خود کو بدلیں

اس نے کہا تھا یقینا سچ ہی تھا کہ ہم اپنے مسائل کے خود ذمہ دار ہیںکون نہیں جانتا کہ آج معاشرے میں پھیلی فرسٹریشن نے ہر شخص کو پریشان کررکھاہے اس کی ایک بڑی وجہ ہمارے شعور اور لاشعور میں پھیلی لامحدود خواہشات ہیں اوپر سے مار ماری ،جھوٹ ،لالچ ، قتل و غارت،معاشرتی الجھنوںاور گھریلو مسائل نے ہرذی شعور کے اعصاب کو جنجھلا کررکھ دیاہے۔ مطالعہ کا ذوق رکھنے والوںکی کتابیں رہنمائی کرتی ہیں امام غزالیؒ کی ایک معروف کتاب ہے احیاء العلوم ۔ اس میں ایک واقعہ ذہن،دل و دماغ کو کھول کررکھ دیتا ہے۔ایک روز تنہائی تھی،موسم خوشگوار تھا، نہ جانے کیا جی میں آئی معروف صوفی بزرگ شیخ شفیق بلخیؒ نے اپنے شاگرد ِ خاص حاتمؒ سے پوچھا حاتم! تم کتنے عرصہ سے میرے ساتھ ہو ؟
حاتم نے ادب سے جواب دیا کہ مرشدبتیس برس ہوگئے ہیں !
شیخ شفیق بلخی نے پھر پوچھا بتاؤ اتنے طویل عرصے میں تم نے مجھ سے کیا سیکھا ؟
حاتم نے کہا.. جناب صرف آٹھ مسئلے
شیخ شفیق بلخی نے اپنی پیشانی پرہاتھ رکھ لیا، منہ سے بے ساختہ نکلا انا للہ وانا الیہ راجعون ۔لگتاہے میرے اوقات تیرے اوپر ضائع چلے گئے32سالوں میں تو نے صرف آٹھ مسئلے سیکھے ؟”
حاتم نے ادب سے جواب دیا استادِ محترم! سچ کہہ رہا ہوں میں آپ سے زیادہ نہیں سیکھ سکا اور جھوٹ بولنا بھی گوارا نہیں ۔
شیخ نے کہا اچھاچلو یہ بتاؤ کیا سیکھا ہے۔؟
حاتم نے کچھ دیرتوقف کے بعد آنکھیں بندکرلیں پھربڑی سنجیدگی سے کہا 1۔ میں نے مشاہدہ کیا ہے مخلوق کو بغور دیکھا تو معلوم ہوا ہر ایک کا دنیا میں کوئی نہ کوئی محبوب ہوتا ہے لیکن جب بندہ انتقال کرجاتاہے تو تدفین کے بعد وہ اپنے محبوب سے جدا ہو جاتا ہے۔ اس لیے میں نے اپنا محبوب نیکیوں کو بنا لیا کہ جب میں قبر میں جاؤں گا تو یہ میرا محبوب میرے ساتھ قبر میں رہے گا ۔ 2۔لوگوں کو دیکھا کہ کسی کے پاس قیمتی چیز ہے تو اسے سنبھال کر رکھتا ہے اور دن رات اس کی حفاظت کرتا ہے جب میں نے یہ فرمانِ الہی پڑھا جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ خرچ ہو جانے والا ہے.. جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے..” (سورہ النحل آیت 96) مجھے جو چیز مجھے قیمتی ہاتھ آئی اسے اللہ کی طرف پھیر دیا تا کہ اس کے پاس محفوظ ہو جائے جو کبھی ضائع نہ ہو۔
3۔میں نے جب خدا کے اس فرمان پر غور کیا.. “اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کو بْری خواہشات سے باز رکھا’ جنت اسی کا ٹھکانہ ہو گا.. (سورہ النازعات آیت 40) یہ حقیقت جان کرمیں نے اپنے نفس کو بْرائیوں سے لگام دی، ہرقسم کی خواہشاتِ نفسانی سے بچنے کی محنت کی ،یہاں تک کہ میرا نفس اطاعتِ الٰہی پر جم گیا اورمیں پرسکون ہوگیا ۔ 4۔ جب میں نے لوگوں کو دیکھا زیادہ تر کا رجحان ومیلان دنیاوی مال، حسب نسب، دنیاوی جاہ و منصب میں تھاپھرمیں نے بہت غورو خوض کیاتو مجھے یہ سب چیزیں ہیچ دکھائی دیں کیونکہ بڑاواضح ارشاد ِ ربانی ہے “درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ” (سور ہ الحجرات آیت 13)جس پرمیرے دل نے یہ فیصلہ کیا کہ میں بھی تقویٰ اختیار کروں تاکہ اللہ کے ہاں عزت پاؤں۔
