’’را‘‘ کاایجنڈا

Raw-agent-passport-11

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی تصویر پرمشتمل 2016ء کا ایک کیلنڈر ایم کیوایم کی جانب سے شائع کیاگیا ہے‘ جس میں فاٹا اور گلگت بلتستان کے علاوہ ملک کے27ڈویژن اور ان کی آبادی ظاہر کی گئی ہے۔ یہ آبادی1998ء کی مردم شماری کے مطابق ہے۔ پاکستان میں گزشتہ 17برس سے نئی مردم شماری کا معاملہ زیرالتواء ہے۔ حکومت نے مختلف وجوہات کے سبب مردم شماری ایک بار پھر ملتوی کردی ہے حالانکہ قومی اسمبلی میں وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صاحبزادی ڈاکٹر نفیسہ شاہ کی جانب سے پیش کردہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی ہے جس میں حکومت سے کہاگیا ہے کہ ملک میں فی الفور مردم شماری کرائی جائے۔ وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ فی الوقت مردم شماری کے سب سے بڑے وکیل ہیں۔

برصغیر میں پائی جانے والی نسلی‘ علاقائی‘ مذہبی اور لسانی تضادات نے تاریخی طور پر حملہ آوروں اور مستقل مفاد کے حامل حکمران طبقات کی مدد کی ہے۔ مختلف علاقوں میں آباد مقامی باشندوں کو آپس میں لڑواکر اپنا اقتدار مضبوط کرنے کا سلسلہ صدیوں پر محیط ہے۔

وہ فوری طور پر مردم شماری کرانے کیلئے وفاق پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ دوسری طرف سندھ کی شہری قیادت کو خدشہ ہے کہ نئی مردم شماری میں شہری سندھ کی آبادی مزید کم کرکے قومی وصوبائی اسمبلیوں میں سیٹیں کم کردی جائیں گی۔ ایم کیوایم کے مطالبات میں اب پاکستان میں 20صوبوں کا مطالبہ سرفہرست ہوگیا ہے۔ متحدہ کے کیلنڈر میں1998ء کی مردم شماری کے مطابق کراچی‘ حیدرآباد‘ سکھر اور میرپورخاص کی آبادی4کروڑ54لاکھ سے تجاوزبتائی گئی ہے جو گزشتہ 17برس میں بڑھ کر7کروڑ تک جاپہنچی ہے۔ کیلنڈرکے مطابق افغانستان کی آبادی3کروڑ18لاکھ اور 34صوبے‘ ملائشیا کی آبادی3کروڑ3لاکھ اور13صوبے‘ کویت کی آبادی40لاکھ45ہزار اور5صوبے‘ انگلینڈ کی آبادی 6کروڑ41لاکھ اور92صوبے‘ آسٹریلیا کی آبادی 2کروڑ 37لاکھ اور16صوبے‘ سری لنکا کی آبادی 2کروڑ3لاکھ اور9صوبے اور سوئیڈن کی آبادی 97لاکھ 17 ہزار اور وہاں 25صوبے ہیں۔

ایم کیوایم کے مطابق شہری سندھ سخت زیادتیوں کا شکار ہے۔ سندھ اسمبلی میں55نشستوں کی بھرپور نمائندگی کے باوجود ایم کیوایم کسی بھی قسم کی قانون سازی سے محروم ہے۔ ناانصافی بغاوت کو جنم دیتی ہے۔ نفرتوں کو پروان چڑھاتی ہے۔ دشمن اس صورتحال کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتا ہے۔ تضادات کو ہوا دیتا ہے‘ امن واستحکام کو تہہ وبالا کرتا ہے ایم کیوایم کے بطن سے جنم لینے والی پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفےٰ کمال نے کہا ہے کہ سندھ میں آباد مہاجر ’’را‘‘ کے ایجنٹ نہیں ہیں‘ محب وطن ہیں‘ انہوں نے بالکل درست کہا ہے‘ پاکستان بنانے والے کبھی اس کے خلاف نہیں ہوسکتے‘ اس سے غداری نہیں کرسکتے‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا گھر بھی ٹھیک کریں۔ ناانصافیوں اور زیادتیوں کا خاتمہ کریں۔

