پاناما اور پیپلزپارٹی

پاناما لیکس کا ہنگامہ برپا ہوئے تقریباًسوا سال کا عرصہ گزر چکا معاملہ احتجاج سے عدالت وہاں سے جے آئی ٹی اور پھر عدالت عظمیٰ تک پہنچ چکا بلکہ عدالت عظمیٰ نے اس معاملے پر اپنا فیصلہ بھی محفوظ کر لیا اس محفوظ فیصلے سے کون کون غیرمحفوظ ہوا اور کس کس کا مستقبل خطرہ میں پڑا یہ نوشتہ دیوار ہے جب یہ معاملہ شروع ہوا تھا تو اس وقت سراج الحق اور عمران خان کے سواء کسی نے بھی اس معاملہ کو سنجیدہ نہیں لیا بلکہ پیپلزپارٹی تو اس معاملہ کو عدالت عظمیٰ میں لے جانے پر خاصی سیخ پا تھی اور قائد حزب اختلاف کی ہر تقریر میں عمران خان اور سراج الحق معاملہ عدالت عظمیٰ میں لے جانے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنتے تھے لیکن نا سراج الحق نے ہمت ہاری نہ عمران خان نے بیک فٹ پر جا کر کھیلنے کا فیصلہ کیا نتیجہ طویل سماعت کے بعد عدالت اعظمیٰ کے پانچ میں سے دو جج اس فیصلے پر پہنچے کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے اور انہیں نااہل قرار دے دیا جائے اگرچہ تین ججز نے اپنے ساتھیوں کے اس فیصلے سے اختلاف کیا تھا لیکن نوازشریف کو کلین چٹ انہوں نے بھی نہیں دی تھی اور مزید تحقیق کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا یہ فیصلہ کیا آیا نواز شریف اور اس کے شامل باجا حواریوں نے اس کو نوازشریف کی فتح اور عمران خان کی شرمناک شکست قرار دیا تھا بھنگڑے ڈالے گئے تھے اور مٹھائیاں کھائی اورکھلائی گئی تھیں جہاں نواز شریف اور اس کے حواری اسے اپنی فتح قرار دے رہے تھے وہی پیپلزپارٹی عمران خان پر برس رہی تھی کہ اس نے نواز شریف کی کرپشن پر پردہ ڈال دیا جے آئی ٹی نے کیا کرنا ہے لیکن جے آئی ٹی نے وہ لنکا ڈھائی کہ جس کا راون نے تصور بھی نہیں کیا تھا نواز شریف کی وہ آف شور کمپنیاں اور وہ ملازمتیں جو مستند اور ماہر تحقیقاتی رپورٹروں کی بڑی ٹیم بھی تلاش نہیں کر سکی تھی جے آئی ٹی کے 6جناتی ممبروں نے یہ ساری معلومات ناصرف حاصل کرلیں بلکہ ان کے دستاویزی ثبوت بھی حاصل کر لیے ۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ عدالت میں جمع ہوئی اور جب اس پر کارروائی شروع ہوئی تو وہی پیپلزپارٹی جو سراج الحق اور عمران خان کو نوازشریف کا مدد گار ثابت کرنے پر بضد تھے وہی پیپلزپارٹی اور وہی قائد حزب اختلاف اس ساری کاوش کا سہرا اپنے سر پر باندھنے پر بضد ہیں گویانوازشریف کی کرپشن کو نا تو عدالت نے بے نقاب کیا ہے نا جے آئی ٹی نے ثبوت جمع کئے ہیں بس اپنی مرحوم والدہ کی آواز کو نقل کرنے والے بلاول بھٹو زرداری اور واپڈا کے برطرف میٹرریڈر سے قائد حزب اختلاف بننے والے خورشید شاہ سب ہی اس کو پیپلزپارٹی کا کارنامہ قرار دینے اور عوام کو اس کارنامہ کا کریڈٹ پیپلزپارٹی کو دینے پر مجبور کرنے کے لیے وہ وہ دلائل دے رہے ہیں کہ جن کو سن کر لطیفوں کا گمان ہوتا ہے ۔
