چین کی عسکری صلاحیت’’عالمی رونمائی‘‘ کی منتظر ہے!

۔

چین لڑنا نہیں چاہتاہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چین لڑنا جانتانہیں ہے۔چونکہ ہزاروں سال سے چینی تہذیب و سرزمین اَمن و اَمان کا گہوارہ رہی ہے۔ اس لیے آج بھی چینی قیادت کی اوّلین کوشش تو یہ ہی ہے کہ عسکری تنازعات سے حتی المقدور اجتناب برتتے ہوئے صرف تجارت اور اپنی ہنرمندی کے بل بوتے پر ہی دنیا کی عالمی سیادت کا تاج اپنے سر پر سجالیا جائے ۔ مگریہاں مصیبت یہ ہے کہ اس وقت عالمی قیادت جس امریکا کے پاس ہے ، اُس نے ماضی اور حال کی ساری کامیابیاں ہی فقط جنگ و جدل کے بل بوتے پر حاصل کی ہوئی ہیں ۔ لہٰذا چینی قیادت جس قدر بھی اپنے دامن کو جنگ کے شعلے سے بچانے کی کوشش کرلے لیکن بہت جلد امریکا اور اس کے حلیف ممالک چین کو ’’میدانِ جنگ‘‘میں اپنے ہمراہ گھسیٹ ہی لیں گے۔
میرے خیال میں اِس حقیقت کا ادراک اَب چینی قیادت کو بھی بڑی تیزی کے ساتھ ہوتا جارہاہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے چینی صدر شی جن پنگ نے گزشتہ ہفتہ چین کی مسلح افواج کو مزید مضبوط بنانے کے لیے’ ’ملٹری ٹیلنٹ کلٹیویشن‘‘ڈاکٹرائن متعارف کروانے کے احکامات جاری کردیے ہیں ۔ یاد رہے کہ شی جن پنگ نے کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے چین کے تاریخ کے سب سے طاقت ور چینی صدر بن جانے کے بعد اپنے لامحدود انتظامی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے یہ پہلا ایسا بڑا حکم نامہ جاری کیا ہے۔ جسے عسکری ماہرین کی اکثریت چینی مسلح افواج کے اعلیٰ معیار کی ترقی، فوجی مقابلے میں فتح حاصل کرنے اور مستقبل کی جنگوں میں بالادستی حاصل کرنے کی صلاحیت میں بڑھوتری کے لیے انتہائی غیر معمولی پیش رفت قرار دے رہی ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کی جانب سے اس خیال کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ ’’ملٹری ٹیلنٹ کلٹیویشن ‘‘جیسے نظریے کا چین کی مسلح افواج میں عملی نفاذ کر کے شی جن پنگ2027 میں پیپلز لبریشن آرمی کے صد سالہ جشن کے موقع پر چینی افواج کو دنیا کی سب سے طاقت ور ،مضبوط اور جدید فوج کے روپ میں پیش کرنا چاہتے ہیں ۔مگر یہاں اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا چین صرف اپنی مسلح افواج کو جدیدترین اسلحے اور افرادی قوت کے لحاظ سے ہی ایک طاقت ور فوج بنانا چاہتاہے ؟ یا چینی صدر شی جن پنگ کسی میدان ِ جنگ میں چین کے مسلح افواج کی غیر معمولی حربی صلاحیتوں کا عملی مظاہر ہ بھی ساری دنیا کو دکھانا چاہیں گے؟ دراصل چین اپنی مسلح افواج کو جس قدر چاہے مرضی، جدید اور مہلک ہتھیاروں سے لیس کردے یا فوج کی افرادی قوت میں لامحدود اضافہ ہی کیوں نہ کردے ۔لیکن دنیا اُس وقت تک چین کی مسلح افواج کی غیر معمولی طاقت کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرے گی ،جب تک کہ وہ چین کی مسلح افواج کی حربی طاقت اور صلاحیت کا عملی مظاہرہ کسی چھوٹے یا بڑے ’’میدان ِ جنگ ‘‘ میں کھلی آنکھوں سے ملاحظہ نہ کرلے۔
