ملکہ ہانس اور وارث شاہ

میری بات/روہیل اکبر
ہمارے دوسرے محکموں کی طرح اوقاف اور آثار قدیمہ کا بھی برا ہی حال ہے جو اپنا کام کرنا تو دور کی بات اسکی طرف آنکھ بھر کر دیکھتے بھی نہیں ہے جس کام کے لیے یہ محکمے بنے ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اس کی مخالف سمت میں کام کرنا شروع کررکھا ہے اگر ہمارے ادارے اپنے کام کے 50فیصدپر بھی توجہ دیتے تو آج ہم سبھی خوشحال ہوتے لیکن ہوا اسکے برعکس کہ آج خوشحالی کی بجائے ہر طرف بدحالی ہی بدحالی ہے اور لوگ بھوک سے مر رہے ہیں ہر گھڑی ہزاروں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے گر رہے ہیں اور ہمارے ارباب اقتدار اپنی مستیوں میں گم ہیں۔ کسی کو کسی کی کوئی پراہ ہے اور نہ ہی خیال بلکہ سبھی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کوئی اچھا سوچتا ہے اورنہ ہی کسی کے ساتھ اچھا کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔الٹا لڑائی جھگڑوں میں ہم نے اپنا آپ بھی تباہ کرلیا ہے۔ اسی لڑائی جھگڑے میں ہم نے اپنی ثقافت اور سیاحت کو بھی دفن کردیا ۔پوری دنیا اس وقت سیاحت سے پیسہ کما رہی ہے لیکن ہم نے اپنی اس انڈسٹری کو بھی اپنے ہاتھوں ختم کردیا۔ رہی سہی کسر ہمارے وہ ادارے پوری کررہے ہیں جن کے ذمہ ہماری سیاحت اور ثقافت کو پروان چڑھانا ہے۔ ہمارے بہت سے تاریخی شہر ہیں جنکی ہم دیکھ بھال نہ کرسکے ۔ہمارے پاس ہندوں اور سکھوں کے لاتعداد مقدس مقامات ہیں جن پر لوگوں نے قبضے کرکے انہیں تباہ برباد کردیا۔ ہمارے پاس اسلام کے ابتدائی دنوں کے نادر اور مقدس مقامات ہیں جنکی ہم دیکھ بھال نہ کرسکے۔ ہمارے پاس دنیا کی خوبصورت جھیلیں ،آبشاریں،بلندوبالا پہاڑ ،ہڑپہ ،موہنجوداڑو اور وادی سندھ کی صدیوں پرانی تہذیب ہونے کے باوجود ہم اسے دنیا کے سامنے لانے سے قاصر رہے جس کے بعد ہمارے تاریخی مقامات ختم ہوتے ہوتے اب ختم ہوچکے ہیں۔
عید کے بعد دوستوں فیصل ،جاوید اور شہباز کے ساتھ ساہیوال جانا ہوا وہاں سے پاکپتن کا پرگرام بن گیا راستہ میں ملکہ ہانس سے راناامیر ثاقب خاں کرنالیاں اور رانا عمران کا فون آگیا جنہوں نے رات ہمیں اپنا مہمان بنا لیاانکے ڈیرے تک پہنچتے پہنچتے وہاں کے سیاست دانوں کا تو اندازہ ہوگیا جنکی وجہ سے ملکہ ہانس کی ایک بھی سڑک ،گلی اور نالی درست حالت میں نہیں تھی۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ملکہ ہانس صدیو ںپرانا شہر ہی نظر آتا ہے یہاں کی قدیم اور تاریخی مسجد وارث شاہ جہاں وارث شاہ نے بیٹھ کر ہیر لکھی محکمہ اوقاف اور آثار قدیمہ کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔اس مسجد کی دیکھ بھال اہل محلہ اپنی مدد آپ کے تحت کررہے ہیں مسجد کے سامنے ہی ایک تاریخی پرنامی مندر اور گردوارہ بھی ہے جومحکمانہ لاپرواہیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔باقی سب باتوں سے ہٹ کر اگر ہم ملکہ ہانس کی بات کریں تو یہ پنجاب کا ایک تاریخی قصبہ ہے جو ساہیوال روڈ پر پاکپتن سے تقریباً 15 کلومیٹر اور ساہیوال سے 34 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ پنجابی کے مشہور شاعر وارث شاہ اپنے آبائی گاؤں جنڈیالہ شیر خان سے یہاں آئے اور 1766 میں کلاسک مہاکاوی ہیر کی تخلیق کی مولوی عبداللہ جس نے فقہ پر پنجابی کی ایک مشہور کتاب لکھی، ان کا تعلق بھی ملکہ ہنس سے تھا ۔