اسٹنٹ اسکینڈل۔۔۔۔۔دوسری قسط

گلشن کا یہ کاروبار بغیر کسی رکاوٹ کے جاری تھا کہ لاہور کے سب سے بڑے سرکاری میو ہسپتال میں ایک کٹا کھل گیا ۔ دراصل اس ہسپتال میں قدرے کم تعداد میں اسٹنٹ استعمال ہوتے تھے ، اس لیے یہاں پر اسٹنٹ کی فراہمی کے کاروبار پر لاہور کے ایک معروف اشاعتی ادارے کے ایک چشم و چراغ کی اجارہ داری تھی۔ جب وہاں پر چین سے منگوائے جانے والے اسٹنٹ ڈریپ کی کرم نوازی سے ضروری ٹیسٹنگ کے بغیر ہی فروخت کیے جانے لگے تو ان چینی اسٹنٹ بیچنے والوں نے ڈاکٹر صاحبان کا حصہ لاکھوں میں کیا اور ڈاکٹروں نے دھڑادھڑ یہ اسٹنٹ لگانا شروع کیے تو مہنگے اسٹنٹ بیچنے والوں کو اپنا کاروبار ڈوبتا محسوس ہوا۔ اس پر مذکورہ اشاعتی ادارے کے چشم و چراغ نے جو ایک بہت ہی طاقتور وفاقی وزیر کے قریبی عزیز بھی ہیں ، انہوں نے اپنے رشتہ دار سے مدد طلب کی جس کے تحت ایف آئی اے کو ان چینی اسٹنٹ کے فراہم کنندہ اور اس کے استعمال کروانے والے ڈاکٹر صاحبان کو ’’ہلکا سا ‘‘ سبق سکھانے کی ہدایت کر دی گئی۔ وزیر صاحب کی ہدایت پر ایف آئی اے نے میو ہسپتال پر چھاپہ مارا او ر غیر رجسٹرڈ شدہ اسٹنٹ میڈیا کے سامنے پیش کر کے اپنی نوکری پکی کر لی ، لیکن اس سے ایک اور پنڈورہ بکس کھل گیا۔
اب میڈیا ایف آئی کے افسران سے کہہ رہا ہے کہ میو ہسپتال کو تو چھوڑیں ، یہاں پر تو استعمال کیے جانے والے اسٹنٹوں کی تعداد بہت ہی کم ہے ، آپ پی آئی سی میں تو جھانکیں جہاں پر یہ تھوک کے حساب سے استعمال ہو رہے ہیں ، لیکن اب ایف آئی کو احساس ہوا کہ وہ افسران ِ بالا کی فرمائش پر بہت بڑی حماقت کر کے بم کو لات مار بیٹھے ہیں کیوں کہ انہیں تو ہدایت صرف میو ہسپتال کے لیے تھی۔ جب کہ میڈیا چیخ چیخ کر باقی جگہوں کی نشاندہی کر رہا تھا ، ابھی تو عسکری ادارہ قلب، راولپنڈی ، ملتان اور کراچی کے ہسپتال ہائے قلب اور ڈاکٹروں کی خبر لینا باقی تھی۔ اب میڈیا ہے کہ ایف آئی اے کے افسران کو کھینچ کر ان ہسپتالوں تک لے جانا چاہتا ہے اور ایف آئی اے کے افسران ہیں کہ کسی سہمے جانور کی طرح اپنی بل کے کہیں اندر چھپے میڈیا نمائندگان کو ٹکر ٹکر دیکھے جا رہے ہیں۔
اسی دوران سوشل میڈیا پر ایک انتہائی واہیات اور بے ہودہ ویڈیو سامنے آئی یا لائی گئی جس میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سربراہ ڈاکٹر صاحب ایک خاتون کے ساتھ وہ اٹھکیلیاں کرتے پائے جا رہے ہیں جس سے دل کے ڈاکٹر اپنے مریضوں کو ہمیشہ منع کرتے نظر آتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ سب سے بڑے ہسپتال کے سب سے بڑے ڈاکٹرہیں ، ان کو پتہ ہوگا کہ سگریٹ ، شراب اور خواتین سے کھلے عام چہل بازی کا ان کی صحت پر اثر نہیں پڑتا خاص طور پر جب محفل میں کلاسیکل میوزک بھی چل رہا ہو اور کوئی چپکے سے اس کی ویڈیو بھی بنا رہا ہو۔