کیونکہ کسی بھی ملک کی مسلح افواج کی عسکری مہارت کا درست ادراک چند کاغذی پلندوں میں درج بلند و بانگ اعدادوشمار سے لگانا سوائے اپنے آپ کو خوش فہمی اور غلط فہمی میں مبتلا رکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ نیز بند کمروں میں بیٹھ کر بنائی گئی رپورٹیں یکسر غلط ، فضول اور لایعنی قسم کی ایسی معلومات پر مبنی بھی ہوسکتی ہیں ۔ جنہیں اعدادو شمار کے ماہرین نے جس فوج کے نام کے ساتھ منسلک کر نے کی ناکام کوشش کی ہو ،عین ممکن ہے کہ وہ حربی خوبیاں سرے سے اُس فوج کے ڈی این اے میں وجود ہی نہ رکھتی ہوں۔ اس لیے کاغذوں میں طاقت ور دکھائی دینے والی مسلح افواج چاہے وہ کسی بھی ملک کی ہو،وہ اُس وقت تک ایک’’ کاغذی فوج‘‘ ہی کہلائے گی جب تک کہ وہ اپنی غیرمعمولی عسکری صلاحیتوں کامظاہرہ کسی حقیقی ’’میدان ِ جنگ ‘‘ میں پیش کرکے اپنے حریفوں اور حلیفوں سے داد نہیں سمیٹ لیتی ۔
واضح رہے کہ آج ہم چین کو اس لیے ایک بڑ ی عالمی معاشی قوت تسلیم کرتے ہیں کہ چینی قوم نے دنیا بھر میں صنعت و حرفت کے ہر میدان میں اپنی غیر معمولی تجارتی صلاحیت کا عملی مظاہر ہ ایک بار نہیں بلکہ بے شمار مرتبہ کر کے دکھایا ہے اور چین کے بڑے بڑے تجارتی حریف چینی قیادت کی جانب سے اختیار کی جانے والی تجارتی حکمت عملیوں کے سامنے یکسر بے بس دکھائی دیتے ہیں ۔ اگر بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے معلوم ہوتاہے چینی صدر شی جن پنگ کی طرف سے پیش کیا جانا والا ’’ ملٹری ٹیلنٹ کلٹویشن ‘‘کا نظریہ مستقبل قریب میں چینی مسلح افواج کو ’’میدانِ جنگ ‘‘ میں کھینچ کر لے جانے کا ایک نقطہ آغاز ہی تو ہے۔ یعنی دنیا بہت جلد اَب چین کو کسی ’’جنگی محاذ ‘‘ پر دادِ شجاعت دیتے ہوئے دیکھنے والی ہے۔
لیکن چین کی مسلح افواج اپنی حربی صلاحیتوں کا اظہار کسی محاذ جنگ پر کرنے والی ہے؟اس سوال کا جواب ہمیں چینی ذرائع ابلاغ کے بجائے بھارتی ذرائع ابلاغ فراہم کررہا ہے ۔ بھارت کے ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی خبروں کے مطابق’’ بھارت اور چین کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے قریب لداخ سیکٹر میں چین اپنے فوجی انفراسٹرکچر کو بڑھانے میں مصروف ہے اور چین مشرقی لداخ میں پینگونگ سو جھیل کی فنگر چار سے فنگر سات کے درمیان بڑے پیمانے پر اضافی میزائل، ٹینک اور راکٹ وغیرہ نصب کر رہا ہے‘‘۔اگرچہ چین نے بھارتی ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی ایسی تمام خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ وہ جو کچھ کر رہا ہے وہ اپنے علاقے میں کر رہا ہے‘‘۔
دوسری جانب عالمی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی سیٹلائٹ کی تصاویر سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس علاقے میں چین کی جانب سے ہونے والی عسکری نوعیت کی تعمیرات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔نیز سٹیلائٹ تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ چین نے اس علاقے میں بڑے پیمانے پر فوجی نوعیت کی نئی تعمیرات کی ہیں۔جبکہ ان تصاویر سے اس علاقے میں نئے ہتھیاروں اور بھاری مشینوں کی موجودگی کا بھی پتہ چلتا ہے۔علاوہ ازیں چینی فوج نے پینگونگ سوجھیل میں نگرانی کے لیے گشت کرنے والی کشتیوں کی تعداد بھی بڑھا دی ہے۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ چین نے ایل اے سی پر ملحقہ دیگر علاقوں میں بھی نئی تعمیرات شروع کردی ہیں۔ جس میں رہائشی عمارتیں، سڑکیں، نئی شاہراہیں وغیرہ شامل ہیں اورچین نے اپنی مکمل میزائل رجمنٹ سمیت دیگر بھاری ہتھیار بھی باقاعدہ نصب کرد یے ہیں، جس کی وجہ سے بھارت بہت زیادہ پریشان ہے۔
