جلبِ زرکے مارے کوڑھ نیت لوگ

وہ جس کی نظریاتی پرورش دنیا کی سب سے بڑی ہستی (ﷺ) کے زیرسایہ ہوئی تھی، وہ جسے دنیا عمر ابنِ خطاب ؓ کے نام سے جانتی ہے، وہ کہ جس کے رستے سے شیطان دُم دبا کررستہ بدل لیتا تھا، وہ کہ جنہوں نے جدید دنیا کو مالیاتی اور کاروباری نظام کے بنیادی طریقے فراہم کیے جو آج بھی زیر استعمال ہیں، جی وہی عمر فاروق ؓ، جب مدینے میں ان کی خلافت کے دوران ایک دفعہ زلزلہ آیا تو انہیں نے زمین پر پاؤں پٹخ کرمارا اور اُس وقت کرہ ارض پر سب سے بڑی سلطنت کے اس سربراہ کے ہونٹوں سے وہ تاریخی الفاظ ادا ہوئے ، ’’اے زمین تو کیوں کانپتی ہے، کیا عمر نے تم پر انصاف قائم نہیں کیا؟‘‘کیا بات کروں علم کے اس شہر کی ،اُس مضبوط فصیل کی کہ جس کا درازہ حضرت علی ؓ تھے اور جسے میرے آقاﷺ نے عزت بخشی اور امت کے لیے علم کی اہمیت پر مہرِ تصدیق ثبت کردی، انہوں نے ایک ہی فقرے میں معانی کا کیا جہاں سمو دیایعنی کہ جس معاشرے سے انصاف ختم ہو جائے وہاںپھر عذاب مسلط ہوا کرتے ہیں۔
یہ عذاب ہی تو ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انتہائی سفاک، بے رحم ، عقل سے عاری ،جلبِ زر اور اقتدار کی ہوس میں اندھے حکمران ہم پر مسلط کردیے ہیں۔ جن کا تمام زور اسی بات پر ہے کہ عوام سے پہلے سے موجودسہولیات کیسے چھینی جا سکتی ہیں؟انگریزوں کے آنے سے پہلے اس خطے میں ،جسے اب پاکستان کہا جاتا ہے، خواندگی کی شرح نوے فی صد سے زائد تھی۔ انگریز نے پورا نظام ہی تلپٹ کردیا اور ان تمام پڑھے لکھے لوگوں کو ان پڑھ اور جاہل قرار دے ڈالا اور انگریزی جاننے اور لکھنے والے کو ہی خواندہ شمار کیا گیا۔برصغیر کے ہندوؤں نے اس نظام کو اپنا لیا لیکن اہلِ اسلام نے مسجد کو مورچہ بنایا اور یہاں سے اپنی تعلیم اور تحقیق کا نظام متعارف کروا ڈالا۔ انگریز کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت اسی نظام سے کی گئی۔
وہ ایک مردِ قلندر کا تاریخی فقرہ، کہ جب تک میرے سامنے کھجور کے پتوں سے بنی چٹائی پر ایک بھی طالب علم بیٹھا ہے، انگریز کا پیچھا جاری رہے گا۔ توپوں کے سامنے باندھ کر اڑانے (اور آج کل جعلی پولیس مقابلوں میں پار کرنے )کے لیے بھی سب سے زیادہ سر اسی نظام نے فراہم کیے۔ انگریز اس متوازی نظام کا کچھ نہ بگاڑ سکا لیکن جاتے جاتے ان مدارس کو تباہ کرنے کا فرض اپنے ناجائز بچوں کوسونپ گیا ،بالکل اسی طرح جس طرح امریکا جاتے جاتے افغانستان میں اپنی شکست کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر اپنے ایجنٹوں کی ڈیوٹی لگاگیا ہے کہ انہوں نے افغانستان میں ہاری جانے والی جنگ گھسیٹ کر پاکستان کیسے لانی ہے اور اس ریاست کے اداروں کو استعمال کر کے اس کے لوگوں سے کیسے انتقام لینا ہے۔ ہمارا طبقہ اشرافیہ اپنے بدیشی آقاؤں کی مالی مدد سے اسی مدرسہ نظا م پر حملہ آور ہے، کوئی دن جاتا ہے ان مدارس کے منتظمین کے خاندانوں کو ان سڑکوں پر گھسیٹا جائے۔ اس بات کا آغاز تو ہو چکا ہے کہ کسی بھی مدرسے کا مہتمم، اس کے خاندان کے بچے اور بچیاں ، شیڈیول 4کا حصہ ہوتے ہیں۔ان کو کسی بھی وقت ’دہشت گرد تنظیم‘ کوئی القاعدہ، کوئی لشکرقرار دے کر پولیس مقابلے میں پارکیا جاسکتا ہے۔
