خیر ہو تیری لیلاؤں کی

یہ سال ریٹائرڈ افسران پر کچھ زیادہ ہی بھاری پڑگیا۔یکے بعد دیگرے تین اصلی تے وڈے سی ایس پی افسران اور ایک بستہ ب کے وایا بھٹنڈا ،بھٹو صاحب کی مہربانیوں سے قلعہ بیوروکریسی می

ں بذریعہ لیٹرل اینٹری ( بھرتی کا وہ طریقہ کار جہاں سے نہلے دہلے دامادوں ،کزن،بہنوئیوں کو

سابق بیورو کریٹ اقبال دیوان صاحب

درمیان میں جی آیاں نو بسم اللہ کہہ کرسول سروس میں گھسیڑ دیا جاتا تھا) داخل ہونے والے جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔برفانی چیتے جیسے نایاب یہ ریٹائر ڈ سی ایس پی افسران، انگریزپرکھوں کی نشانی جو اب بھی تجارت پیشہ سیاست دانوںاور سیاست گزیدہ ریٹائرڈ جرنیلوں کی موجودگی میں خود کو اسٹیبلشمنٹ کا حصہ سمجھتے ہیں اور اپنے مان سک ۔یوگ دان(Mental Contribution) کو بدلتی مملکتی بساط میں اتنا ہی اہم اور ناگزیر سمجھتے ہیں جتنا جادوگر آف جدہ شریف الدین پیرزادہ کا ملٹری ٹیک اوور میں مانا جاتاتھا۔
ان میں سے آخر الذکر دو افسران کی موت پر جو اعلامیہ ہائے اموات (Obituaries) شائع ہوئے تو ان میں وہ تمام عہدے بھی جن پر وہ عارضی طور پر متمکن رہے تھے وہ والد صاحب کے نام کی جگہ درج تھے۔ ہم نے ایک محفل میں اعتراض کیا کہ Obituary اور سی وی میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے، تو ہمارے احباب اور اہل خانہ مخالفانہ دلائل کی تلواریں سونت کر ہم پر پل پڑے۔وہ تو خیر ہو ہمارا بیٹا اپنی بے رحم حس مذاق کے ساتھ محفل میں موجود تھا۔اس میں عمران خان والے کئی اوصاف ہیں مگر معمولی سے اختلاف کے ساتھ۔عمران پر اگر اشرافیہ کی گوریاں جان نچھاور کرتی تھیں تو اس پر وہاں کی Junkies مہربان ہیں۔عمران کی طرح اس سے بھی صحیح وقت پر صحیح فیصلے نہیں ہوتے۔اس سے بھی تادیر تعلقات نہیں نبھائے جاتے ۔ اس نے مسئلے کا فوری حل یہ نکالا کہ ہماری موت پر وہ ایک اخبار میں پچاس روپے فی لفظ کے حساب سے صرف سات الفاظ کی یہObituary چھپوائے گا کہ
ٰ”Iqbal Diwan died.His Honda City for Sale”
پہلے افسر جن کا سوئم تھا وہ ہمارے ڈاکٹر ظفر الطاف کے ممدوح تھے۔یہ الگ بات ہے کہ ڈاکٹر ظفر صاحب کی زندگی میں اکثر تلخیاں وہ اور ان کے قرابت داروں نے گھول رکھی تھیں مگر ہمارے ڈاکٹر صاحب کا دل اور مزاج سمندروں کی طرح وسیع اور بے کنار تھا۔ اس افسر عالی مقام کے گھر پرکھانا ہر وقت طعام المسکین والا ہوتا۔ہنزہ کا کک ان کے پرہیز کے کھانے بنا بناکر خود بھی اکثر اسی اندر ہی اندر کھاجانے والے تذبذب اور بحران ذات کا شکار ہوگیا تھا جو غلام محمد قاصرؔ کو محبت کے حوالے سے آسیب چمٹ گیا تھا کہ ع
کروں گا کیا جو ہوگیا محبت میں ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
