اقامہ کا پھندا

ایک فیصلہ 28 جولائی کو ہوا جس نے تخت وتاج چھین لیا۔قاضی وقت نے فیصلہ دیا کہ جس منصب کے لیے صداقت وامانت شرط اول ہیں اس پر فائز شخص ان شرائط پر پورا نہیں اترتا۔عدالت کافیصلہ آیا تو گویا سب کو آگ بگولہ کر گیا۔عدالت جانے کا مشورہ دینے والوں کو اپنی قوت خرید پر اعتماد تھا۔ ماضی میں ان کی لگائی ہوئی ہر بولی کامیاب رہی تھی لیکن کچھ ہستیاں ناقابل فروخت بھی ہوتی ہیں ۔عدالت اعظمیٰ کے معزز ججوں نے ثابت کیا کہ ابھی وہ سکہ نہیں ڈھالا گیا ہے جس میں ان کی بولی لگ سکے معزز عدالت کے جج فیصلہ پر تواس ہی وقت بھی پہنچ چکے تھے اور دو ججوں نے اپنا فیصلہ سنا بھی دیا تھا لیکن اس ہی عدالت کے تین ججوں نے اتمام حجت کا فیصلہ کیا اور مزید تحقیق و تفتیش کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم(جے آئی ٹی)تشکیل دے دی ۔سودا گرو ں نے جانا کہ کام آسان ہوا اس ممکنہ آسانی کی خوشی میں بھنگڑے ڈالے گئے اور مٹھائیاں کھائی اور کھلائی گئیں گویا مرحب نے قلعہ خیبر کا کامیاب دفاع کیا ہے اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کو اپنی فتح قرار دیا گیا کہ اب معاملہ معزز عدالت کے ججوں سے نہیں شہنشاہ وقت کے ماتحت عملے سے کرنا تھا ۔نیب ہو یا ایف آئی اے ،ایس ای سی پی ہو یا اسٹیٹ بینک سب ہی سرکار کے ملازم ہیں ، توقع تھی کہ گریڈ 19 اور 20 کے افسران کو لالچ دینا اور دھمکانا آسان ہو گا، بچوں کی زندگی سب کو پیاری ہوتی ہے یہ توپھر انسان تھے۔ چڑیا جیسا ننھا پرندہ بھی اپنے بچوں کے تحفظ کے لیے اپنے سے کئی گنا بڑی بلی سے مقابلہ پر آمادہ ہو جاتی ہے تو یہ تو گوشت پوست کے بنے انسان تھے، انہیں بھی اپنے بچے پیارے تھے پھر لالچ وہ راستا ہے جس پر چل کر کسی کو بھی اپنا بے دام غلام بنایا جا سکتا ہے۔ پاناما کے پاجامہ میں الجھے شریفوں نے دونوں ہی حربے استعمال کیے خود بھی دھمکیاں دی اور اپنے لے پالکوں سے بھی کہلوایا ابھی حاضر ڈیوٹی ہو ابھی تحفظ حاصل ہے کل ریٹائر ہو جاو¿ گے پھر پنشن کے لیے ہمارے ہی پاس آو¿ گے اور تحفظ بھی حاصل نہیں رہے گا ۔بلواسطہ ماڈل ٹاون کا حوالہ بھی آیا اور لاپتہ افراد کا ذکر بھی ۔پیغام واضح تھا کہ ہماری بنائی ہوئی راہ پر تحقیقات کرو سب ٹھیک کی رپورٹ دو رونہ۔۔۔۔۔لیکن واجد ضیاءاور اس کی ٹیم نے اپنی خوشحالی اور بچوں کے تحفظ پر قوم کی خوشحالی اور مستقبل کے تحفظ کو ترجیح دی پھر جے آئی ٹی نے وہ لنکا ڈھائی کہ نام کے شریف صادق اور امین نہیں رہے اور جو صادق اور امین نہ ہو وہ کاذب اور خائن ہوتا ہے عدالت اعظمیٰ کے فیصلہ نے سراج الحق اور عمران خان کے دعووں پر مہر تصدیق ثبت کردی۔
