سندھ تقسیم کے دہانے پر

Sindh-Apex-Committee

متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف ’’را‘‘ کا پروپیگنڈہ بھی رائیگاں گیا۔ آپریشن توگزشتہ ایک سال سے جاری ہے۔ ہزاروں کارکن ’’اِدھر اُدھر ‘‘ ہیں۔ سینکڑوں جیلوں میں بند ہیں۔ پھر بھی کراچی کے دو صوبائی حلقوں سے ایم کیوایم کے دو امیدوار محفوظ یار خان اور قمر عباس کی کامیابی حیران کن ہے۔ محفوظ یار خان کی دیرینہ وابستگی تحریک استقلال سے تھی۔ ایک دور میں ان کا اور تحریک استقلال کا نام لازم وملزوم تھا۔ ایئرمارشل (ر) اصغر خان پارٹی کے سربراہ تھے۔ جواں عزم محفوظ یار خان کراچی میں پارٹی کا سرمایہ تھے۔ اصغر خان پاکستان کے ’’کرپٹ سیاسی نظام‘‘ میں ’’فِٹ‘‘ نہ ہوسکے‘ پس منظر میں چلے گئے۔ صاحبزادے عمر اصغر کی جوان موت نے مزید نڈھال کردیا۔ کراچی میں قیام کے دوران بند کمرے میں پھانسی لگنے کا معمہ آج تک حل نہیں ہوسکا ہے۔ محفوظ یار خان کچھ ہی عرصہ قبل متحدہ قومی موومنٹ میں شامل ہوئے تھے۔ پیشہ کے لحاظ سے وکیل ہیں لیکن عدالتوں کے علاوہ باہر بھی اچھی اور مدّلل گفتگو کرتے ہیں اسی لئے انہیں18137 ووٹ ملے ہیں چبکہ ایم کیوایم کے دوسرے امیدوار قمرعباس کے حصے میں صرف11315 ووٹ آئے۔ سیاسی تجزیہ کاروں نے ووٹروں کا تناسب کم قرار دیا ہے لیکن ایم کیوایم جس کٹھن دور سے گزررہی ہے اس میں یہ تعداد بھی غنیمت ہے۔ دوسرا ضمنی الیکشن نوابشاہ میں تھا جہاں نوشہروفیروز کے حلقے سے عبدالستارراجپر کامیاب ہوئے ہیں یہاں بھی ووٹوں کا تناسب10فیصد سے بھی کم رہا۔ عبدالستار راجپرسابق طالب علم رہنما اور آصف علی زرداری کے انتہائی قریبی معتمدشمار ہوتے ہیں۔ کرپشن کے تمام تر الزامات کے باوجود اندرون سندھ پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک کم ہونے کے باوجود برقرار ہے۔ پاکستانی معاشرہ تضادات سے بھرپور ہے۔ یہاں نسل‘ قوم‘ فرقہ اور لسانی بنیادوں پر عوامی نمائندوں کا انتخاب ہوتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 62-63 صرف کتاب تک محدود ہے۔ سندھ میں آباد دو بڑی آبادیاں ’’مہاجر‘‘ اور ’’سندھی‘‘ ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی میں منقسم ہیں۔

سینیٹ چیئرمین کے الیکشن کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور وفاقی وزراء چوہدری نثار علی خان‘ اسحاق ڈار اور خواجہ سعد رفیق نےایم کیوایم کے سینیٹر بیرسٹر فروغ نسیم کو چیئرمین کے عہدے کی پیشکش کی تھی۔

متحدہ قومی موومنٹ نے سندھ کی آبادی کو متحد رکھنے کیلئے2013ء میں سینیٹ کے چیئرمین کی سیٹ قربان کرکے پیپلزپارٹی کے میاں رضا ربانی کو چیئرمین بننے کا موقع دیا تھا لیکن سندھ میں پی پی حکومت کراچی‘ حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کو سات ماہ گزرنے کے باوجود میئر اور بلدیاتی اداروں کو کام کرنے کاموقع نہیں دے رہی ہے۔ سینیٹ چیئرمین کے الیکشن کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور وفاقی وزراء چوہدری نثار علی خان‘ اسحاق ڈار اور خواجہ سعد رفیق نے ایم کیوایم کے سینیٹر بیرسٹر فروغ نسیم کو چیئرمین کے عہدے کی پیشکش کی تھی۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ اور ایم کیوایم کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے لیکن پی پی پارلیمنٹرین کے صدر آصف علی زرداری نے ایم کیوایم کی قیادت سے رابطہ کرکے انہیں ’’اتحاد‘‘ کے نام پر پی پی امیدوار کی حمایت کیلئے تیار کرلیا۔ مسلم لیگ (ن) کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا پڑی۔30جولائی2013ء کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں پیپلزپارٹی نے اپنے صدارتی امیدوار میاں رضا ربانی کو دستبردار کرواکر انہیں چیئرمین سینیٹ کیلئے نامزد کردیا اور ن لیگ کے صدارتی امیدوار ممنون حسین تحریک انصاف کے واحد حریف امیدوار وجیہہ الدین احمد کو بھاری اکثریت سے شکست دے کر پاکستان کے صدر مملکت منتخب ہوگئے۔ انہیں 432 اور وجیہہ الدین احمد کو صرف 77 ووٹ ملے۔

