انجام

قصور کا عمران علی اپنے انجام کو پہنچا اگرچہ ابھی حتمی فیصلہ میں کچھ وقت لگے گا لیکن یہ جو کچھ ہوا اس کا سہراجولوگ اپنے سر باندھ رہے ہیں وہ ذرا سوچیں تو سہی کہ گذشتہ تقریباً 10 سال سے تخت لاہور پر قابض ہیں اور صرف قصور ہی میں گذشتہ مختصر عرصہ میں ریکارڈ کے مطابق 8 بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا، جن کے قتل کا اعتراف بھی مجرم عمران علی نے کردیا جو اعترافات سامنے آئیں ہیں ان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مجرم عمران علی ایک جانب انتہائی سفاک درندہ ہے تو دوسری جانب انتہائی کمزور دل انسان کہ اس طرح سے اعتراف جرم کر رہا ہے جیسے اس نے جرم نہیں کارنامے انجام دیئے ہوں ۔8 بچیوں کا بہیمانہ قتل کرنے کے بعد اتنا کمزور دل ہونا سمجھ سے بالاتر ہے ،پھر مختصر مدت میں جس طرح سے 54 گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہوئے وہ بھی حیرت ناک محسوس ہوتا ہے کہ مجرم کیا پکڑا گیاوہ سارے جو منہ میں تالا لگائے بیٹھے تھے اچانک ان کے تالے کھل گئے اور ہر شخص نے ملزم کے گناہوں کا پردہ چاک کیا لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان 54 افراد میں سے جن افراد نے ملزم کے پہلے قتل کی گواہی دی ہے وہ اس عرصہ میں خاموش کیوں رہے اگر وہ اس درندے کے پہلے قتل کے بعد ہی قانون کی مدد کرتے اور پولیس کو گواہی ریکارڈ کراتے تو کم از کم 7 بچیاں اس طرح درندگی کا شکار ہونے کے بعد قتل نا ہوتیں ۔54 گواہوں کے بیانات 44 سے 55 گھنٹوں کے درمیان ریکارڈ کر لیے گئے دستیاب اطلاعات کے مطابق اس خصوصی عدالت نے روزآنہ 9 سے11 گھنٹے کیس کی سماعت کی کیس کی سماعت کرنے والے جج اور عدالتی عملہ ہی نہیں سماعت میں شریک تمام افراد ہی انسانی ضروریات کے پابند ہیں جن میں رفع حاجات ،چائے اور کھانے کے وقفہ اور اس دوران کم از کم 2 نماز کے وقفہ شامل ہیں اس طرح کل حقیقی سماعت کا دورانیہ کسی بھی طور 50 گھنٹے سے زائد نہیں بنتا اس عرصہ میں گواہوں کے بیانات بھی ریکارڈ ہوئے ہیں وکیل صفائی اور وکیل استغاثہ نے گواہوں پر جرح بھی کی ہے گویا ایک ایسا نظام چلا ہے جس میں ہر چیز کمپیوٹرز کے انداز میں آگے بڑھی ہے کہیں ایک لمحہ کا بھی ضیاع نہیں ہوا ہے لیکن ابھی اپیل کا مرحلہ باقی ہے اور یہ معاملہ جو بظاہر 7 دن کی انتہائی محدود مدت میں اپنے انجام کو پہنچا ہے درحقیقت ابھی اس کا اصل حقیقی انجام بہت دور ہے ۔

اس فیصلہ کے اعلان کے ساتھ ہی چند سیاستدانوں نے اس کو اپنا کارنامہ قرار دینا شروع کر دیا ہے کہ انصاف ایسے ہوتا ہے میرا یہاں پر ان سیاستدانوں سے یہ سوال ہے کہ یہ ان کا کارنامہ ہے یا فرائض کی ادائیگی جس کی وہ بھاری قیمت وصول کر رہے ہیں۔ملزم عمران جب پکڑا گیا تھا تو پنجاب کے وزیراعلیٰ نے پریس کانفرنس کرکے اس کا اعلان کیا تھا اس موقع پر زینب کے والد بھی موجود تھے لیکن وزیراعلیٰ نے انہیں بات کرنے سے روک دیا اور سارا اعزاز اپنے نام کیا جبکہ ملزم کو گرفتار کرنا پولیس کے فرائض میںشامل ہے اور فرض کی ادائیگی کوئی کارنامہ نہیں اصل کارنامہ تو وہ ہوتا کہ پہلی واردات کے بعد ہی ملزم گرفتار کیا جاتا لیکن اس وقت بھی وزیراعلیٰ کی پریس کانفرنس بلکہ کسی بھی پریس کانفرنس کی ضرورت نہیں تھی ۔