اس کی زندگی میں صرف دو دکھ تھے ۔ایک تو سی پیک کے حوالے سے تھا ۔وہ تعطیلات میں ہنزہ سے ارمچی (چین) جاتا تو اسمگلنگ کرکے کچھ سامان لے آتا تھاجس سے اس کا ہوائی جہاز کا خرچہ نکلا آتا تھا۔اس سے لگتا تھا کہ اس کی تجارتی اجارہ داری پر چینی قبضہ کرلیں گے۔ دوسرا وہ پرہیز کے کھانے بنا بنا کر لسانیا،پیزا،نہاری،بریانی،بادامی قورمہ،بہاری کباب اور ڈبل کا مٹھا جیسے کھانے بنانا بھول گیا تھا۔ بیگم صاحبہ جو دوپہر کا کھانا اپنے اسکول میں اور رات کا کھانا باہر دعوتوں میں کھاتی تھیں اسے اکثر نوکری سے نکالنے کی دھمکی دیتی تھیں۔افسر محترم کا خیال تھا کہ ہمیشہ کی خوش خوراک ڈاکٹر صاحب بھی کراچی آن کر ان کی طرح پرہیز کے کھانے ہی کھاتے ہیں ، اُبلے چاول،دھلی ہوئی مسور کی دال، کالی مرچ والے بینز اور پیکٹوں کے بد ذائقہ سوپ۔
ڈیفنس فیز فائیو میں ان کا گھر بناوٹ کی حد تک بہت خوبصورت تھا۔ہم نے معلوم کیا کہ ایسا کیسے تو پتہ چلا پہلی بیوی کا ذوق و شوق در و دیوار سے عیاں تھا ۔ ان کی پہلی بیوی بنگالن تھیں، حسین اور بڑی Classy اداکارہ شسمیتا سین جیسی ایک دم چکاس Stunner ۔ یہ دوسری ہیری پورٹر کی ممانی جیسی تو کہیں خادمہ وغیرہ تھی ۔ پہلی بیگم کسی وجہ سے چند ماہ کے لیے باہر تھیں۔ انٹرنیٹ سیل فون نہ تھا۔ حضرت بیمار پڑے تو اس night watchman نے بہت جی جان سے خدمت کی۔ہندی میں کہتے ہیں سیوا(خدمت ) میں میوا(پھل) ہے۔ سو وہ پہلے والی بیگم صاحبہ ٹہری رہیں اور یہ زمیں چلنے لگی۔افسر محترم مختلف عارضوں کی وجہ سے ایک مخصوص نشست پر بیٹھتے تھے۔ نشست کے بالکل پیچھے مگر سر سے ذرا اوپر کولن ڈیوڈ جو پاکستان کے مشہور پینٹر تھے۔ ان کی ایک بہت جان لیوا نیوڈ پینٹنگ لگی تھی۔ماڈل کے خطوط دلنشین اور اس کے رنگ نگاہوں سے الجھتے ہوئے۔سنتے کم تھے لہذا ڈاکٹر صاحب کو قریب اور ہمیں ذرا فاصلے سے سامنے بٹھاتے تھے۔ڈاکٹر صاحب والی نشست کے اوپر جمیل نقش کی ایک اور مدھم رنگوں اور آسودہ ،آزمودہ خطوط والی دوسری نیوڈ آویزاں تھی۔ہم اپنے ذوق مصوری اور ان ماڈلز کے بارے میں نجی معلومات کے حوالے سے ان تصاویر کو ذرا زیادہ لگائو سے دیکھتے تھے ۔یہ دید بانی اور لگاوٹ انہوں نے ایک افسرانہ کمینگی کے ساتھ بڑی خاموشی سے تاڑ لی۔ ایک دورے میں وہ افسر ڈاکٹر صاحب کو ایک شام ہماری تعریف کرتے ہوئے، جس میں ان کا ملازمت کا تعصب رس رہا تھا ،کہنے لگے(ہم نے ڈاکٹر صاحب کے حکم کی تعمیل میں ان کے کئی کام کیے تھے)۔ ’’تمہارا یہ پی سی ایس افسرشہزادہ بھی ہمارے کک کی طرح ، دیواروں اور چہروں کو دیر تک اور دور تلک ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا ہے۔ اس سے کہو ہمیں بھی دیکھ لیا کرے ‘‘ ۔جملے کی کاٹ اور ہمارے چہرے کی تلملاہٹ دیکھ کر ڈاکٹر صاحب نے کہا چھوڑیں’’ سر ان بلڈی نیٹیو (Bloody Native) پی سی افسران کو تاریخ سے کم اور جغرافیہ سے زیادہ لگائو ہوتا ہے”۔
ہمیں ڈاکٹر صاحب کی ہدایت تھی کہ ان سینئر افسران کو جہاں وہ ہمیں ملانے لے جائیں ان کی کسی بات کا توڑ کر ٹکڑا ہاتھ میں دینے والا جواب نہیں دینا۔یہ سی ایس پی اونٹنیاں اور ہتھنیاں ہوتے ہیں۔انتقام لیتے ہیں۔ان دنوں ہم پی سی ایس افسر ہوتے ہوئے بھی نواب یوسف ٹالپر صاحب اورڈاکٹر صاحب،محبوب احمد اور حفیظ رندھاوا صاحب (تینوں سی ایس پی مرکزی سیکرٹری صاحبان) کی خواہش پر مرکزی وزارت زراعت سے وابستہ تھے۔