کیا ان لوگوں سے انصاف کی توقع کی جا سکتی ہے؟ کیا یہ لوگ انصاف کر پائیں گے ؟ یا پھر اپنے ہی مفادات کے لیے مسلسل رو بہ عمل رہیںگے؟ ان میں سے کون انصاف کا علم بلند کرے گا، کہ رب تعالیٰ کے عذاب کو ٹالا جا سکے۔ اس ملک کے نام نہاد سفید پوش متوسط طبقے کے ساتھ تعلیم کے نام پرجو فراڈ کیا جا رہا ہے کیا یہ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں روا ہے؟ کیا کسی کی نظر اس طرف نہیں جاتی ؟ جائے بھی کیسے کہ شریف سٹی ایجوکیشنل کمپلیکس، نمل یونیورسٹی، شہید ذوالفقار علی بھٹو شہید یونیورسٹی اور ان سب سے بڑھ کر گیریژن اسکول سسٹم کس کی ملکیت ہیں؟ کون ان سے مفادات سمیٹتا ہے۔ کیا یہ لالچی اور جلبِ زر کے مارے لو گ اپنے ننگے اور گھناؤنے مفادات کی موجودگی میں انصاف کے ترازو کو تھامنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ہماری تعلیم فروش طبقہ اشرافیہ، جس کے اپنے بچے غیروں کی گود میں پل کر جوان ہوتے ہیں۔کیا ان کے لیے اس معاشرے میں تعلیم کوئی ترجیح قرار پاسکتی ہے؟
اب تو طبقہ اشرافیہ نے اس کو باقاعدہ طریقہ کار بنا لیا ہے۔ صنعت و تجارت ،ا سکول کالجز اور اس کے باہر بندھا میڈیا کا ایک عدد ڈبو کتا جو ہر آنے جانے والے پر بھونکتا رہے۔ ایک نوجوان صحافی ملے ، عرض کیا آپ کے ٹی وی چینل پر غلطیاں بہت ہوتی ہیں، فرمانے لگے مالکان کا حکم ہے کہ کوئی آپ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ خبر درست گئی ہے کہ غلط؟ بس خاندان کے دیگرکاروباروں کو تحفظ دیے رکھنا ہے۔ اسی صنعتی گروپ کے ایک دوسرے ادارے میں آگ لگنے سے درجن سے زائد مزدور جاں بحق ہوگئے، لیکن مجال ہے پولیس نے انکے سیٹھ کی طرف مڑ کے بھی دیکھا ہو؟ پولیس نے آگ لگنے کے نتیجے میں درجن بھر مزدوروں کے قتل کو حادثہ قرار دے کراسے ہمسایوں کی نااہلی قرار دے ڈالا ہے جو اب عدالتوں سے ضمانتیں کرواتے پھرتے ہیں۔ کیوں کہ ادارے کی ساری رپورٹنگ ٹیم ، تھانے سے لے کر عدالت تک یہ مقدمہ رکوانے پر لگی ہوئی تھی۔
یہ ہے وہ نئی صورتِ حال ، جس میں اس طبقہ اشرافیہ نے انسانوں کے اس جنگل میں شکار بھی کھیلنا شروع کردیا ہے۔ خبر یہ ہے کہ پورے پنجاب میں 390ہائی اسکول ایسے ہیں جہاں پر انٹرمیڈیٹ کی سطح کی کلاسز شروع کرنے کااعلان ہوا تھاکہ اس طرح سرکاری کالجوں پر سے طلبہ کی تعداد کا دباو ٔ کم کیا جا سکے گا۔ ان اسکولوں میں اساتذہ بھرتی ہوئے تین سال سے زائد کاعرصہ گزر گیا لیکن کوئی خفیہ ہاتھ ابھی تک ان اسکولوں میں انٹرمیڈیٹ کی کلاسیں شروع ہونے نہیں دے رہا جب کہ اس مقصد کے لیے بھرتی کیے گئے اساتذہ کو تنخواہیں اور مراعات مسلسل مل رہی ہیں۔
اس سال صرف لاہور شہرمیں ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ بچوں نے میٹرک پاس کیا ہے، ایک اندازے کے مطابق ان بچوں میں سے جو مزید تعلیم کے لیے کالجوں میں جائیں گے ان کی تعداد اسی ہزار سے زائد ہوگی، جب کہ کالجوں کے اس شہر کا موجودہ حکمرانوں نے یہ حشر کیا ہے کہ شہر کے سارے سرکاری تعلیمی ادارے مل کر بھی اٹھائیس ہزار سے زائد طلبہ کو داخلہ نہیں دے پائیں گے۔ ایسے میں باقی طلبہ ان نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ بڑے بڑے سرکاری کالجز پر حکومت کی طرف سے پابندی ہے کہ وہ ایک شعبے میں پچاس سے زائد بچے داخل نہیں کرسکتے ۔ حالاں کہ موجودہ تعلیمی اداروں میں ہی اتنے وسائل موجود ہیں کہ موجودہ تعداد سے کم از کم پانچ گنا طلباء کو داخلہ دیا جا سکتا ہے۔ لیکن چوں کہ صحت سے لے کر تعلیم تک ہمارے عوامی بہبود کے تمام شعبوں پر مافیا مسلط ہے اور یہ حکمران اس مافیا کے نمائندے بن کر اقتدار میں آتے ہیں، اس لیے یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ اپنے بھائی بندوں کے مفادات کے خلاف جائیں۔
اس مافیا کو کوئی بھی تو خطرہ نہیں کہ عوام ’زندہ باد، مردہ باد‘ اور ’آوی ای آوے ، جاوے ای جاوے ‘ یا پھر ’میرا وزیر اعظم چور ہے ‘ کے نعروں میں مصروف ہیں، اس لیے آپ بھی گلی میں دودھ والے کی دکان والے خالی تھڑے پر بیٹھ کر تازہ نان کے ساتھ دہی کھائیں۔ اللہ اللہ خیرسلا