شامی مہاجرین کی آڑ میں کیا واردات ہورہی ہے؟

greece-refugees-migrants

گزشتہ روز مزید آٹھ افراد کے جسد ہائے خاکی وطن واپس پہنچ گئے، جو مستقبل کے سہانے خواب سجائے یورپ جانے کی کوشش کر رہے تھے کہ یونانی ساحل کے نزدیک کشتی الٹ گئی۔جس میں وہی نہیں اُن کے خواب بھی ڈوب گیے۔ انہوں نے وطن سے رخصت ہوتے وقت اپنے پیاروں کو یہی بتایا تھا کہ وہ غیر ملکی جہاز میں بیٹھ کر ڈھیروں ڈالر جیب میں ڈالے واپس آئیں گے۔ لیکن وہ خود تابوتوں میں بند جب واپس پہنچیں گے تو گھر میں کیا کہرام مچے گا؟ اس کا اُنہیں اندازا ہی نہ تھا۔

یونان کے ساحل یورپ بھر میں خوبصورتی اور برہنگی کے باعث معروف ہیں ۔یہاں دنیا بھر سے لوگ اپنے سال بھر کی تھکن اتارنے کے لئے آتے ہیں۔مگر ہمارے یہ لوگ وہاں جان دینے کو پہنچے تھے۔ ان تمام افراد کا تعلق گجرات اور اس سے ملحقہ علاقے منڈی بہاء الدین وغیرہ سے تھا۔ ان آٹھ گھروں میں صفِ ماتم تو اتوار کے دن سے ہی بچھی ہوئی تھی۔جب اس کشتی کے حادثے کی خبر ان خاندانوں تک پہنچی تھی ۔

مگر حیرت کی بات ہے کہ یہ کشتی تو شامی مہاجرین پر مشتمل تھی جس کے ڈوبنے سے اٹھائیس افراد جاں بحق ہوئے۔ لیکن ان میں سے آٹھ پاکستانی کیسے برآمد ہو گئے؟ شامی مہاجرین کے نام پر عربوں کو گالیاں دینے والے تعصب کے ماروں کواس بارے میں بھی کچھ بولنا چاہیے۔ دنیا میں شامی مہاجرین کے نام پر در بدر افراد دراصل وہ لوگ ہیں جو شام میں قابض حکومت کے ظلم و ستم سے تنگ آکر جنرل سیسی کے مصر میں پناہ گزین ہونے گئے تھے، لیکن جب درندہ صفت سیسی نے ان بے بس لوگوں کو اپنے ملک سے باہر دھکیلنا شروع کیا تو دنیا بھر میں نے ان لوگوں کے پردے میں کچھ متعصب عناصر نے پوری مسلم دنیا پر طعن و تشنیع کے تیر برسانا شروع کر دئیے۔ ایران، شام ، روس اور امریکاجواصل میں مجرم تھے ،ان سے صرفِ نظر کر کے مسلم اور عرب ممالک قصوروار ٹھہرائے گیے۔

کچھ دریدہ دہنوں نے تو انجیلا مرکل سے منسلک یہ الفاظ سوشل میڈیا میں انڈیل ڈالے کہ ’’ مکہ اور مدینہ ان مہاجرین سے زیادہ قریب تھے جہاں انہیں پناہ نہ مل سکی۔‘‘ افسوس انہیں شام اور عراق کی بے مقصد جنگ کا ایندھن بننے والے سینکڑو ں پاکستانیوں کی لاشیں نظر نہیں آتیں۔ ہم لمحہ موجود میں ابلاغی جنگ کا ایندھن ہیں۔ جہاں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کہہ کر اپنے اپنے تعصبات کی بھوکی بلاؤں کے پیٹ بھرے جا رہے ہیں۔

اقوام ِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق اس وقت صرف سعودی عرب میں 25 لاکھ شامی، ترکی میں 17 لاکھ اور اُردن میں سات لاکھ کے قریب شامی رجسٹرڈ مہاجرین موجود ہیں۔ جب کہ خطے کے دیگر چھوٹے ممالک میں پناہ گزین شامیوں کی تعداد اس کے سوا ہے، لیکن چونکہ میڈیا کی توپیں(خصوصاً پاکستان میں) کسی اور کے ہاتھوں میں ہیں۔ اس لئے ہم یہ سوال اُٹھانے کی جرات ہی نہیں کر سکتے کہ جب شامی مہاجرین کی کشتیاں ڈوبتی ہیں تو ان میں ڈوب کر مرنے والے افراد میں پاکستانی، افغانی اور بنگلہ دیشی افراد کیسے شامل ہوتے ہیں؟ اگرچہ ان افراد کا جان سے جانا ایک عظیم انسانی سانحہ ہے۔لیکن ذرا یہ سوچ لیجئے کہ بین الاقوامی میڈیا پرشامی مہاجرین کے مسئلے کو اچھالے جانے سے قبل دنیا کے منظر نامے پر برما ، شام اور عراقی مسلمانوں کا قتل عام چھایا ہوا تھا ۔ اس ایک ’’میڈیاسپن ‘‘ سے ان کا مسئلہ پس منظر میں دھکیل دیا گیا اور مسلمان ممالک بے رحم اور بے شرم قرار پانے لگے۔کہیں شامی مہاجرین کے نام پر کوئی اور واردات تو نہیں ہو رہی ہے؟