5۔ میںنے یہ بھی دیکھا کہ لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے بدگمان رہتے ہیں، ایک دوسرے کو بْرا کہتے ہیں دوسری طرف اللہ کا فرمان دیکھا “دنیا کی زندگی میں گزر اوقات کی ذرائع تو ہم نے لوگوں کے درمیان تقسیم کیے ہیں “(سورہ الزخرف آیت 32) یعنی اللہ جسے چاہے زیادہ رزق سے نوازے جسے چاہے کم دے۔ اس لیے میںحسد کو چھوڑ کر اللہ کی تقسیم پرراضی ہوگیا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ قسمت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے خلق ِ خدا کی عداوت ،لالچ اورتکبرسے باز آگیا۔ 6۔ میں نے محسوس کیا کہ لوگ ایک دوسرے سے سرکشی اور کشت و خون کرتے ہیں جب میں نے اللہ کی طرف رجوع کیا تو یہ حقیقت آشکارہوئی کہ “درحقیقت شیطان تمہارا دشمن ہے اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھو۔” (سورہ فاطر آیت 6) اسی بنا پر میں نے صرف اس اکیلے شیطان کو اپنا دشمن مان لیا اور اس بات کی کوشش کی کہ اس سے ہرممکن بچتا رہوں۔ 7۔ میں نے اکثر دیکھا لوگ روٹی کے ٹکرے کے لیے اپنے نفس کو ذلیل کر رہے ہیں جائز، ناجائز کابھی خیال نہیں رکھتے حالانکہ اللہ ہی قادرِ مطلق ہے پھر میں نے ارشادِ باری تعالیٰ پڑھا”زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو ” (سورہ ہود آیت6) یہ جان کرپھر میں ان باتوں میں مشغول ہوا جو اللہ کے حقوق میرے ذمے لگائے ہیں.. اس رزق کی طلب ترک کردی جس کاذمہ اللہ نے خود لیاہے۔ 8۔ میں نے لوگوں کو دیکھا، اکثریت کسی عارضی چیز پر بھروسہ کرتی ہے کوئی مال اسباب پر،کوئی زمین پر بھروسہ کرتا ہے، کوئی اپنی تجارت پر، کوئی اپنے پیشے پر، کوئی بدن پر، کوئی ذہنی اور علمی صلاحیتوں پر بھروسہ کیے ہوئے ہے.. میں نے خدا کی طرف رجوع کیا.. یہ ارشاد دیکھا.. “جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لیے وہ کافی ہے ” (سورہ طلاق آیت3) تو میں نے اپنے خدا پر توکل کیا.. وہی مجھے کافی ہے ۔ یہ سن کرشیخ شفیق بلخی نے اٹھ کر حاتم کو گلے لگاکرفرمایا جومیں نے تجھے سکھایا تم نے بلاشبہ اس کا حق ادا کردیا “اے میرے پیارے شاگرد حاتم! خدا تمہیں ان کی توفیق نصیب کرے.. میں نے قرآن کے علوم پر مطالعہ کیا تو ان سب کی اصل جڑ انہی آٹھ مسائل کو پایا ان پر عمل کرنے والا گویا چاروں آسمانی کتابوں کا عامل ہوگیا۔
اب اگرکوئی رہنمائی کا طالب ہی نہ ہو تو کیا کیاجاسکتاہے حاصل یہ ہے کہ کسی پرظلم نہ کریں، حقوق العبادکااحساس کرتے ہوئے حق تلفی ،جھوٹ،فریب ،ملاوٹ سے ہرممکن گریزکریں صلہ رحمی کو شعاربنائیں ۔اپنی اصلاح اور تربیت کیلئے اچھی کتابوںکا مطابعہ کرتے رہیں آج کوئی مطالعہ کا مشورہ دے ڈالے تو جواب ملتاہے کیا کریں موبائل ہی سے فرصت نہیں ملتی کیا کریں زیادہ اصرارکریں تو ایک ہی بات
تواترسے بیشتر افرادکرتے ہیں کہ جناب عوام کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں، انہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ،بنیادی سہولتوںکے لئے عام آدمی پریشان ہے۔مہنگائی ،بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ،بیماری اورغربت نے عوام کی اکثریت کا ناک میں دم کررکھاہے اور آپ کتابیں پڑھنے پرمجبورکررہے ہیں ۔یہ ساری باتیں اپنی جگہ درست ہیں لیکن پھربھی خودکو بدلنے کے لئے اپنی سوچ بدلیں اس کیلئے کچھ تو ہاتھ پائوں ماریں جس طرح اچھا گھر،بہتروسائل ضروری ہیں ،اسی طرح اچھااخلاق اوربہترین تعلیم و تربیت بھی ضروری ہے ،ورنہ یادرکھیںجہالت نسلوںکے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