سانحہ کو ئٹہ: دہشت گردوں کا سفاکانہ وار

quetta-court-blast

8 اگست 2016 کا دن کوئٹہ کے لئے خون آلود ثابت ہوا۔ ظالموں نے ستر سے زائد افراد کا ناحق خون کیا ۔یہ حملہ در اصل ایک طویل منصوبہ بندی کا شاخسانہ تھا جس میں وکیلوں کو ایک بڑی تعداد میں موت کے گھاٹ اُتارنا تھا ۔یو ں دہشت گرد اپنے غیر اسلامی و غیر انسانی سیاہ عمل میں کامیاب ہو گئے۔ اس خون آشامی میں ساٹھ سے زائد وکلاء پیوند خاک کر دئیے گئے ۔ایک بڑی تعداد وکیلوں اور دیگر شہریوں کی زخموں سے چور ملک بھر کے ہسپتالوں میں زیر علاج ہے۔ سفاک قاتلوں نے پہلے پہل بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کو منو جان روڈ پر گھر سے عدالت جاتے ہوئے قتل کر دیا ۔جبکہ خود کش بمبار کو سول ہسپتال کے شعبہ حادثات اور مردہ خانے کو جانے والی راہدری میں کھڑا کر رکھا تھا، جو کہ دہشت گردوں کی منصوبہ بندی کا حصہ تھا کہ جب وکیل رہنما قتل ہو گا تو لا محالہ وکلا ء کا ہجوم ہسپتال میں اکٹھا ہو گا ،اور وہی ہوا۔ بلال انور کاسی کے قتل کا سنتے ہی وکیل عدالتوں سے دوڑے دوڑے سول ہسپتال پہنچنا شروع ہوگئے ۔ غالباً ایک گھنٹے کے وقفے سے ہسپتال کے مذکورہ مقام پر خودکش بمبار نے دھماکا کر دیا اورایک آن میں سینئرو جونیئر قانون دانوں کی لاشوں کا ڈھیر لگ گیا۔ منظر بڑا دردناک تھا شاید ہی دنیا میں اس نوعیت کا سانحہ پیش آیا ہو کہ درجنوں وکلاء ایک لمحے میں قتل کر دئیے گئے ہوں۔ سو دنیا کی یہ اندوہ ناک تاریخ کوئٹہ میں رقم ہو ئی ۔ کئی وکلاء دیگر ہسپتالوں میں منتقلی کے دوران چل بسے۔ بلوچستان اور پاکستان کے بڑے بڑے نام اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

باز محمد کاکڑجو چوہدری افتخار کی بحالی کی تحریک میں اہم رہنما کے طور پر اُبھرے۔بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر رہے۔ بلال انور کاسی تو بار کے موجودہ صدر ہی تھے۔ قاہر شاہ ایڈوکیٹ بار کے صدر سمیت ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بار کے اہم عہدوں پر فائز رہے۔ داؤد کاسی ایڈوکیٹ بلوچستان کے صدر رہ چکے تھے۔ بیرسٹر عدنان کاسی برطانیا سے وکالت پڑھ کر آئے تھے۔لا ء کالج کوئٹہ میں بطور پرنسپل فرائض انجام دے چکے تھے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کے صاحبزادے سنگت جمالدینی، اے این پی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کے بھائی عسکر خان اچکزئی سمیت کئی و کلاء شہید ہو گئے ۔

تحریک طالبان پاکستان کو افغانستان کے اندر بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے اور یہ پاکستان کیلئے ایک سنگین خطرہ و مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے

عدالتوں کے احاطوں میں ان دنوں خوب گہما گہمی تھی کہ 13اگست کوبلوچستان بار کے انتخابات ہونے جا رہے تھے۔ ہلاک ہونے والے وکلا مختلف پینلز کی جانب سے مختلف عہدوں پر انتخاب لڑ رہے تھے۔ آٹھ جون کو لاء کالج کے پرنسپل بیرسٹر امان اللہ خان اچکزئی کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ دہشت گردوں کی جانب سے ٹیسٹنگ واردات تھی جس میں قتل کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لینا مقصود تھا۔ ممکن ہے کہ اِس قتل کی وجوہات کچھ اور ہی ہوں لیکن سرِدست طریقہ واردات اس کڑی کی نشاندہی کرتا ہے۔ چنانچہ بلال انور کاسی کو مارنے کے بعد بڑے پیمانے پر تباہی کا گھناؤنا مقصد حاصل کر لیا گیا۔ اگرچہ خود کش بمبار کو روکنا ممکن نہیں لیکن اگر سیکورٹی کے راست انتظامات ہوں تو نقصان بہر حال کم سے کم بنائے جا سکتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر ہلاکتیں در اصل سیکورٹی کے ضمن میں مجر مانہ غفلت ہے۔ حالانکہ پولیس اور خفیہ اداروں کے سامنے ماضی کے تجربات موجود تھے کہ جہاں پانچ ایسے حملے کوئٹہ شہر کے اندر رونما ہو چکے تھے کہ کہیں دھماکا یا ٹارگٹ کلنگ کر لی جاتی ۔جب ہسپتال یاجائے وقوع پر شہری ،پولیس اور سیکورٹی اہلکار فوراًجمع ہوتے تو دوسرا دھماکا کر دیا جاتا۔ سول ہسپتال کی عین اسی جگہ پر 16اپریل 2010کو خود کش حملہ کی مشق ہو چکی تھی۔ مگر اس کے باوجود سیکورٹی ادارے اور پولیس مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوئی۔جنرل راحیل شریف نے کوئٹہ آنے میں پہل کر دی ۔سول ہسپتال آئے اورسی ایم ایچ گئے ۔پھر وزیر اعظم میاں نواز شریف پہنچ گئے ۔اگلے دن چیف جسٹس پاکستان ، سپریم کورٹ کے ججز، عمران خان ، شیخ رشید احمد، شہباز شریف ،فاروق ایچ نائیک اورلیاقت بلوچ تشریف لائے ۔

آرمی چیف کی صدارت میں کور ہیڈ کوارٹر میں ایک اہم اجلاس ہوا ۔ایک اور اہم اجلاس نواز شریف کی سربراہی میں گورنر ہاؤس میں منعقد ہوا۔جن میں امن و امان اور سیکورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔’’ کومبنگ‘‘ آپریشن کا فیصلہ ہوا۔ دیکھا جائے تو کومبنگ آپریشن بلوچستان میں عرصے سے ہو رہا ہے۔ ان اجلاسوں میں ادھورے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی نوحہ خوانی بھی ہوئی۔ ملک کو بلا شبہ ایک جنگ کا سامنا ہے جس کے اختتام کی پیش گوئی قبل از وقت ہے۔ کالعدم جماعت الاحرار نے ذمہ دار قبول کر لی جس کے ساتھ داعش بھی اس حرام اور ناروا عمل میں شامل ہے۔ داعش اور ٹی ٹی پی افغانستان کے اندر ایک دوسرے میں ضم ہو چکی ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کو افغانستان کے اندر بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے اور یہ پاکستان کیلئے ایک سنگین خطرہ و مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ اور ان حالات پر یکسو ہو کر غور و فکر کرنا ہو گا۔ نمبر لینے کی بازی جاری رہی تو یہ ملک حالت جنگ میں ہی رہے گا۔ ہر ادارہ سدباب کی کوشش اپنا آئینی فرض سمجھ کر کرے اور حکومت اپنا فرض منصبی ادا کرے۔ وقوعہ پر پہنچنے اور زخمیوں کی عیادت سب سے پہلے کرنے کی دوڑ دہشت گردی کا نہ تو توڑ ہے اور نہ ہی اس طرز عمل سے امن کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔ یعنی جس کا جو دائرہ اختیار ہے اسی میں رہ کر کام کیا جائے۔ دشمن کا وار روکنے کی تدبیریں ہونی چاہئیں ۔ملک اور عوام کے خلاف دہشت گردوں نے حملوں کا اعلان کر رکھا ہے۔ وکیلوں کا یہ قتل عام اس اعلان کا حصہ ہے ۔سانحہ کوئٹہ نے ملک بھر کو سوگوار کر دیا ۔شہر کوئٹہ سنسان رہا ،عدالتیں تو ہیں ہی ویران۔ شہر اور صوبے میں بلا کسی تفریق کے یکجہتی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا، بر ہمی اور رنج و غم کا اظہار کیاگیا۔عوام ان وحشی اورسفاک گروہوں سے نفرت کر تے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان سے کسی قسم کی رو رعایت نہ ہو۔ شہادتوں کے اس سفر میں صحافی شانہ بشانہ ہیں ۔جی ہاں !اس بار کیمرہ مین شہزاد خان اور محمود خان راہی ملک عدم ہوئے ۔ بڑے نامور ، بڑے خوبصورت ، ذہین، محنتی ، بڑے نیک صفت اور چمکتے دمکتے چہروں والے وکیلوں کی زندگیوں کے چراغ گل کردیئے گئے۔