رہنماؤں کے ملک سے باہر عیدمنانے کا معمول

nawaz-sharif

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے عید الفطر کی طرح عید الضحیٰ بھی ملک سے باہر منائی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے دبئی میں اور مولانا فضل الرحمن نے سعودی عرب میں عید منائی ۔ ملک کی صفِ اول کی سیاسی قیادت میں عمران خان واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے دونوں عیدیں پاکستان میں منائیں ۔

پاکستانی سیاست کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے، قیادت کے نام پر اُسے سیاست دانوں کی جو کھیپ میسر آئی اُس کا عوام سے کسی قسم کا کوئی قریبی تعلق نہیں رہا ۔ جاگیر دار ، سیاستدان ، بیوروکریٹ یا ڈکٹیٹر ز نے کبھی عوام کے بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی ۔ قائدین کی بہتات کے باوجود قیادت کے فقدان نے ہمارے ہاں مسائل کے ایسے بلند ہمالیہ کھڑے کر دیئے ہیں کہ سُلجھاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ گزشتہ65 سالوں میں عوام نعروں پر جھومتے رہے، اور تقریروں پر بے خود ہوتے رہے ۔اس قوم کے ساتھ اس سے بڑا مذاق کیا ہوگا کہ ’’روٹی کپڑااور مکان ‘‘ کے نعرے پر چار بار اقتدار میں آنے والی پیپلز پارٹی کی ننھی قیادت قوم کو اب بھی یہی کہتی ہے کہ پیپلز پارٹی کا بنیادی نعرہ قوم کی تقدیر بدل دے گا۔

وزیراعظم میاں نوازشریف، پیپلزپارٹی کے شریک چیئر مین ٓآصف زرداری اور جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان تینوں رہنماعید کے موقع پر ملک سے باہر رہے

میاں نواز شریف جب بھی وزیر اعظم بنتے ہیں غیر ملکی دورے آسیب کی طرح انہیں اپنے قابو میں کر لیتے ہیں ۔مئی 2013 ء کے عام انتخابات کے بعد انہوں نے تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھا لتے ہی بیرونی دوروں کا آغاز کر دیا تھا ۔ اُس وقت سے لے کر اب تک وہ حا لتِ سفر میں ہی ہیں ۔ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی انہوں نے اپنی دونوں عیدیں بیرونِ ملک منائیں ۔ انُ کی دیکھا دیکھی مولانا فضل الرحمن بھی اپنی عیدیں بیرونِ ملک منانے لگے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن گزشتہ سال عید الفطر کے موقع پر وزیر ستان کے آئی ڈی پیز کو اکیلا چھوڑ کر بیرونِ ملک چلے گئے تھے۔ اس مرتبہ بھی وہ سعودی عرب میں ہیں ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہمارا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا حکمرانوں اور سیاستدانوں کی عوام سے اس بے رُخی پر آواز نہیں اُٹھاتا ۔

گزشتہ عید الفطر کے موقع پر ہمارے ایک ٹی وی اینکر نے اس بات پر عمران خان کی خوب خبر لی تھی کہ وہ عین عید کے روز آرمی پبلک سکول کے شہداء کے گھر نہیں گئے ۔ اُنہیں اُس وقت بھی ملک کے وزیر اعظم کی ملک سے طویل غیر حاضری نظر نہیں آئی تھی اس مرتبہ بھی وہ اور ان کے تمام ساتھی خاموش ہیں ۔ ہمارے سیاستدانوں اور اشرافیہ کے طرزِ عمل سے عوام سے بیزاری کا اظہار ہوتا ہے عوام کو بھی اسی قسم کے ردِ عمل کا اظہار کر نا چاہئے۔