این آر او میثاق جمہوریت اور دیگر پردے اب بھی کرپشن کی پردہ داری کے لیے موجود ہیں اگرچہ پرویزمشرف کے این آر او کو عدالت اعظمیٰ غیرقانونی اور اختیارات سے تجاوز لیکن نیا این آر او لانے میں کوئی رکاوٹ موجود نہیں زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ نیا این آر او بھی عدالت اعظمیٰ میں چیلنج کر دیا جائے اور اس کا فیصلہ آنے تک اس کے فیوض وبرکات سے فائدہ اُٹھایا جائے یا پھر میثاق جمہوریت کی آڑ میں جمہوریت بچانے کے لیے پیپلزپارٹی نوازشریف کا ساتھ دے اور اپوزیشن کی قوت کو پارہ پارہ کرتے ہوئے کرپشن کی پشت پناہ بن جائے اس کا اشارہ اس طرح بھی ملتا ہے کہ نوازشریف کی دختر نیک اختر مریم نواز “مریم صفدر” نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے رابطہ بھی کیا ہے اور انہیں بھائی بھی قرار دیا ہے کیا بھائی بہن کی مدد کو آگے نہیں بڑھے گا جبکہ بلاول کے پاپا تو پاکستان میں پائے بھی نہیں جاتے اور یوں بھی پیپلزپارٹی نے اگرچہ تمام ترقوت کا فیصلہ پاپا ہی کے ہاتھ میں ہے لیکن کاغذوں میں تو بلاول بھٹوزرداری ہی پارٹی کے اصل قائد ہیں اسطرح زرداری نواز مفاہمت قائم بھی رہے گی کہ دونوں کا انداز سیاست ایک جیسا ہے اداروں سے تصادم دونوں کی فطرت میں شامل ہے بس فرق اتنا ہے کہ نواز شریف جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو اداروں سے تصاد م کر کے اپنا ہی نقصان کرتے ہیں اور آصف زرداری اس وقت اداروں کو چیلنج کرتے ہیں جب وہ اقتدار میں نہیں ہوتے کہ چیلنج کرنا اور دبئی یا لندن “علاج” کے لیے چلے جانا اور پھر وہاں غیرمتعین عرصہ کے لیے قیام کرنا آسان ہوتا ہے ان دنوں بھی بلاول پاکستان میں اور آصف زرداری پاکستان سے باہر پائے جاتے ہیں یوں بچوں بچوں کی ٹوئٹ میں نوازشریف کے تحفظ کا سامان بھی ہو سکتا ہے اور پیپلزپارٹی عوام میں کرپشن کے خلاف اپنے “مجاہدانہ” کردار کو کیش کرانے کی کوشش بھی کر سکتی ہے لیکن اس کوشش میں کتنی کامیابی حاصل ہوتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن عمران خان نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک بلند حوصلہ اسپورٹس مین ہے جس نے اپنے کرکٹ کیرئیر کے ابتدائی ایام کو کبھی سرپر سوار نہیں ہونے دیا اور بلاآخر کرکٹ کا ایک ایسا کھلاڑی ثابت ہوا کہ جو مشکل سے مشکل میچ کا رخ بھی اپنی جانب بدل لیتا تھا اور سراج الحق تو صاف گو آدمی ہے انہوں نے کبھی یہ حقیقت بتانے میں عار محسوس نہیں کیا ہے کہ وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور اسکول کے دور میں پانچ میل سے زائد فاصلہ پر اسکول میں ننگے پیر جایا کرتے تھے گویا دونوں قائدین ہی اپنی لگن میں سچے ہیں عمران خان اور سراج الحق نے سیاست کے میدان میں جس پامردی کا مظاہرہ کیا ہے وہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں خصوصاً ان کے لیے جن کے مفادات پشاور ،کراچی،دیربالایا بنی گالہ سے وابستہ نہیں بلکہ دبئی ،برطانیہ ،سوئزرلینڈ،پاناما ،برٹش ورجن آئی لینڈ اور دیگر ممالک سے وابستہ ہیں قوم بیدار ہو چکی وہ جانتی ہے کہ کون کتنا شریف ہے کون کرپشن کا بادشاہ ہے اور کون کرپشن سے زردار بنا ہے ۔
٭٭…٭٭