برصغیر میں پائی جانے والی نسلی‘ علاقائی‘ مذہبی اور لسانی تضادات نے تاریخی طور پر حملہ آوروں اور مستقل مفاد کے حامل حکمران طبقات کی مدد کی ہے۔ مختلف علاقوں میں آباد مقامی باشندوں کو آپس میں لڑواکر اپنا اقتدار مضبوط کرنے کا سلسلہ صدیوں پر محیط ہے۔ انگریز سامراج نے ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ فلسفہ کے تحت 150 سال تک برصغیر کو محکوم رکھا۔ ہزاروں میل سے آنے والے پانچ ہزار انگریزوں نے 40کروڑ ہندوستانیوں کو غلام بناکر رکھا تھا۔ جنگ عظیم دوئم میں عظیم نقصانات کے باعث غلامی کا یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ 1947ء میں برصغیر کو آزادکرنا پڑا لیکن اس طرح کہ علاقے میں بھارت کی بالادستی قائم رہے‘ پاکستان کو مفلوج اور محروم رکھا جائے۔ خدا بھلا کرے ڈاکٹر قدیر خان اور ذوالفقار علی بھٹو کا‘ کہ انہوں نے ایٹم بم بنالیا اور علاقے میں طاقت کا توازن قائم ہوگیا۔ لیکن بھارت کے جنونیوں کو چین کہاں‘1962ء میں چین‘ بھارت اور1965ء میں پاک‘ بھارت جنگوں کے فوری بعد1968ء میں نئی انٹیلی جنس ایجنسی ’’را‘‘ تشکیل دی گئی۔ ریسرچ اینڈ اینالیس ونگ (R.A.W۔را) سے قبل ملکی اورغیرملکی انٹیلی جنس کاکام انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ذمہ تھا لیکن مذکورہ بالا دونوں جنگوں میں آئی بی کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی تھی جس کے بعد آنجہانی وزیراعظم اندراگاندھی کے دور میں ’’را‘‘ کو بالخصوص پاکستان‘ چین‘ نیپال اور سری لنکا وغیرہ میں جاسوسی اور تخریب کاری ودہشت گردی کیلئے تیار کیاگیا اور کروڑوں امریکی ڈالرز فنڈ مقرر ہوا۔ گزشتہ دنوں بلوچستان سے پکڑے گئے ’’را‘‘ کے جاسوس کلبھوشن یادیو نے بہت سے خفیہ پہلو بے نقاب کردیئے ہیں۔ بھارت نے ابتداء سے ہی کبھی پاکستان کی حقیقت کو تسلیم نہیں کیا۔ اپنے سے10گنا چھوٹے پڑوسی ملک کو دبانے اور کچلنے کا ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا۔ متحدہ پاکستان کے ایک بازو (مشرقی پاکستان) میں نفرتوں کے ایسے بیچ بوئے کہ تقسیم سے قبل قائداعظم محمد علی جناح کے جلسے میں ڈھاکہ سے کلکتہ سائیکل پر جانے والا شیخ مجیب الرحمان باغی ہوگیا اور1971ء میں پاکستان پر آری چلاکر اسے دو ٹکڑے کردیا۔ آج بنگلہ دیش میں کسی جگہ بھی اردو زبان میں کوئی سائن بورڈ نظر نہیں آتا اور تعلیمی اداروں میں اردو زبان ممنوع ہے۔

کلبھوشن یادیو کا بھی یہی مشن تھا۔ وہ بلوچستان میں نفرتوں اور علیحدگی کے بیج بورہا تھا۔ غیر ریاستی عسکریت اور علیحدگی پسندوں سے مراسم تھے۔ انہیں فنڈز ‘ہتھیار اور معلومات فراہم کرتا تھا۔ کوئٹہ میں اس کی جیولری کی دُکان علیحدگی پسندوں کا گڑھ تھی اوروہاں سے ہدایات جاری کی جاتی تھیں۔ اس کا نیٹ ورک کراچی تک دراز تھا‘ کراچی میں لیاری گینگ وار اور مسلح گروپوں سے اس کے مراسم تھے اور وہ انہیں فنڈز فراہم کرتا تھا۔ ’’را‘‘ کا نیٹ ورک یوں تو پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے لیکن اس کا خاص ہدف چین اور پاکستان ہیں۔ بالخصوص چین اور پاکستان کے درمیان اکنامک راہداری منصوبہ بھارت کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہا ہے۔ وہ اسے تباہ وبرباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ’’را‘‘ نے پاکستان میں اپنی سرگرمیوں میں زبردست اضافہ کردیا ہے۔ بھارت کو معلوم ہے کہ45ارب ڈالر کے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کی تکمیل کے بعد پاکستان ایشین ٹائیگر بن جائے گا۔ اس کے دباؤ اور قابو میں نہیں آئے گا۔ پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کیلئے جال بچھانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے‘ بھارت نے پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر بھی متنازع بنانے کی پوری کوشش کی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر سے 6 دریا بہتے تھے۔ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں بھارت نے ان پر اپنا مکمل حق جتانے کی کوشش کی۔ اقوام متحدہ کی مداخلت اور عالمی بینک کے فنڈ سے پاکستان کے حصے میں تین دریا آئے۔ دو عدد ڈیم منگلا اور تربیلا تعمیر ہوئے لیکن اس کے بعد کسی نئے ڈیم کی تعمیر مشکل بنادی گئی۔ سیاسی دباؤ کے ہتھکنڈے اور پراپیگنڈے کا ہتھیار استعمال کیاگیا۔ اور کالاباغ ڈیم سے لے کر بھاشا ڈیم تک کوئی بھی ڈیم تعمیر نہ ہوسکا۔ معاملے کی تہہ میں جاکر دیکھا جائے تو اس میں بھی ’’را‘‘ کا کردار نظر آئے گا۔ پاکستان میں سیاسی‘ معاشی اور اقتصادی عدم استحکام ’’را‘‘ کاایجنڈا اسے ناکام بنانے کیلئے اپنا گھر ٹھیک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی شروع کردہ ’’ضرب عضب‘‘ میجرجنرل بلال اکبر کی سربراہی میں کراچی آپریشن اور لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کی سرکردگی میں ’’پراپیگنڈہ آپریشن‘‘ نے پاکستان دشمنوں کی کمر توڑ دی ہے۔ یہ کام بہت پہلے شروع ہوتا تو بہت سی خرابیوں سے بچا جاسکتا تھا۔