اس میں زیادہ ستم کی بات نہیں کہ مذکورہ خاتون جو اس ویڈیو میں ڈاکٹر صاحب کے پہلو میں نظر آتی ہیں وہ ’ریزولیوٹ اونیکس‘ اسٹنٹ درآمد کرکے بیچنے والے ادارے کی ریجنل سیلز منیجر ہیں۔ لیکن بات یہاں تک نہیں رکتی ، اصل بات یہ ہے کہ مذکورہ ویڈیو دو سال پرانی ہے اور یہ ویڈیو اُس وقت پنجاب کے خفیہ اداروں کی طرف سے خادمِ اعلیٰ کو پیش کی تھی جب خادمِ اعلیٰ نے مذکورہ ڈاکٹر صاحب کو پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا سربراہ لگانے کا فیصلہ کرناتھا۔ واقفانِ حال کا یہ کہنا ہے کہ ان کے لیے یہ بات مکمل طور پر ناقابلِ فہم تھی کہ ویڈیو میں نظر آنے والے کرداروں کے مکمل تعارف اور ’’کارکردگی ‘‘پر یہ برہنہ رپورٹ دیکھنے کے باوجود بھی جناب خادمِ اعلیٰ نے دیگر قابل اور قدرے اجلے کردار کے حامل ڈاکٹروں کے مقابلے میں انہی صاحب کی منظوری کیوں دی؟
پتہ نہیں وہ کون سی دیدہ اور نادیدہ مجبوریاں تھیں لیکن موقع پر موجود کرداروں نے خاکسار کو بتایا کہ اس تقرری کی منظوری کے احکامات صادر کرتے وقت خادمِ اعلیٰ کے لبوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ مذکورہ ڈاکٹر صاحب تادمِ تحریر اپنے عہدے پر براجمان ہیں اور پنجاب میں تقرری کے میرٹ کے پیشِ نظر امید نہیں بلکہ یقین ہے کہ ان کو کچھ نہیں ہوگا اور وہ اسی طرح اس عہدے پر قوم کی خدمت فرماتے رہیں گے۔
یہاں اس بات کی نشاندہی کرنا ضروری ہے کہ جب خادمِ اعلیٰ کوئی ساڑھے آٹھ سال قبل اقتدار میں آئے تھے تو اُس وقت پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا سالانہ بجٹ تیس کروڑ روپے تھا جسے وہ آٹھ سال میں بڑھا کر سوا ارب روپے تک لے گئے ہیں۔ لیکن مذکورہ ویڈیو والے ڈاکٹر صاحب کی موجودگی کی برکت دیکھیں کہ مفت علاج کے حاجت مند افراد کے لیے انتظار کا وقت ہفتوں سے بڑھ کر مہینوں میں چلا گیا ہے بھلے وہ اوپن ہارٹ سرجری کی بات ہو یا پھر اسٹنٹ ڈالنے کی ۔ہمارا خیال ہے کہ اگر اسی طریقے سے اس ہسپتال کو چلایا جاتا رہا تو اس بجٹ کوسوا سو ارب روپے تک بھی بڑھانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
