سیکولر نظام میں خدا کو ماننے کی پوری آزادی ہے، البتہ بندہ بننے پر سخت پابندی ہے

ahmed-javed-sahib

سیکولرزم ایک سیاسی نظام کے طور پر دنیا میں عملاً قائم ہے، اور ایک فکر کے طور پر علوم اور ذہن میں جاری ہے۔ یہ ایک کامیاب ترین نظام اور موثر ترین فکر ہے۔ اب سیکولرزم دنیا کا معمول بھی ہے اور عرف بھی۔ عام طور پر یہ سمجھا اور کہا جاتا ہے کہ یہ مذہب کے خلاف ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بات درست نہیں، کیونکہ یہ مذہب کو اتنی اہمیت بھی نہیں دیتا کہ اسے اپنے ”خلاف“ قرار دے کر اس کی اہمیت کا اعتراف کرے۔ طاقت اور علم میں سیکولرزم کا غلبہ اتنا مکمل ہے کہ اہل مذہب کے لیے کھڑے ہونے کی جگہ اور بولنے کے لیے کوئی زبان بھی باقی نہیں رہی۔ اہل مذہب ایمانی قوت سے اس کا انکار تو یقیناً کرتے ہیں، لیکن بھولپن میں اپنے ”انکار“ کو ”رد“ سمجھ لیتے ہیں۔ انکار کے لیے سمجھ اور علم ضروری نہیں ہوتا، رد کے لیے سمجھ اور علم تو ضروری ہیں بھلے تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں، اور اب تو ان کا بھی کال پڑا۔

سیکولرزم اپنا تفصیلی تعارف بھی کراتا ہے لیکن وہ بھی عموماً اہل مذہب کی سمجھ میں نہیں آتا، اس لیے سیکولرزم اپنا موقف بہت سادہ کر کے، ایک مقولہ بنا کے سامنے لاتا ہے تاکہ اہل مذہب سمیت سب کی سمجھ میں آ جائے۔ سیکولرزم کا موقف ہے کہ مذہب نجی معاملہ ہے۔ اس کا بہت ہی سادہ مطلب ہے کہ مذہب کا قانون سے اور علم سے کوئی تعلق نہیں ہے، نہ ہو سکتا ہے۔ اور سادہ کریں تو یہ کہ مذہب کا انسان کے عمل سے اور ذہن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سیکولرزم کہتا ہے کہ آدمی مذہب کو تعویذ بنا کر گلے میں ڈال لے چاہے گھٹنے سے باندھ لے، اس کی مرضی۔ اس کے آگے کچھ نہیں، بس یہی تعویذ ہی تعویذ ہے۔ سیکولرزم میں خدا کو ماننے کی جو ”پوری آزادی“ ہے وہ اسی طرح کی ہے۔ خدا کو مان لینے کا مطلب اگر اس کا بندہ بننا بھی ہے تو یہ ممکن نہیں کیونکہ سیکولرزم اپنے نظام اور فکر سے اس کی کوئی گنجائش رہنے ہی نہیں دیتا۔

تسلیم کہ خدا کو مان لینا ایک شعوری چیز ہے، اور سیکولر نظام اس کی مکمل آزادی دیتا ہے، لیکن اس کا بندہ بننے کے لیے جو عمل درکار ہے وہ تو ذہن ہی ذہن میں نہیں ہو سکتا۔ عمل معاشرے اور تاریخ میں واقع ہوتا ہے۔ معاشرہ اور تاریخ سیچو ایشن کے نہ ختم ہونے والے اور ہر وقت بدلتے رہنے والے مجموعے کا نام ہے۔ فکر کا تعلق اگر ذہن کو کنٹرول کرنا ہے تو نظام کا مطلب سیچوایشن کو کنٹرول کرنا نہیں ہے، اسے پیدا کرنا ہے۔ سیکولر نظام معاشرے اور تاریخ میں ہر سیچوایشن اپنی مرضی، مفاد اور ترجیحات کے مطابق پیدا کرتا ہے اور پھر اسے تبدیلی کو ایک سلسلہ بنا دیتا ہے۔ سیکولر نظام کے پاس سیچوایشن پیدا کرنے کا ذریعہ قانون اور کلچر ہے۔ وہ انسان کے بندہ بننے پر پابندی قانونی معانی میں نہیں لگاتا، وہ معاشرتی اور تاریخی سیچوایشن“ کو انسان کی تقدیر بنا دیتا ہے اور انسان اس ”سخت پابندی“ سے ادھر ادھر نکلنے کی اتنی ہی گنجائش رکھتا ہے جتنی ریل کی پٹڑی پر چلنے والی ٹرین۔ سیکولر نظام اپنے کلچر اور معاش سے جو معاشرتی اور تاریخی صورت حال پیدا کرتا ہے، عام آدمی اس دباؤ کو برداشت نہیں کر سکتا۔ آدمی سیکولر نظام کی پیدا کردہ سیچوایشن کے سانچے میں ڈھالا جا رہا ہو تو اسے جدید تعلیم کے بنائے ہوئے اپنے ذہن کے طاق نسیاں میں پڑے احکام الٰہی یاد نہیں رہتے۔ آنجناب کے قول زریں سے ناچیز کو جو سمجھ آئی وہ مختصراً عرض کر دی۔