خطرے کی گھنٹی بج گئی ملک میں صرف چند دنوں کا پانی باقی

سابق فوجی حکمران جنرل ایوب خان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے تربیلا اور منگلا ڈیم بنوائے جس سے ملکی زراعت چلتی ہے۔ خاص طورپر سردی کے موسم میں ربیع کی فصل یعنی گندم کو ان دونوں ڈیموں سے پانی ملتا ہے اور خریف کی فصل یعنی چاول ،کپاس کی اگائی کے لئے پانی ان ڈیموں سے بھی ملتا ہے جبکہ چاول ،کپاس کی اگائی چونکہ گرمی کے موسم میں ہوتی ہے اس لئے اس وقت تک گلیشئر سے بھی پانی ڈیموں کے ذریعے دریائے سندھ میں آجاتا ہے۔
1960ء میں عالمی بینک نے پاک بھارت حکومتوں کے درمیان سندھ طاس معاہدہ کرایا جس کے نتیجے میں پاکستان کو جو رقم ملی ،ایوب خان نے اس رقم سے دونوں ڈیم بنائے اور اس کے بعد دونوں ڈیم ملکی معیشت کے لیے اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ تربیلا ڈیم دنیا کے پانچ بڑے ڈیموں میں شمار ہوتا ہے ۔تربیلا میں پانی کی گنجائش پہلے 9.3 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) تھی مگر ڈیم میں ریت بڑھ جانے کے بعد اب اس میں گنجائش کم ہوکر 6.3 ایم اے ایف رہ گئی ہے۔ منگلا ڈیم میں پہلے پانی کی گنجائش 5.1 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) تھی مگر اب اس کی اونچائی میں اضافہ کرکے اس میں پانی کی گنجائش بڑھاکر 7.3 ایم اے ایف کردی گئی ہے۔ تربیلا ڈیم سطح سمندر (رڈیوس لیول یا آر ایل) سے 1550 لیول اونچا اور منگلا سطح سمندر سے 1242 لیول اونچا ہے۔ تربیلا کی ڈیڈ لیول یعنی جس کے بعد پانی دریا میں نہیں بھیجا جاسکتا وہ 1380 لیول ہے اور منگلا کی ڈیڈ لیول 1040 ہے۔ اس وقت منگلا اور تربیلا کا پانی ڈیڈ لیول کے قریب پہنچ گیا ہے۔ذرائع کے مطابق تربیلا ڈیم کی لیول 1395 ہے اور صرف 15 لیول پانی دریائے سندھ میںچھوڑے جانے کے بعد تربیلا ڈیم کا پانی ڈیڈ لائن تک پہنچ جائے گا۔ جبکہ اس وقت منگلا کا لیول 1072 ہے جبکہ ڈیڈ لیول 1040 ہے،اس طرح صرف 32 لیول دریائے سندھ میں جاری کیے جانے سے منگلا ڈیم کا پانی ڈیڈ لیول تک پہنچ جائے گا۔ اس طرح 10 مارچ کے بعد دونوں ڈیموں کا پانی ڈیڈ لیول تک پہنچ جائے گا اور دریائے سندھ یا دیگر دریائوں کو پانی کی فراہمی بند ہوجائے گی یوں جو پانی دریائے سندھ میں دونوں ڈیموں سے بھیجا جائے گا وہ سندھ میں 20 مارچ کو پہنچے گا اس کے بعد سندھ کو پانی کی فراہمی بند ہوجائے گی تب ربیع کی فصلیں یعنی گندم کی کٹائی تو ہوجائے گی تاہم خریف کی فصلیں یعنی چاول اور کپاس کی مقررہ وقت پر نہیں ہوسکیں گی جس کے باعث ملک میں چاول کی پیداوار کم ہوجائے گی جس سے چاول کا بحران بھی پیدا ہوسکتا ہے اور کپاس کی برآمدات میں کمی ہوجائے گی۔ پانی کی تقسیم کرنے کے ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے اس ضمن میں 30 مارچ کو اسلام آباد میں اجلاس طلب کرلیا ہے تاکہ صوبوں کو بتایا جاسکے کہ خریف کے فصل کے لئے کتنا پانی دستیاب ہے؟ اب پانی صرف دو طرح سے دستیاب ہوسکتا ہے ۔ایک یہ کہ بارشیں ہوجائیں ،دوسرا یہ کہ سخت گرمی پڑے اور ملک کے بالائی علاقوں میں گلیشیئرپگھل جائیں جس سے برف پانی بن کر بہہ نکلے اور وہ پانی دونوں بڑے ڈیموں میں آجائے۔ جرأت سے بات چیت کرتے ہوئے چیئرمین ارسا سید مظہر علی شاہ نے بتایا کہ اس طرح کی صورتحال 2012ء میں بھی ہوئی تھی، اس وقت بھی مارچ میں دونوں ڈیم خالی ہوگئے تھے۔ لیکن اپریل میں گرمی پڑی تو گلیشیئر سے پانی ڈیموں میں آگیا یوں اپریل میں مقررہ وقت سے ایک ماہ بعد خریف کی فصل یعنی چاول اور کپاس اگائے جاسکے تو پیداوار میں کوئی بڑا فرق نہیں آیا ۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس وقت جبکہ دونوں ڈیموں میں پانی کی شدید کمی ہوگئی ہے لیکن وفاقی حکومت خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔ وفاقی حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ اس پر ہنگامی اجلاس بلاتی اور متبادل انتظام پر مشاورت کرتی۔سیاسی صورتحال پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 1982ء سے ایک منظم سازش کے تحت کالا باغ ڈیم کا ذکر چھیڑکر دیگر متبادل ڈیموں کے لئے منصوبہ بندی نہیں کی جارہی۔ اگر وفاقی حکومت کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے نہیں کرسکی اور سندھ‘ بلوچستان اور خیبر پختونخواراضی نہیں ہوسکے تو اس منصوبے کو چھوڑکر بھاشا ڈیم‘ اکھوڑی ڈیم‘ سیوہن ڈیم‘ سکھر ڈیم سمیت دیگر چھوٹے بڑے ڈیم بنائے جاتے ۔لیکن افسوس صد افسوس ضیاء الحق سے لے کر نواز شریف کی موجودہ حکومت تک کسی نے بھی متبادل ڈیم اور متبادل ذخائر پر کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جس سے واضح ہوگیا ہے کہ کسی بھی حکمران کو ملک میں پانی کے متبادل ذخائر تعمیر کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔اگر خدانخواستہ کبھی دو تین سالوں تک بارشیں نہ ہوئیں اور گرمی زیادہ پڑی تو پھر پانی کے ذخائر بھی ختم ہوجائیں گے اور پھر ملک میں خوراک کا شدید بحران بھی پیدا ہوجائے گا۔ تب حکمران یہ تصور کرسکتے ہیں کہ بھوک سے نڈھال قوم کیا کچھ کرسکتی ہے کیونکہ یہ بہت پرانی کہاوت ہے کہ’’ بھوکا گیدڑ تو شیر کو بھی کھا جاتا ہے‘‘۔