ڈاکٹر صاحب کے ایک بیچ میٹ یہاں اتفاقاً چیف سیکرٹری لگ گئے۔ان کی ضد تھی کہ ظفر آئے تو میرے ’’دفتر‘‘ (نوٹ کیجئے گھر نہیں)ملانے ضرور لانا۔شاید وہ جتلانا چاہتے تھے کہ وہ سندھ کے سب سے بڑے عہدے پر اپنے دیگر بیچ میٹ سے پہلے فائز ہوگئے ہیں۔ افسران میں ان دنوں چوہدری نثار کی طرح وگ پہننے کا رجحان نہیں ہواتھا۔دو عدد وزیر اعظم بھی گنجے رہ چکے تھے۔ڈاکٹر صاحب نے دفتر میں داخل ہوتے ہی کہا لگتا ہے سندھ میں کیا نیل کٹرز بہت سستے ہوگئے ہیں،گنجے بھی چیف سیکرٹری لگنے لگے ہیں‘‘۔وہ کہنے لگے ابے تم کدو کریلے کے ڈاکٹر اس عہدے کی اہمیت کیا سمجھو گے۔ڈاکٹر صاحب کہنے لگے تم یہ بتائو کہ فروری کا مہینہ تم پورا کرسکو گے یا سندھ میں آئندہ سے فروری کا مہینہ بیس دن کا ہوگا۔اس نوک جھونک میں چونکہ بے تکلفی بہت آچلی تھی لہذا ہم نے دفتر سے باہر جانے کی اجازت چاہی تو چیف صاحب کہنے لگے بیٹھو تمہاری بھی مجھے خبر لینی ہے ویسے بھی پنجابیوں،پاگلوں، عورتوں اور بچوں کی بات کا ہم برا نہیں مناتے۔تم یہ بتائو کہ کب تک تم پی سی ایس ہوکر ان کا دم چھلا بنے رہوگے۔اس پر ڈاکٹر صاحب ایک لمحہ ضائع کیے بغیر بولے مسئلہ یہ ہے کہ سندھ کا چیف سیکرٹری دُم دبا کر بیٹھتا ہے ۔ اس کو ہم واپس تو کردیں مگر تم بچی کھچی مردانگی کے باوجود فروری تک Survive نہیں کرسکو گے‘‘ اب میرے کمرے سے نکل جانے کا وقت تھا۔انہوں نے اعتراض بھی نہیں کیا ۔ان افسران کے درمیان کافی کے دو دور ایک گھنٹے تک چلے۔ ڈاکٹر صاحب کار میں بتانے لگے کہ اسلام آباد میں اپنا کھونٹا مضبوط کرنا چاہتے تھے۔طارق سعید ہارون (سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ) کو ان کی حمایت پر استوار رکھنے کے لیے بضد تھے کہہ رہے تھے اسے کمشنر بنا کر بھیجنا ہے۔میں نے کہا ہے کہ وہ آکر ملے گا۔آپس میں مل کر فیصلہ کریں گے اگر کوئی اہم کام نہ ہوا تو وزیر صاحب کو سمجھا لیں گے۔ہم ہفتہ بھر کے بعد ان سے ملے۔ ان کی جگہ نئے چیف سیکرٹری کا نام گردش میں تھا۔ہم نے پوچھا کہاں کا کمشنر بھیج رہے ہیں۔وہ اپنی یوپی مارکہ چالاکی سے کہنے لگے اس وقت تو میرپور خاص خالی تھا۔اب کمشنر سیسی Sindh Employees’ Social Security Institution (SESSI)) کی پوسٹ خالی ہے۔کہو تو آرڈر کردوں۔ تمہارا ابن بطوطہ بننے کا شوق ہی پورانہیں ہوتا۔اسی وجہ سے مرکزی حکومت سے چپکے رہتے ہو۔ایسا تھا تو مرکزی ملازمت کیوں چھوڑ کر پی سی ایس جوائن کی؟ہم نے جواب دیا سر Concubines(داشتائوں ) کے اپنے لطف ہیں۔وہ ہنس دیے اور فرمانے لگے: Clever but not convincing”
اعلیٰ مقام فروری کا ماہ پورا نہ کرپائے اور اپنے چیف سیکریٹری والے عہدے سے ایک غیر اہم عہدے پر بھیج دیے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