دوا سازی کے خام مال کی غیر قانونی تجارت اور محکموں کی لوٹ مار

طب وصحت کی دنیا بھی اب لوٹ مار اور حرص سے محفوظ نہیں رہی۔ا س لیے گزشتہ مہینوں میں ایف آئی اے اور ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے مشترکہ چھاپوں کا بڑا چرچا رہا۔ جس سے قومی ادویہ ساز اداروں کی جانب سے ادویہ کے خام مال کی غیر قانونی تجارت کے لرزہ خیز قومی اسکینڈل کا انکشاف بھی ہوا۔اب آہستہ آہستہ ادویہ سازی کی قومی صنعت کے وہ چہرے بھی بے نقاب ہورہے ہیں جو سالوں سے جاری اس غیر قانونی کاروبار کے ذریعے راتوں رات کروڑ پتی سے ارب پتی اور کھرب پتی بن چکے ہیں۔
لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ ڈیڑھ دو ماہ قبل ادویہ سازی کے خام مال کے اس قومی اسکینڈل کے حوالے سے اب تک وفاقی وزارت صحت سمیت متعلقہ محکموں کا جو گھنائونا کردار سامنے آیا ہے وہ جرم کے خاتمے کے بجائے جرم کی ایک نئی اور انوکھی داستان بن چکا ہے۔
ایف آئی اے اور ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے اس مشترکہ آپریشن کی حقیقت تو یہ ہے کہ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سندھ میں بڑے بڑے آپریشن کرنے کی شہرت رکھنے والے ریٹائر ڈرگ انسپکٹر عبدالرحیم عباسی اس قومی اسکینڈل کو منظر عام پر لانے کے محرک بنے ہیں۔ ان کا آخری بڑا آپریشن لیب لنک کا ہے لیکن عبدالرحیم عباسی کی معلومات کی روشنی میں یہ آپریشن کرنے والے ایف آئی اے اور ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے افسران اس حقیقت کے اظہار کے بجائے یہ واویلا ضرور کرتے رہے کہ اداروں پر بڑا دبائو ہے۔ اسکینڈل کے پس پشت بڑے بااثر لوگ اس کھیل کے سہولت کار اور فائدہ اٹھانے والے ہیں، تحقیقات جاری ہیں۔ ابھی کوئی چیز آپ سے شیئر کی تو کیس کمزور ہوجائے گا بلکہ الٹا ہمارے گلے میں بھی آسکتا ہے جب مذکورہ کیس سماعت کے لیے ڈرگ کورٹ پہنچا تو ڈرگ کورٹ کی چیئرپرسن نے کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے کیس لنک کورٹ میں ریفر کرکے وہ خود چھٹیوں پر چلی گئیں۔ جس کے باعث مذکورہ کیس کے دونوں ملزمان حارث اور رضا کی ضمانتوں میں تاخیر ہوئی۔ ادویہ کے غیر قانونی خام مال کے مذکورہ ملزمان حارث اور رضا جو رنگے ہاتھوں گرفتار ہوئے یہ دونوں ملزمان حقیقی بھائی بتائے جاتے ہیں۔ ایک بھائی حارث کو کچھی گلی اور دوسرے بھائی رضا کو ڈیفنس سوسائٹی فیز 2 سے چھاپہ مار ٹیموں نے بمعہ غیر قانونی خام مال گرفتار کیا تھا۔ کچھی گلی سے حارث کے گودام سے برآمد ہونے والا خام مال میڈی شیور کمپنی نے درآمد کیا تھا جس کے مالک ادویہ ساز صنعت کی معروف شخصیت اور دوا ساز صنعت کے پروفیشنل رجسٹرڈ تنظیم پاکستان فارما ٹیکل مینو فیکچررز ایسوسی ایشن (PPMA) کے صدر ڈاکٹر قیصر وحید ہیں۔ جب ان سے اس قومی اسکینڈل میں ان کی کمپنی کے ملوث ہونے کی تصدیق کے لیے ’’جرأت‘‘ نے موبائل فون پر رابطہ کیا تو انہوں نے بات سننے کے بعد ایک معمولی سے وقفے کے بعد اس کیس سے اپنی لاتعلقی ظاہر کی اور کہا کہ میڈی کے ملتے جلتے دیگر ناموں سے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ تاہم آپ کا شکریہ آپ نے فون کرکے تصدیق کی لیکن بعد میں مذکورہ کیس کی دستاویز میں کچھی گلی سے حارث کے پاس سے برآمد ہونے والا ادویہ ساز کا خام مال میڈی شیور اور ڈیفنس سوسائٹی رضا کے پاس سے برآمد ہونے والا دوا سازی کا خام مال پشاور کے میڈی کرافٹ کا نکلا۔۔