سینیٹ کی چیئرمین شپ قربان کرنے کے باوجود پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت ایم کیوایم سمیت منتخب بلدیاتی نمائندوں کو اقتدار میں شریک کرنے اور اختیارات دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سندھ کی شہری اور دیہی قیادت کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت صوبائی ملازمتوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلوں کیلئے چالیس اور ساٹھ فیصد کوٹہ مقرر ہوا تھا لیکن 40 فیصد تو درکنار سندھ حکومت ایک فیصد حصہ دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ اس رویہ کے باعث احساس محرومی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ کراچی کے وسائل بڑی بے دردی سے لوٹے جارہے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال کمشنر کراچی سید آصف حیدرشاہ کا تبادلہ ہے۔ وہ مرحوم وزیراعلیٰ سندھ سید عبداﷲ شاہ کے داماد اور صوبائی وزیر خزانہ مراد علی شاہ کے بہنوئی ہیں۔ انہوں نے آصف علی زرداری کے دست راست اور ان کے دور حکومت میں صوبائی امور کے نگراں انورمجید کے لئے زمین ٹرانسفر نہیں کی تھی جو مبینہ طور پر قانون سے ماورا تھی۔ اس کیلئے صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو نے بھی ان پر دباؤ ڈالا تھا لیکن وہ اس مبینہ غیر قانونی عمل کیلئے آمادہ نہیں ہوئے‘ چنانچہ دبئی سے موصول ہونے والے پارٹی قیادت کے حکم پر ان کا تبادلہ کرکے اعجاز احمد خان کو کمشنر کراچی مقرر کردیاگیا ہے۔ کراچی اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں میں صوبائی حکومت کی اس حد تک مداخلت محرومیوں کو جنم دے رہی ہے۔23 اگست1955ء کو آئین ساز اسمبلی میں مغربی پاکستان کے تمام یونٹوں کو ملاکر ون یونٹ بنانے کا بل پیش ہوا جو بحث مباحثہ کے بعد 30ستمبر کو13کے مقابلے میں43ووٹوں کی اکثریت سے منظور ہوگیا تھا۔ اس وقت چھوٹے صوبوں کے ساتھ ہم آہنگی کیلئے پنجاب مغربی پاکستان میں اپنی63 فیصد آبادی کے باوجود15سال کیلئے وفاقی وسائل میں40فیصد حصہ لینے پر آمادہ ہوگیا تھا اور دس برس کیلئے صوبائی وزیراعلیٰ کے حق سے بھی دستبرداری اختیار کی تھی۔ وفاق اور ون یونٹ کو قائم رکھنے کیلئے پنجاب کی جانب سے یہ بڑی قربانی تھی۔ اس کے برعکس سندھ میں مرحوم وزیراعلیٰ جام صادق علی نے بیرونی دورے کے باعث ایم کیوایم کے طارق جاوید کو قائم مقام وزیراعلیٰ مقرر کیا تو اندرون سندھ ہنگامے پھوٹ پڑے اور سخت مخالفت شروع ہوگئی تھی۔ طاقت کا فلسفہ ایک حد سے زیادہ کام نہیں کرتا۔ سندھ اسمبلی میں ایم کیوایم کی 55سیٹیں ہیں لیکن سادہ اکثریت والی پی پی پی من پسند قوانین منظور کرالیتی ہے۔ سندھ کی شہری آبادی چار کروڑ سے تجاوز ہے اتنی بڑی آبادی کے سیاسی‘ سماجی‘ معاشی حقوق اور اختیارات سے گریز کرنا خود صوبے کیلئے سخت نقصان دہ ہوگا۔ اس رویہ سے صوبہ تقسیم کرنے کی سوچ جڑ پکڑے گی۔