سب اندھیرے ایک سے نہیں ہوتے، کچھ رات میں پھیلتے ہیں اور کچھ، دن میں!

ahmed-javed-sahib

اندھیرے جو دل کو ظلمت خانہ بنا دیں وہ رات کو آتے ہیں اور جو ذہن کو تاریک کر دیں وہ دن کو پھیلتے ہیں۔ اندھیرے جو احوال بن جائیں وہ رات میں اترتے ہیں، اور ظلمت جو فکر بن جائے وہ دن کو بڑھتی ہے۔ آج دنیائے آفاق خود اپنے ایندھن سے اور انسانی کاوش سے روشن ہے۔ یہ دنیا انسان کا گھر تو ہے، کوئی عارضی مانے اور کوئی مستقل کہے، وہ الگ بات ہے، گھر تو ہے، اور یہاں اندھیرے بھی ہیں، اور روشنیاں بھی۔ ساری روشنیاں گھر کو منور کرنے میں کھپتی جا رہی ہیں، اور انسان نے اندھیروں کو دنیا سے جلاوطن کر دیا ہے، لیکن وہ اندھیرے جلاوطن ہو کے کہاں جاتے ہیں؟ اس دنیا، اس گھر کے صاحب کا انفس خود بھی روشنیوں اور اندھیروں کا آئینہ خانہ ہے۔ اگر ارضی جغرافیے اور خلائے ارضی کے سارے راستے روشن ہیں، تو کیا ان روشنیوں کی جھمکیں انفسی جغرافیے میں بھی بار پاتی ہیں کہ نہیں؟ دنیا میں روشنیوں کے ٹاور لگاتے لگاتے، انسان کے انفسی جغرافیے کے سارے راستے، اس کے سارے سنگ میل تاریکیوں میں ڈوب گئے ہیں۔ یہ دنیا آج روشن ہے تو علم کے زور سے ہے، اور بس یہی دنیا۔ یہ علم بس اس دنیا کو روشن کرتا ہے، اور اس کی قندیلیں انفس تک جاتے جاتے بجھ جاتی ہیں۔ اور اس قول زریں میں انہی اندھیروں کا ذکر ہے جو انفسی دنیا کے ہیں اور ان کا پھیلنا سمٹنا ارضی دن رات سے کوئی تناسب نہیں رکھتا۔ دنیا کو روشن کر دینے والا علم انفس کا حجاب بن گیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ رات اندھیروں کا مسکن ہے لیکن ہمیں ایسی آنکھ کی ضرورت ہے جو دن کو پھیلنے والوں اندھیروں کو دیکھ سکے اور ایسی قندیل کی جو انفس میں چشم بینا بن جائے۔