ہمارا ہمیشہ سے ہی یہ خیال رہا ہے کہ پاکستان میں صحت کی سہولیات کی اتنی ناگفتہ بہ حالت نہیں ہے جتنی ہمارے ہاں اس شعبے پر قابض ہوجانے والے ڈاکٹرز اور خصوصاً پروفیسر مافیا ہمیں اور ہمارے نمائندہ حکمرانوں کو دکھاتا رہتا ہے۔ یہی مافیا ایک طرف حکمرانوں کو انگریزی میں بنی پریزنٹیشن دیتا ہے، اور مزید بجٹ کا متقاضی ہوتا ہے جب کہ دوسری طرف وہ شعبے کے لیے مخصوص فنڈز کی لوٹ مار کرنے کے ساتھ ساتھ دواساز اداروں سے رقوم اینٹھنے سے باز نہیں آتا ۔ اگر ان کو اپنے مفادات میں کوئی خلل ہونے کا خدشہ ہو یا حکومت کسی آڈٹ یا چیک کی بات کر لے تو پھر ’ینگ ڈاکٹر‘ نامی مخلوق پر مرچیں چھڑک دی جاتی ہیں اور وہ بے حال ہو کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ ہسپتالوں میں علاج کا عمل رُک جاتا ہے، حکومت کو اپنی پڑ جاتی ہے ، اور وہ ہاتھ پاوں جوڑ کر تمام طرح کا چیک اور بیلنس واپس لینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
اس کے نتیجے میں یہ پروفیسر صاحبان اس قدر دھن اکٹھا کر چکے ہیں کہ یہ ایک مثال جب اپنی آنکھوں سے دیکھی تو دانتوں میں زبان دبا کر زخمی کر بیٹھے۔ گزشتہ سال جب بین الاقوامی منڈی میں سونے کی قیمتیں کریش ہوئیں تو شیخ زائد ہسپتال کے ایک پروفیسر ڈاکٹر صاحب کو مجموعی طور پر ایک دن میں چوبیس کروڑ کا گھاٹا پڑا لیکن مجال ہے کہ ان کے ماتھے پر شکن تک آئی ہو؟
تا ہم ہمارے ایک صحافی دوست کی جب اعلیٰ ترین اسٹنٹ بنانے والے ادارے سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال ہم نے جو اسٹنٹ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کو چوراسی ہزار میں فراہم کیا تھا اس سال وہ ساٹھ ہزار روپے میں فراہم کریں گے۔ اس پر صحافی دوست نے کہا کچھ اور کم نہیں ہو سکتا تو ان صاحب نے کہا کہ اگر صرف پنجاب حکومت اپنے تمام ہسپتالوں کے لیے اسٹنٹ اجتماعی طور پر خریدے تو یہی اسٹنٹ چالیس ہزار روپے فی کس پر بھی فراہم کیے جا سکتے ہیں۔ ہمارے اس دوست کا کہنا ہے کہ اگر حکومت چالیس ہزار کا اسٹنٹ خرید کر مریض کو قیمتِ خرید پر ہی فراہم کردے اور اس کی باقی چھوٹی موٹی سپورٹنگ آلات مفت کے کھاتے میں سے دیدے تو مہینوں پر مشتمل انتظار اور مفت علاج کے طلب گاروں کی لمبی قطار کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ اس طرح کے آدھے سے زائد مریض ایسے ہوں گے جو اتنی رقم با آسانی افورڈ کر سکیں گے۔
لیکن وہ دوسری سانس میں ہی یہ کہتے ہیں کہ ملک میں صحت کے شعبے پرقابض پروفیسر مافیا کبھی ایسا ہونے نہیں دے گا۔ اسی لیے تو یہ ٹیچنگ ہسپتالوں میں مریضوں کی براہِ راست ایمرجنسی میں لینے پر اصرار کرتے ہیں اور ہر ہسپتال میں اوپی ڈی کا خاتمہ نہیں ہونے دیتے کیوں کہ اگر مریض سیٹلائیٹ کلینک سے ریفر ہو کر ٹیچنگ ہسپتال میں لایا جائے گا تو پھر یہ پروفیسر صاحبان اپنے نجی ہسپتالوں کے لیے مریضوں کو ’’شکار ‘‘کیسے کریں گے؟تف ہے ۔
٭٭