اس فیصلہ سے قبل جو عدالتی فیصلہ کے احترام کا درس دیتے تھے خود فیصلہ تسلیم کرنے اور فریق مخالف کو بھی فیصلہ تسلیم کرنے کی نصیحت کیا کرتے تھے، وہ فیصلہ کے بعد سیخ پا ہیں ۔ آئین سے آرٹیکل 62 اور63 نکالنے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔یہ درست ہے کہ پارلیمنٹ کو اختیار حاصل ہے کہ آئین میں ترمیم کر دے۔ آئین سے مناسبت کے لیے صادق اور امین ہونے کی شرط ہذف کر دے لیکن اللہ کی پکڑ میں آتے لوگوں کو عزت وتکریم کون دلا سکتا ہے۔بزرگ کہتے ہیں کہ چاند کی طرف منہ کر کے نہ تھوکو ،چاند کی جانب تھوکا گیا اپنے ہی منہ پر آتا ہے۔سیاسی اختلاف میں شوکت خانم کی مسیحائی کو جس طرح رسوا کیا گیا وہ افسوسناک ہی نہیں شرمناک بھی ہے۔ کیا اس اسپتال میں علاج کے لیے آنے والوں سے پی ٹی آئی اور عمران سے وفاداری کا حلف لیا جاتا ہے؟ کیا یہاں علاج کے لیے آنے والوں سے ان کی سیاسی وابستگی معلوم کی جاتی ہے اور مخالفین کی صفوں میں شامل افراد کا علاج کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے؟ ایسا بالکل نہیں ہے یہاں تو علاج کے لیے آنے والوں سے ان کا مذہب ،علاقہ اورذات بھی نہیں پوچھی جاتی۔ یہاں علاج کے لیے آنے والا صرف مریض ہوتا ہے ۔کیا ایسا اسپتال تعمیر کرنا ،موٹروے ،میٹرو اور اورنج لائن سے زیادہ ضروری نہیں تھا ۔موٹروے نہ بنتا،میٹرو نہ آتی اور اورنج لائن نہ چلتی تب بھی سفر کٹ ہی جانا تھا ۔یہ درست ہے کہ بہترین اسپتال اور انتہائی قابل ڈاکٹر بھی انسان کی مہلت عمل میں ایک لمحہ کا اضافہ بھی نہیں کرسکتے کہ قضا اور شفاءکا اختیار تو اس کے دائرہ اختیار میں ہے جو قادر مطلق ہے جو” کن فیکون” کا مالک ہے ۔بہتر اسپتال اور قابل معالج مرض کی شدت تو کم نہیں کر سکتے اس کی اذیت ضرور کم کر سکتے ہیں اور شوکت خانم میں یہی ہو رہا ہے۔ “ملکہ” وقت معمول کے طبی معائنہ کے لیے لندن تشریف لے گئیں تھیں کہ ان کے شوہر نام دار کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے کے باوجود ملک میں ایک بھی ایسا قابل اعتبار اسپتال کا قیام عمل میں نہیں آیا ہے کہ جہاں پر مراعات یافتہ طبقہ اپنا معمول کا طبی معائنہ بھی کرا سکے۔ ملکہ عالیہ کے معمول کے طبی معائنہ میں وہ مرض سامنے آیا کہ جس کے خاص اسپتال کو محترمہ کے شوہر نامدار اور ان کے حواریوں نے اپنی خصوصی تنقید کا ہی نہیں شدید بدکلامی کا نشانا بھی بنایا تھا اور وہ کونسا الزام اور بہتان ہے جو اس اسپتال کے روح رواں پر عائد نہ کیا گیا ہو۔ لیکن رب وہ دکھاتا ہے جو انسان دیکھنا نہیں چاہتا ۔
جس اقامہ کو نااہلی کی وجہ بتاتے ہوئے نواز شریف کہا کرتے ہیں کہ کیا اقامہ لینا جرم ہے، کیا بیٹے کی کمپنی میں ملازمت جرم ہے، کیا معاہدہ ملازمت میں درج تنخواہ نہ لینا جرم ہے ،یہ درست ہے کہ نہ اقامہ لینا جرم ہے نہ ملازمت کرنا اور نہ تنخواہ لینا ۔لیکن کیا دبئی سے نیویارک اور نیویارک سے لاہور منتقل ہونے والی رقم کا اظہار نہ کرنا جرم نہیں ؟ کیا منی لارڈنگ جرم نہیں اور کیا صرف ان مقاصد کے لیے اقامہ لینا جرم نہیں ؟یہ درست ہے کہ ماہانہ دس ہزار درھم تنخواہ نہیں لی لیکن یوں کل عرصہ ملازمت کی تنخواہ دس لاکھ درہم سے زائد نہیں بنتی ۔وہ منی لانڈرنگ جس پر حبیب بینک نیویارک سٹی برانچ کو 63 ارب روپے کے جرمانے اور برانچ کی بندش کی سزا کا سامنا ہے کیا وہ رقم 10 لاکھ درھم کے مساوی ہے؟ یہ رقم تو 10لاکھ درھم سے کئی سو گنا زائد ہے اور پھر اس منی لانڈرنگ کے نتیجہ میں ملک کے سب سے بڑے اور معتبر بینک کی شہرت جو داغدار ہوئی ہے، اس کو روپوں میں نہیں تولا جا سکتا۔ اس انکشاف نے واضح کر دیا ہے کہ جس اقامہ کو نواز شریف بہانہ کہہ رہے تھے کہ کیس تھا پاناما کا اور نا اہلی کا سبب بنا اقامہ۔ وہ اقامہ دھوبی کی وہ دکان ثابت ہوا ہے جہاں سے کھربوں روپے کی دھلائی ہوئی ہے اور وہ شریف خاندان کے لیے پاناما سے بھی بڑا پھندا بن گیا ہے۔
نیب کے انتہائی اعلیٰ افسر امتیاز تاجور نے جو کچھ کہا ہے وہ انتہائی خوفناک منظر نامہ پیش کر رہا ہے۔ اگرچہ انہوں نے کسی فرد یا جماعت کا نام نہیں لیا لیکن صورتحال تو واضح ہے کہ دھمکیاں خصوصاً جان سے مارنے کی دھمکیاں تو وہی دیتے ہیں کہ جن کے بڑے مفادات پر ضرب پڑ رہی ہو اور نیب کی کارروائی سے کس کے مفادات پر ضرب پڑ رہی ہے یہ سب جانتے ہیں اقامہ کو بہانہ قرار دینے والے اس اقامہ کے پردے میں چھپے اپنے کالے کرتوت سامنے آنے پر مزید اشتعال کا شکار ہیں ۔ الراضی بینک، دبئی سے حبیب بینک نیویارک اور وہاں سے لاہور کے اسٹینڈر چارٹر میں آنے والی رقوم اس اقامہ کی ہی مرہون منت ہے۔ اس ضمن میں نجی ٹی وی چینل پر دکھائی جانے والی منی ٹریل ثابت کر رہی ہے کہ دبئی سے یہ رقوم ہل میٹل کے حسابات سے نیویارک ارسال کی گئی ۔ہل میٹل وہ کمپنی ہے جس کے مالک میاں محمد نوازشریف ثابت ہو چکے ہیں اور کمپنی کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق کمپنی مسلسل بھاری خسارے کا شکار تھی لیکن اس کے حسابات سے کروڑوں ڈالر پہلے نیویارک اور وہاں سے لاہور منتقل ہوئے۔ دبئی سے حبیب بینک نیویارک برانچ میں جن کھاتوں میں رقوم منتقل ہوئی، اس کی تفصیلات تو دستیاب نہیں لیکن وہاں سے لاہور کے اسٹینڈر چارٹر بینک کے جس کھاتے میں رقوم منتقل ہوئی ،وہ میاں محمد نواز شریف کے نام ہے لیکن میاں صاحب کے گوشواروں میں اس کھاتے کا کہیں ذکر نہیں ، ممکن ہے کہ یہ میاں صاحب کے خلاف کوئی سازش ہو جو ان کے شاطر دشمنوں نے تیار کی ہو لیکن اس کا کیا کریں کہ ان کھاتوں میں منتقل ہونے والی رقوم سے مستفید ہونے والوں میں شریف خاندان کے افراد ہی شامل ہیں بلکہ اس سے اصل فوائد حاصل کرنے والوں میں میاں محمد نوازشریف کے اہلخانہ سرفہرست ہیں لیکن اس کے باوجود میاں صاحب ہر موقع اور مقام پر یہی کہتے سنائی دیتے ہیں مجھے کیوں نکالا” ؟
ابھی وقت ہے کہ کرپشن کے خاتمہ کی جدوجہد کرنے والی تمام قوتیں متحد ہوں کہ اس طرح سے ہی عوامی سطح پر کرپشن اور کرپٹ عناصر کا محاسبہ کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے اپنا کام کر دیا اب سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ساتھی اور پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک اورقو م کے مفاد میں فیصلہ کریں ۔ورنہ ساری جدوجہد کا ثمر حاصل نہ ہو گا اور عدالتی فیصلے کے باوجود کرپٹ عناصر مزید مضبوط ہوں گے۔