بلوچستان،عاشوراء پر امن گزرنا خوش آئند ۔۔۔’را‘ ایجنٹوں کے خلاف عوام ،سیاسی نمائندے،عسکری قیادت ہم آواز

اعظم الفت بلوچ
عاشورہ محرم الحرام ہمیشہ کی طرح بلوچستان حکومت اور سیکورٹی اداروں کے لیے اس سال بھی ایک چیلنج بن کر آیا ۔ ماضی کے پیش آنے والے واقعات کے برخلاف حکومت اور سیکورٹی ایجنسیوں کی شب و روز کی انتھک محنت کے بعد کوئٹہ شہر میں سوائے عاشورہ سے چند روز قبل ہزار ہ برادری کی خواتین کو بس میں ٹارگٹ بنانے کے ،کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا۔ سیکورٹی کو موثر بنانے کے لیے عوام کی طرف سے بھی بلوچستان حکومت اور سیکورٹی اداروں کی مربوط حکمت عملی کو سراہا گیا لیکن بعض حلقے اس بات کا شکوہ کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں کہ سال 2002 سے آج 14 سال گزرنے کے بعد بھی کیوں اب تک دہشت گرد عفریت اور شدت پسندانہ سوچ کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ اعتراضات اور تحفظات اپنی جگہ بہرحال سانحہ 8اگست سول اسپتال کے بعد سے بلوچستان میں دہشت گردوں کی محدود کارروائیوں کے علاوہ کوئی بڑا شدت پسند واقعہ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف اضلاع سے یوم عاشور کے جلوس روایتی عقیدت سے نکالے گئے ۔پولیس ، ایف سی ، لیویز، آرآر جی ، بلوچستان کانسٹبلری اور سیکورٹی فورسز کے 7 ہزار سے زائد اہلکاروں کو عاشورہ محرم کے جلوسوں کی سیکورٹی کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ 63 سی سی ٹی وی کیمرے جلوسوں اور امام بارگاہوں کے اطراف نصب کیے گئے ۔ پہلی مرتبہ کوئٹہ کے مرکزی جلوس کی نگرانی کے لیے ڈرون کیمرے بھی استعمال کیے گئے ۔ کوئٹہ کے اطراف کے پہاڑوں پر بھی لیویز اہلکار تعینات رکھا گیا ۔
عاشورہ محرم کے دوران بہترین سیکورٹی انتظامات پر وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری ، وزیر داخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی طرف سے سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔
تاہم عاشورہ محرم کے ایک روز گزرنے کے بعد ہی کوئٹہ کے سبزل روڈ پر پیدل گشت پر متعین تین ایف سی اہلکارنامعلوم افراد کی فائرنگ سے شہید ہوئے ۔ شہید سپاہیوں کا تعلق کوہاٹ ، ڈی جی خان اور کرک سے تھا ۔ تینوں اہلکاروں کے جسد خاکی نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد آبائی علاقوں کو روانہ کیے گئے ۔ ایف سی کی طرف سے بتایا گیا کہ شہید اہلکار سبزل روڈ عبداللہ جان چوک پر معمول کی گشت پر تھے ۔ کالعدم لشکر جھنگوی العامی کی طرف سے واقعے کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے ۔
ستمبر کے آخر سے علیحدگی پسندبلوچ رہنما براہمداغ بگٹی کے حوالے سے خبریں رواں ہفتہ بھی اخبارات میں اہمیت کی حامل رہیں ۔ وزیر داخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی عاشورہ محرم سے ایک روز قبل مختصر دورے پر پنجگور پہنچے جہاں پنجگور میں ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے والے فراریوں میں امدادی رقوم کی تقسیم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ براہمداغ بگٹی کی بھارت میں سیاسی پناہ کی درخواست سے ثابت ہوگیا ہے کہ وہ بھارت کے ایجنڈے پر پاکستان مخالف کارروائیوں میں ملوث ہے ۔ لیکن ہم بتادینا چاہتے ہیں کہ بھارتی خفیہ ادارے RAW سے فنڈ لینے والے تمام لشکروں کو بلوچستان کے عوام کی طاقت سے شکست دیں گے ۔ کیونکہ پر امن اور ترقی یافتہ بلوچستان کی تعمیر کے لیے بلوچستان کے عوام ، سیاسی نمائندے اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں ۔ وزیر داخلہ کا علیحدگی پسندوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہوجائیں، ہتھیار اٹھانے والوں کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی ۔
چیئرپرسن بینظیر انکم پروگرام ماروی میمن بھی ہفتے کے آخری دن کوئٹہ پہنچیں اور گورنر ہاؤس میں بی آئی ایس پی کی تقریب میں شرکت کی ۔ تقریب سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے 2لاکھ 39ہزار سات سو پانچ مستحق گھرانے سہ ماہی بنیادوں پر بی آئی ایس پی کے وضائف وصول کررہے ہیں اور مستحق اور نادار خواتین کو دی جانے والی رقم کو 3 ہزار روپے سے بڑھا کر 4834 روپے کردیا گیا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آغاز حقوق بلوچستان پروگرام کی طرح بلوچستان سے احساس محرومی کو ختم کرنے میں بی آئی ایس پی کی کوششیں کس حد تک کارگر ثابت ہوتی ہیں ۔