30ستمبر کا رائے ونڈ جلسہ کیا گل کھلائے گا؟

عمران خان کی تنہا پرواز کہاں تک جائے گی؟ رائے ونڈ میں ہونے والا جلسہ حکومت کے خلاف کوئی گل نہیں کھلا سکے گا البتہ حکومت کی کوئی حماقت ضرور اس کے اپنے گلے کا پھندا بن سکتی ہے؟ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان نے کراچی کے جلسے میں بڑی خبر دینے کے لئے عجلت میں کسی مشاورت کے بغیر رائے ونڈ کا پروگرام دے دیا تھا حکومت نے وزیر اعظم نواز شریف بیرونی دورے کا پروگرام ترتیب دیتے ہوئے 24 ستمبر ذہن میں رکھا بالآخر عمران خان کو بھی یہ باور کرادیا گیا 24 ستمبرکو ان کا احتجاج ’’جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا‘‘ کے مصداق کسی کی توجہ حاصل نہیں کرسکے گا اور ایسی صورت میں جب اپوزیشن کی دیگر جماعتیں بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئی ہیں خود ان کے ’’سیاسی کزن‘‘ جو راولپنڈی کے جلسے میں عوام سے اختیار حاصل کرچکے تھے رائے ونڈ جائیں یا اسلام آباد یہ فیصلہ وہ خود کریں گے مگر انہوں نے اچانک فیصلہ کیا کہ انہیں یہ معاملہ یورپی یونین اور انسانی حقوق کی عالمی کونسل میں اٹھانا چاہئے۔

باخبر ذرائع کا اس بارے میں یہی کہنا ہے کہ قادری صاحب پاکستان کے دورے پر کسی ایجنڈے پر ہی آئے ہیں ظاہر یہ لگتا ہے کہ انہیں دھرنے کی طرح محسوس ہورہا ہے کہ ان کی جدوجہد فی الحال ثمر آور نہیں ہوسکے گی تب بھی وہ اچانک دھرنا ختم کرکے چلے گئے تھے‘ قادری کا باب بند ہونے اور اپوزیشن جماعتوں کے پیچھے ہٹ جانے کے بعد اب شور دل کی طرح دھمک زیادہ ہے مگر اس میں سے کسی قطرہ خوں کا نکلنا ممکن نہیں ہے مسلم لیگ ن کے سنجیدہ حلقوں کا کہناہے کہ حکومت کسی بھی تنازع سے بچنے کی کوشش کرے گی مگر پارٹی کے جذباتی کارکنوں اور رہنماؤں کی جانب سے خطرہ ہے کہ وہ پارٹی کو کسی آزمائش میں ڈال سکتے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے طرز سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسا واقعہ نہ تو مسلم لیگ ن کی حکومت کا پہلا واقعہ ہے نہ آخری بلکہ ان کے مخالف شیخ رشید تو دھڑلے سے کہتے ہیں کہ شریف برادران تواپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے ماہر ہیں۔ ان تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بارہ اکتوبر ننانوے سے مسلم لیگ ن نے کوئی سبق نہیں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرح رائے ونڈ کی حفاظت کے نام پر ڈنڈے اٹھانا کوئی عقل مندی نہیں عمران خان تواپنی تحریک جسے ناکام نہ بھی کہاجائے تو کامیاب بھی نہیں کہہ سکتے،اس کیلئے کسی سہارے کی تلاش میں ہیں مسلم لیگ کی معمولی سی حماقت کو بہت غیرمعمولی بنانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ عمران خان مایوس ہوتے ہیں یا ان کی کوئی امید برآتی ہے نواز حکومت کو ان دنوں صرف عمران خان کی تحریک کا ہی چیلنج درپیش نہیں ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں بڑھتے بھارتی مظالم کے بعد پاکستان اور وادی کے دونوں طرف کے عوام پاکستان کی حکومت کی جانب دیکھ رہے ہیں اڑی کیمپ واقعے کے بعد بھارتی ہرزہ سرائی کا جواب پاک فوج کے کمانڈرز مسکت دیا ہے‘ وزیراعظم نواز شریف سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کا مقدمہ بہت موثر انداز میں پیش کریں گے اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو بھارت پاکستان کے خلاف پنجے جھاڑے بیٹھا ہے وہ ضرور کوئی طوفان اٹھانے کی کوشش کرے گا جس کے نتیجے میں سرحدوں پر بھی کشیدگی بڑھنے کا خطرہ ہے تناؤ کی اس فضا کے دوران ہی پاکستان میں افواج کی ترقی و تبادلوں کا وقت سر پر پہنچ جائے گا۔

حکومت کے اندرونی حلقوں تک رسائی رکھنے والے باخبر ذرائع یہ باور کرارہے ہیں مسلم لیگ ن حکومت نے فی الحال اعلیٰ فوجی قیادت کی مدت میں توسیع کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے جبکہ ان کا کہنا یہ بھی ہے عمران خان اور قادری کی حکومت مخالف تحریکیں ایسے ہی نازک اوقات میں سر اٹھاتی ہیں ان الزامات کو تقویت تحریک انصاف کی صدارت چھوڑ نے والے جاوید ہاشمی کے اعترافی بیانات سے مل چکی ہے‘ ان حالات میں مسلم لیگ ن کو سخت امتحانات کا سامنا ہے وہ حالات سے کس طرح نبرد آزما ہوگی اسکے لیے کچھ انتظار کرنا پڑے گا۔

مسلم لیگ ن کی حکومت کو بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔ کسی بھی قسم کی حماقت مسلم لیگ ن کی حکومت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا خود نواز شریف کے بد ترین مخالف اور سابق آرمی چیف پرویز مشرف بھی حکومت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کردیں‘ ان کا یہ مشورہ اس فوجی حکمت عملی کا غماز ہے جنگ کے دوران کمانڈر کی تبدیلی نہیں کی جاتی۔