اسی دوران متعلقہ اداروں میں سے ایک ادارے کے ان افسران کے مابین کیس کو کمزور اور ہلکا کرنے کے لیے مبینہ طور پر’’ طے شدہ‘‘ معاملات میں’’ہندسوں‘‘ پرجھگڑا ہوگیا۔جبکہ دوسری جانب اس قومی اسکینڈل میں ملوث گرفتار ملزمان نے اپنی ضمانتوں کو یقینی بنانے کے لیے اور کیس کو اپنے حق میں کروانے کے لیے تجوریوںکا منہ کھولے بیٹھے تھے۔ اوریوں خام مال غیر قانونی طورپر فروخت کرنے والے اپنے اثرورسوخ کے ذریعے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی تگ ودو میں مصروف رہے جس میں انہیں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی کیونکہ اس قومی اسکینڈل پر وفاقی وزارت صحت اور ادویہ سازوں کی تنظیم (PPMA) کے درون خانہ رابطوں کی تصدیق وفاقی وزارت صحت کی معنی خیز خاموشی نے کی تو دوسری جانب وفاقی وزارت داخلہ اور وفاقی وزیر تجارت نے کراچی میں دو اسازی کے خام مال کے قومی اسکینڈل سامنے آنے کا سرے سے کوئی نوٹس لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ بلکہ درپردہ اسکینڈل میں ملوث بااثر اشرافیہ سے اپنے پس پردہ تعلقات کے باعث اس قومی جرم کو اجاگر کرنے کے بجائے چھپانے کی روش اختیار کی۔ واضح رہے کہ دوا سازی کے خام مال کی غیر قانونی خرید وفروخت میں کسٹم ڈیوٹی کا معاملہ سرفہرست تھا اوراسکینڈل کی معلومات رکھنے والے ذرائع کے مطابق پاکستانی ادویہ سازی کی صنعت کسٹم ڈیوٹی میں اب تک حکومت کے خزانے کواربوں روپے کا ٹیکا لگاچکی ہے کیونکہ یہ کھیل اب سے نہیں سالوں سے جاری ہے۔ تحقیقاتی اداروں کے مطابق اب تک مذکورہ اسکینڈل میں ملوث ساڑھے چارسو لوگ اورادارے سامنے آئے ہیں جن کا تعلق کراچی سمیت ملک بھرسے بتایا جاتاہے۔ حال ہی میں ادویہ سازی کے خام مال کی غیرقانونی خریدوفر وخت میں براہ راست خام مال کے ہمراہ گرفتار ہونے والے ملزمان حارث اوررضا تو ضمانتوں پر رہا ہوچکے ہیں اورواقفانِ حال کے مطابق کروڑوں روپے ادا کرنے والے لاکھوں روپے کی ادائی کے بعد کافی مطمئن ماحول میں نظر آتے ہیں جبکہ تاحال ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے کراچی کی میڈی شیوراورپشاور کی میڈی کرافٹ کمپنیوں سے محکمہ کسٹم سمیت کسی ادارے نے ڈیوٹی میں دی جانے والی رعایت اوراس کے غیرقانونی استعمال کے بارے میں تحقیقات کا آغاز نہیں کیاہے بلکہ مذکورہ اسکینڈل پرگہری نظررکھنے والوں کے مطابق بھاری بھرکم معاوضوں کے عوض مذکورہ اسکینڈل کی قانونی حیثیت کوانتہائی کمزور کردیاگیاہے۔ پاکستان کیمٹس اینڈ ڈرگس ایسوسی ایشن کے سابق سینئر وائس چیئرمین عبدالصمد بڈھانی نے پاکستانی میں دواسازی کے خام مال کی غیرقانونی تجارت کے سامنے آنے والے قومی اسکینڈل کودرست قراردیا ہے اور سوال کیاہے کہ وفاقی وزارت صحت ادویہ تیاری کے لیے جس خام مال کی امپورٹ کا اجازت نامہ دیتی ہے وہ خام مال کو بتائی جانے والی تفصیلات کے مطابق مذکورہ دوا کی تیاری اورفروخت کے ریکارڈ کے کون سا مینکنز م پرعمل کرتی ہے یا اس کے اہلکار چمک کی بنیاد پرسب ٹھیک ہے کاسرٹیفکیٹ جاری کرکے قومی خزانے کونقصان پہنچانے کا موجب بنتے ہیں۔ یہ اسکینڈل اعلیٰ عدلیہ کے دائرہ اختیار میں آتاہے۔ اسے ازخود نوٹس لے کران اداروں کوبھی اس گھنائونے قومی جرم میں فریق بنانا چاہئے جس کی مبینہ غفلت ،لاپرواہی اوررشوت خوری کے باعث قومی اداروں کونقصان پہنچانے کا یہ عمل برسوں سے تاحال جاری تھا۔