیں کسی ایسی جگہ جاکر رہنا پڑے گا، جہاں مسلمانوں کی اچھی آبادی ہو۔‘‘
تریپورہ میں مسلمانوں کی آبادی دس فیصد سے بھی کم ہے۔یہاں مسلمان کسی ایک جگہ نہیں رہتے بلکہ ان کی آبادی پورے صوبے میں پھیلی ہوئی ہے۔تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے وہ فرقہ پرست طاقتوں کاآسان نشانہ ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولیس وشوہندو پریشد کو شر پھیلانے سے روکنے کی بجائے ان کے ساتھ بالواسطہ تعاون کررہی ہے۔شمالی تریپورہ کی رہنے والی تانیہ خانم کہتی ہیں کہ ہندو شدت پسند پورے صوبے میں ریلیاں کررہے ہیں اور مسلم مخالف نعرے لگارہے ہیں۔تشدد کئی دن سے جاری ہے ، لیکن جیسے ہی مسلمانوں نے اس کی مخالفت کی، پولیس نے فوراً امتناعی احکامات نافذ کردئیے۔ تری پورہ اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن آف انڈیا کے صدرشفیق الرحمن کا کہنا ہے کہ انھوں نے چند مسجدوں کا دورہ کیا ہے ، لیکن حالات نازک ہونے کی وجہ سے وہ ہندو اکثریتی علاقوں کی مسجدوں میں نہیں جاسکے ہیں۔انھوں نے کہا کہ پورے تریپورہ کے مسلمانوں خوفزدہ ہیں۔ انھوں نے سبھی ہندو نوجوانوں کو شدت پسند بنادیا ہے۔شفیق الرحمن کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب یہ لوگ مسجدوں کو جلاکر چلے جاتے ہیں، تب انتظامیہ دفعہ 144نافذ کرتا ہے۔
بی جے پی کے دور اقتدار کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں فرقہ پرست اور فسطائی عناصر کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔مسلمانوں کے خلاف بڑی سے بڑی واردات پر بھی پولیس اور انتظامیہ حرکت میں نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے حوصلے آسمان کو چھورہے ہیں۔اس کے برعکس پڑوسی ملکوں میں اگر کہیں ہندوئوں کے خلاف کوئی واردات ہوتی ہے تو اس پر سخت ایکشن لیا جاتا ہے۔اس کا ایک ثبوت حال ہی میں پاکستان سپریم کورٹ کے ایک فیصلے سے ملا ہے۔جس میںخیبرپختون خوا کے کراک علاقے میں ہندو مندرکو جلانے میں شامل ملزمان سے 33 کروڑ روپے وصول کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جرمانے کی ادائیگی کے لیے ملزمان کو ایک ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔اس کے ساتھ عدالت نے ہندوئوں کو اتنی زمین میں مندر بنانے کی اجازت دی ہے ، جتنی زمین میں وہ مندر بنانا چاہتے ہیں۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کی قیادت میں دوججوں کی بنچ نے دسمبر2020میں ہجوم کے ذریعہ ایک مندر کو منہدم کرنے کے واقعہ کا ازخود نوٹس لیا تھا۔ اس معاملے میں 123ملزمان ہیں تو وہیں سرکار نے مندر کی تعمیر نوپر 33کروڑروپے خرچ کیے ہیں۔یہ رقم اب مندر مسمار کرنے والوں سے وصولی جائے گی۔ اس کے برعکس اگر آپ اپنے ملک کا جائزہ لیں تو پائیں گے کہ عدالت نے ان تمام ہی ملزمان کو باعزت بری کردیا ہے جنھوں نے6دسمبر1992کو دن کے اجالے میں بابری مسجد شہید کی تھی۔ عدالت نے ہی اس جگہ رام مندر بنانے کا فیصلہ سنایا ، جہاں زور وشور سے رام مندر کی تعمیر کا کام جاری ہے۔اس سے ا?پ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کس ملک کی اقلیتیں کس حال میں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