معزز جج نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ اگرچہ قانون کے دائرے میں تو پورا اترتا ہے لیکن دستور پاکستان کے تحت کوئی بھی قانون قرآن وسنت سے بالاتر نہیں ہو سکتا اور ایک مرتبہ سے زائد سزائے موت کا فیصلہ دینا قرآن کے احکام کے خلاف ہے کسی بھی مجرم کو سزائے موت صرف ایک بار دی جا سکتی ہے کیونکہ دوسری تیسری اور چوتھی سزا کے لیے مجرم کا زندہ اور صحت مند ہونا ضروری ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ سزا پر عملدرآمد کے بعد دوسری ،تیسری اور چوتھی مرتبہ عملدرآمد کس طرح ممکن ہو گا اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں فرماتے ہیں کہ میں ہی ماروںگا پھر زندہ کرونگا پھرماروں گا پھر زندہ کرونگا ۔اب مارنا اور مارنے کے بعد زندہ کرنا صرف رب کائنات کی قدرت میںہے اس طرح سنائی جانے والی سزا دراصل خدائی نظام کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی خواہش کا اظہار ہے کسی انسان کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی کو زندہ کر سکے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزہ رب کائنات نے عطا کیا تھا کہ وہ مردہ کو زندہ کر دیا کرتے تھے لیکن اس کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو الفاظ استعمال کیا کرتے تھے وہ اس امر کا اظہار تھے کہ زندہ اور مردہ کرنے کا اختیار صرف اور صرف رب کائنات کو ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام فرماتے “اللہ کے حکم سے اٹھ کھڑا ہو” اور مردہ اٹھ بیٹھتا ۔اب جج صاحب کیا کرینگے کہ پہلی سزا پر عمل کے بعد باقی سزاہوں پر عمل بھی کراسکیں ایک مرتبہ سے زائدسزائے موت کا حکم کار ربی میں مداخلت ہے اور دستور پاکستان اس کی اجازت نہیں دیتا ۔

قصور کے اس واقعہ کے بعد بھی پنجاب کے مختلف علاقوں میں ایسی بہیمانہ وارداتوں کا سلسلہ جاری رہا ہے قصور میں تو شدید عوامی ردعمل کے بعد ” مجرم” پکڑا بھی گیا اور خادم اعلیٰ نے اس کی گرفتاری کا سہرہ بھی اپنے سر باندھا لیکن دیگر علاقوں میں ہونے والی وارداتوں میں ملوث کوئی بھی مجرم نہیں پکڑا جا سکا مجرم عمران کو شدید عوامی دباؤ کے نتیجے میں تیز رفتاری سے مقدمہ چلا کر سزا سنا دی گئی لیکن ابھی اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کے مراحل باقی ہیں اور مجرم کے انجام تک پہنچنے میں ابھی وقت لگے گا اصل معاملات یہ نہیں ہے کہ ایک واقعہ میں ملوث ملزم کو سزا دے دی جائے اصل معاملہ یہ ہے کہ ایسی قانون سازی کی جائے جس کے نتیجے میں جرائم کا حقیقی سدباب ہو سکے موجودہ قوانین سرعام سزاؤں کی اجازت نہیں دیتے اور پھر “حقوق مجرمان “کی نام نہاد تنظیمیں بھی سرعام سزاؤں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتی ہیں ان تنظیموں کی نظر میں موت کی سزا بھی غیر انسانی ہے ان کا موقف ہے کہ کسی جج کو اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی مجرم کی موت کا فیصلہ کر سکے ۔

ایسے مسائل کا واحد حل اسلامی نظام عدل میں ہے اسلام کا نظام عدل ظالمانہ نہیں منصفانہ ہے کہ یہ کسی انسان کا بنایا ہوا نہیں جس میں ذاتی عناد اور خطاء کا شائبہ بھی موجود ہویہ رب کائنات کا نازل کردہ نظام ہے اسی پر عمل کر کے دنیا کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے سرعام سزائیں انسان میں خوف پیدا کرتی ہیں اور یہ خوف ہی وہ عامل ہے جو انسان کو شیطان بننے سے روکتا ہے اگر کسی نئے ملزم کو نہیں صرف جیلوںمیں سزائے موت کے قیدیوں کو سرعام پھانسیاں دے دی جائیں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ملک میں کسی کو کسی کے ساتھ زیادتی اور قتل کرنے کی ہمت بھی نا ہو گی۔