واضح رہے کہ تقریباً دو سال قبل گلوان وادی میں بھارتی اور چینی فوج کے درمیان ہولناک جھڑپ ہوئی تھی جس میں بھارت کے تقریباً 20 فوجی ہلاک ہو گئے تھے جبکہ بعض ذرائع نے دعوی کیا تھا اس جھڑپ میں ہلاک ہونے والے بھارتی فوجیوں کی اصل تعداد سینکڑوں میں تھی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس عسکری کارروائی کے نتیجہ میں چین نے بھارت کے ہزاروں کلومیٹر کے سرحدی علاقہ پر راتوں رات اپنا قبضہ مستحکم کرلیا تھا۔بظاہر بھارتی قیادت نے اپنے سرحدی علاقے پر ہونے والے چینی افواج کے قبضہ پر دو کڑوے، کسیلے گھونٹ بھر تے ہوئے چینی قیادت سے یہ یقین دہانی چاہی تھی کہ ’’چینی فوج اس بات کی گارنٹی دے کہ وہ مزید بھارتی علاقے پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کرے گی‘‘۔ چینی قیادت نے بھارت کو کسی بھی قسم کی یقین دہانی کروانے سے صاف انکار کرتے ہوئے ، واضح کردیا تھا کہ ’’چین ایل اے سی کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا ہے ،اس لیے جس علاقہ پر بھارتی فوج موجود ہے ،وہ بھی دراصل چین کا ہی سرحدی علاقہ ہے‘‘۔حیران کن بات یہ ہے کہ چین نے بھارت کے علاوہ اپنے تمام پڑوسیوں سے دیرینہ سرحدی تنازع کو ختم کر دیا ہے۔یوں سمجھ لیں کہ چین وادی لداخ کو اپنی افواج کے لیے پہلا ’’میدانِ جنگ ‘‘ بنانے کے لیے پوری طرح سے یکسو ہوچکاہے۔
جس کا سب سے بڑا ثبوت اِس علاقے میں چینی ملٹری انفراسٹرکچر میں روز بروز ہونے والا اضافہ ہے، جس میں اس علاقے میں شاہراہوں کو وسیع کیا جانا اور چینی فضائیہ کے لیے نئی فضائی پٹی بنانا شامل ہے۔ یا درہے کہ چین کی جانب بنائی جانے والی یہ فضائی پٹی مرکزی ایئربیس کاشغر، گار گنسا اور ہوتن کے علاوہ ہے۔جبکہ اس علاقے میں ایک وسیع وعریض شاہراہ بھی بنائی جا رہی ہے جس سے ایل اے سی پر چینی فوج کے رابطے میں مزید بہتری آئے گی۔ جبکہ چین یہاں اپنی فضائیہ اور بری فوج کے لیے ایسے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر بھی بھرپور توجہ دے رہا ہے جو اسے انتہائی دشوار گزار علاقوں میں امریکی اور دیگر سیٹلائٹس سے محفوظ رکھ سکے گا۔ امریکا اور اس کے حلیف بھارت کے لیے سب سے زیادہ صدمے کی بات یہ ہے کہ وادی لداخ میں تعینات کی جانے والی چینی فوج میں زیادہ تر تبت اور اس خطے کو سمجھنے والے لوگوں کو ہی بھرتی کیا جارہاہے۔
یقینا دنیا بھی اچھی طرح سے سمجھتی ہے کہ وادی لداخ کے سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان اور نامساعد اور سخت سرد موسم میں ہزاروں چینی مسلح فوجیوں کی تعیناتی اور جدید ترین عسکری نظام کا قیام یہاں چین کسی فلم کی شوٹنگ کے لیے تو کر نہیں رہا ہے۔لامحالہ مستقبل قریب میں چینی اسی مقام پر اپنے حریف ملک امریکا کے سب سے بڑی دفاعی حلیف بھارت کے خلاف محاذ جنگ کھول کر امریکا کو دعوتِ مبارزت دے گا۔ اگر امریکی قیادت کی قسمت اچھی ہوئی تو وہ اِس میدان ِ جنگ میں چین سے اُلجھے بغیر ہی عالمی قیادت کا تاج چین کے ہاتھوں میں تھمادیں گے ۔ بصورت دیگر بھارت کا جو حشر نشر اس علاقے میں چین کرے گا، اُس کے بعد دنیا بھی چین کو بطور کے عالمی طاقت تسلیم کرنے میں ذرا تامل اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گی۔
٭٭٭٭٭٭٭