اندرونی اختلافات،خزانہ خالی،نئی نوکریوں کا فیصلہ عام انتخابات تک منسوخ

سندھ کو جتنا نقصان پاکستان پیپلزپارٹی نے پہنچایا ہے ایسا نقصان تو جنرل ضیاء الحق، جام صادق نے بھی نہیں پہنچایاہوگا۔ سندھ کوجونقصان ہوناتھا وہ ہوالیکن ہمارے حکمراں ارب پتی ،کھرب پتی بن گئے ہیں ان کے اب برطانیا،امریکا‘متحدہ عرب امارات، فرانس میں کھربوں روپے کے محلات کے مالک بن گئے۔ سندھ کو گزشتہ دس سالوں میں 200کھرب روپے ملے جس میں سے 180کھرب روپے ’’اوپر‘‘چلے گئے اور باقی جو چھوٹے حکمراں تھے وہ رقم ان کی جیبوں میں چلی گئی اور سندھ کا کوئی ایک شہر ایسا نہیں ہے
جہاں ترقی نظرآئے کوئی شہرگلی محلے لے لیں گٹرابلتے نظرآئیں گے ۔ سڑکیں تباہ ہیں ‘کوئی تعلیمی ادارہ بنانا تودورکی بات پہلے سے موجوداسکولوں ‘کالجزاوریونیورسٹیز کی حالت بھی مزید بگڑگئی۔ سرکاری اسپتالیں تباہی سے دوچار ہیں ‘ڈاکٹراگرموجودبھی ہیں تو ادویات میسر نہیں۔
اقوام متحدہ نے جو رپورٹ تھرکے کے حوالے سے پیش کی ہے وہ چونکا دینے والی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ تھرکے لوگوں کو کم از کم انسان تو سمجھو ان کو پانی نہیں ملتا۔ وقت پر ادویات نہیں ملتیں۔ ان کو کھانے کے لیے خوراک نہیں دی جاتی۔ اور تو اور جانور اور پرندے بھی اس بے رُخی سے مررہے ہیں اُن کابھی خیال کیا جائے اقوام متحدہ نے یہ بھی کہا ہے کہ خواتین،بچے اور بزرگ صرف اس وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں کیونکہ ان کو بہتر خوراک اور اچھی طبی امداد نہیں ملتی۔ تھرکے بارے میں رپورٹ آنے کے بعد حکومت سندھ کو چاہیے تھا کہ وہ اس پر ایکشن لیتی اور افسران کے خلاف کارروائی کرتی کوئی وزیر اس کی ذمہ داری لیتا اور مستعفی ہوجاتا۔ افسران معطل ہوجاتے اور ان کو شوکاز نوٹس دیئے جاتے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا او رسب آرام اور سکون سے بیٹھے ہوئے ہیں اور سب یہی کچھ کہہ رہے ہیں کہ یہ تو سب اللہ کی رضا تھی جو مرگئے وہ ان کی قسمت تھی اب ہم انسان ان کے لیے کیا کرسکتے تھے آگے بڑھیں اور ماضی کو بھول جائیں۔
حکومت سندھ نے کوئی ایساقدم نہیں اُٹھایا جس سے لگتا ہو سندھ میں واقعی ترقی ہوئی ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہیں۔ سیوریج کا نظام تباہ ہے۔ پینے کا پانی میسر نہیں ہے۔ تعلیم اور میڈیکل کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس پرطرہ یہ کہ حکومت سندھ نے رواں مالی سال 2017-18ء میں اعلان کردیا کہ نئی ملازمتیں دی جائیں گی۔ حکومت سندھ نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ مشورہ کرکے فیصلہ کیا کہ ہر ایم این اے کو 40ہر ایم پی اے کو 60، ہر سینیٹر کو 25اور پی پی پی کے صوبائی عہدیداروں کو 20،ڈویژنل عہدیداروں کو 10اور ضلعی عہدیداروں کو دس نوکریاں دی جائیں گی۔ بلاول ہائوس میں باقاعدہ سیل بنادیا گیا۔ لیکن اچانک وزیراعلیٰ کو سرکاری محکموں کے علاوہ اکائونٹنٹ جنرل (اے جی)سندھ، محکمہ خزانہ نے بتایا کہ جناب پہلے یہ تو دیکھیں کہ کتنی اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ وزیراعلیٰ ہائوس کو بھی ہوش آیا۔ فوری طورپر ایک خط تمام محکموں کو لکھ دیا کہ بتایا جائے کہ 9برسوں میں کتنی پوسٹیں بھری گئیں اور اب کتنی پوسٹیں خالی پڑی ہیں۔ تب وزیراعلیٰ کو بتایا گیا کہ اب تو پورے صوبہ میں 3000نوکریاں خالی نہیں ہیں ۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ 9برسوں میں حد سے زیادہ نوکریاں دی گئیں اب تو خالی پوسٹوں کی تعداد بھی کم ہوگئی ہے کیونکہ اب تو خصوصی کوٹہ کے علاوہ خواتین اقلیتوں اور معذوروں کا کوٹہ بھی ہے تب جاکر پتہ چلا کہ صوبے میں 200سے بھی کم نئی نوکریاں ہوں گی۔
دوسری جانب ارکان اسمبلی بھی برس پڑے کہ آخری سال میں ان کو چالیس ،پچاس نوکریاں دینے کا مقصد ان کو عوام کے ساتھ لڑوانا ہے وہ کس کس کو راضی رکھیں گے بہتر ہے کہ نئی نوکریاں نہ دی جائیں پھر محکمہ خزانہ نے موقف اختیار کیا کہ ان کے پاس خزانے میں نئی نوکریوں کے لیے پیسے نہیں ہیں اے جی سندھ نے کہا کہ وہ نئی تنخواہیں منظور نہیں کرے گا تب حکومت سندھ نے ٹوٹے دل کے ساتھ فیصلہ کرلیا کہ سندھ میں اب نئی ملازمتیں نہیں دی جائیں گی عام الیکشن کے بعد اب بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