وہ لاہور آئے اور لوہاری دروازے کے اندر شیراں والی گلی میں رہنے لگے جہاں میاں محمد بخش تین ماہ تک رہے۔ اس علاقے میں کھگہ فیملی اور ڈوگر فیملی کی سیاست زیادہ ہے اور انہی میں سے علاقے کے ایم پی اے اور ایم این اے بنتے ہیںملکہ ہانس کے زیادہ تر رہائیشیوں کا کہنا ہے کہ ہمارے سیاستدان کرپٹ ہیں جنہوں نے 25 سال سے سیوریج اور پانی کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش تک نہیں کی ۔یہ ہمیشہ ایک دوسرے کو چور کہتے ہیں لیکن حقیقت میں دونوں کا خون ایک ہی ہے جنہوں نے ملکہ ہنس کو تحصیل نور پور بنانے کی بجائے پاکپتن کی تحصیل بنانے کا اعلان کردیا جب بینظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں تو انہوں نے ساہیوال ،اوکاڑہ اور وہاڑی کے لوگوں کے لیے ملکہ ہانس میں ہی ائرپورٹ بنانے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد جگہ بھی خریدی گئی لیکن وہ منصوبہ بھی سیاست دانوں کی باہمی چپقلشوں کے بعد ختم ہوگیا اگر ملکہ ہانس میں ائیر پورٹ بنا ہوتا شہریوں کوتو جو سہولیات ملنا تھی اس سے ہٹ کر اس تاریخی شہر کی حیثیت بھی تبدیل ہو جاتی اسکی گلیاں پکی ہوجاتی نالیوں کی بجائے سیوریج بچھ جاتا اور ہمارے تاریخی ورثے بھی بچ جاتے پوری دنیا سے سیاح ملکہ ہانس ائیر پورٹ پر اترتے۔ مسلمان اپنی صدیوں پرانی تاریخ دیکھتے 760ھ میں تعمیر ہونے والی مسجد وارث شاہ دیکھتے ۔پاکپتن میں بابا فریدالدین گنج شکر کے مزار پر حاضری دیتے۔ صدیوں پرانا شہر ہڑپہ کو جانتے جبکہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اپنے اپنے تاریخی مقامات کی سیر کرتے صرف سیاحت سے ہی پاکپتن اورساہیوال کے لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوجاتا ۔یہ کسی ایم پی اے ،ایم این اے یا پھربیوروکریسی کے محتاج نہ رہتے ان شہروں کی سڑکیں پختہ ہوتیں، شہر خوبصورت ہوتے اور لوگ تہذیب یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ خوشحال بھی ہوتے لیکن بدقسمتی سے ہمارے اپنوں نے ہی ہمیں اس حال تک پہنچایا اور آج ہم اپنے دشمن آپ ہی بنے ہوئے ہیں کیونکہ ہمیں اپنے آپ سے عشق ہی نہیں ہم اوازار قسم کے لوگ بن چکے ہیں۔ اپنے گھروں ،گلیوں اور شہروں کو وہی لوگ خوبصورت بناتے ہیں جو اپنے آپ سے پیار اور عشق کرتے ہیں جب ہماری گلیاں ،محلے اور شہر خوبصورت ہونگے تب ہی ہمارا ملک بھی خوبصورت لگے گا لیکن ہمیں ہمارے اپنوں نے ہی لوٹا اور اس خستہ حالی تک پہنچایا۔ آج محترمہ بینظیر بھٹو کا شوہرآصف علی زرداری صدر پاکستان ہے۔ محترمہ کا بیٹابلاول بھٹو زرداری ایم این اے ہے اور انکی بیٹی آصفہ بھٹو بھی ایم این اے بن چکی ہیں کاش وہی اپنی والدہ کا کیا ہوا وعدہ پورا کردیں تاکہ ان علاقوں کے لوگوں کا معیار زندگی بھی بہتر ہوسکے اور ہماری صدیوں پرانی تہذیب قبضہ گروپوں کی بربادی سے بچ پائے آخر میں وارث شاہ کے چند اشعار
بڑا عشق عشق تو کرناں اے
کدی عشق دا گنجل کھول تے سہی
تینوں مٹی وچ نہ رول دیوے
دو پیار دے بول بول تے سہی
سکھ گھٹ تے درد ہزار ملن
کدی عشق نو تکڑی تول تے سہی
تیری ہسدی اکھ وی بجھ جاوے
کدی اندروں پھول تے سہی