سرمایہ کاروں کی نظریں احتساب عدالت کے فیصلے پر جم گئیں

اب جبکہ احتساب عدالت کی جانب سے شریف فیملی کے خلاف کارروائی کاعمل شروع ہوچکاہے، اس عمل سے جہاں ملک کے عام آدمی کی نظریں احتساب عدالت پر جمی ہوئی ہیں وہیں ،سرمایہ کاروں نے بھی اپنی نگاہیں احتساب عدالت پر جما رکھی ہیں اور وہ اس بات کاانتظار کررہے ہیں کہ احتساب عدالت نااہل قرار دئے گئے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے، اور نواز شریف کے بعد مزید کون کون سے نامور سیاستداں اس جال میں پھنس کر اپنی لوٹ مار کا حساب دینے اور اس کی سزا بھگتنے پر مجبور کئے جائیں گے۔
احتساب عدالت کی جانب سے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اپنی کارروائی تیز کئے جانے کے بعد ملک میں عام کاروباری سرگرمیاں اور بڑے سودوں پر ایک جمود سا طاری ہوگیاہے کیونکہ ایک طرف سرمایہ کاروں کو نواز فیملی کے خلاف احتساب عدالت کے فیصلوں کا انتظار ہے اور دوسری طرف وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر فرد جرم عاید کئے جانے کے بعد انھیں وزارت سے ہٹائے جانے اور ان کے ہٹائے جانے کے بعد ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں سرکاری سطح پر کمی کئے جانے کی توقع ہے ظاہر ہے کہ اگر روپے کی قدر میںکمی کی گئی تو اس سے پوری برآمدی اور درآمدی تجارت بری طرح متاثر ہوگی ، برآمدات میں تیزی آئے گی اور درآمدی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا، اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بہت سے برآمد کنندگان نے اپنی برآمدی اشیا کی آمدنی کی پاکستان منتقلی وقتی طورپر روک دی ہے ،کیونکہ روپے کی قدر میں کمی کی صورت ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوگا اور اس طرح اس وقت رقم کی پاکستان منتقلی سے ان کو لاکھوں روپے کامفت کامنافع حاصل ہوجائے گا۔
جے ایس کیپٹل کے ایک تجزیہ کار نے ملک میں سرمایہ کاری کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ملک میں اقتصادی محاذ پر اس وقت جمود کی سی صورت حال ہے پوری مارکیٹ پر غیر یقینی صورت حال چھائی ہوئی ہے اورسرمایہ کاروں نے اپنی سرگرمیاں تقریباً بند کر رکھی ہیں۔
ٹاپ لائن سیکورٹیز کے ایک تجزیہ کار عدنان سمیع کاکہناتھا کہ سیاست میں غیر یقینی صورت حال کے سبب سرمایہ کار پیچھے ہٹ گئے ہیں اور سرمایہ کاری کی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں۔عدنان سمیع نے بتایا کہ شیئرز کی خریدوفروخت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور شیئرز کی خریدوفروخت کی سرگرمیاں میں کم از کم 14 فیصد تک کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے یعنی روزانہ 146 ملین شیئرز کی خریدوفروخت کم ہوئی ہے۔اسی طرح غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے شیئرز کی خریداری میں بھی کافی حد تک کمی ریکارڈ کی جارہی ہے،عدنان سمیع نے بتایا کہ 14 ماہ کے تعطل کے بعد ستمبر میں کچھ غیر ملکی سرمایہ کار سامنے آئے اور غیرملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے مجموعی طور28.8 ملین ڈالر مالیت کی خریدو فروخت ریکارڈ کی گئی۔اس طرح ستمبر کے دوران کراچی اسٹاک ایکسچینج کے انڈیکس میں 2.9 فیصد بہتری ریکارڈ کی گئی جبکہ اگست کے دوران انڈیکس میں 10.4 کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔
کراچی اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کی لین دین کرنے والے معروف بروکرز نے بتایا کہ بین الاقوامی منڈی میں یوریا کی قیمتوں میں اضافہ اور مارکیٹ میں اگست کے اواخر میں پیدا ہونے والی تیزی کے نتیجے میں ستمبر کے دوران کھاد کے شعبے میں 2.4 فیصد کااضافہ ریکارڈ کیاگیاجبکہ تیل وگیس کا شعبہ سرفہرست رہا اور تیل اور گیس کے نئے ذخائر کی دریافت کے اعلان اورتیل کی قیمتوں میں اضافے کے رجحان کے بعد تیل وگیس کے شعبے میں کاروبار میں تیزی آئی اوراس شعبے میں 6.5 فیصد اضافہ ریکارڈ کیاگیا۔دوسری جانب ملک میں تعمیراتی سرگرمیاں ماند پڑنے کی وجہ سے ملک کے اندر سیمنٹ کی طلب میں کمی ہوئی جس کی وجہ سے سیمنٹ کے شعبے میں تنزلی دیکھنے میں آئی اور سیمنٹ کے شعبے میں 3.7 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، پنشن فنڈ کیس میں نیشنل بینک پر سپریم کورٹ کی جانب سے عاید کئے جانے 48 ارب روپے کے جرمانے کے بعد نیشنل بینک کے شیئرز کی قیمتوں میں 15.3 فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی، جبکہ امریکا کے مالیاتی ریگولیٹرز کی جانب سے حبیب بینک پر حال ہی میں عاید کئے گئے بھاری جرمانے کی وجہ سے حبیب بینک کے شیئرز کی قیمتوں میں بھی2.3 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
حکومت کی جانب سے شکر کی درآمد پر دی جانے والی سبسڈی کا بوجھ صوبوں کو بھی برداشت کرنے اور سبسڈی وفاق اور صوبوں کومل کر ادا کرنے کی ہدایت یا پالیسی کے اعلان کی وجہ سے بھی مارکیٹ پر خاصا اثر پڑا ہے اور ابھی تک شکر کی برآمدات شروع نہیں ہوسکی ہیں۔
اس صورت حال میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے مالیاتی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہ کرنے اور سود کی شرح 5.75 فیصد پر برقرار رکھنے کے اعلان کو مالیاتی تجزیہ کار درست اور مارکیٹ کی توقعات کے عین مطابق قرار دے رہے ہیں ۔اگرچہ جیسا کہ ہم نے اوپر لکھاہے کہ روپے کی قدر میںمتوقع کمی کے انتظار میں بعض درآمد کنندگان اپنی رقم پاکستان منتقلی کوروکے ہوئے ہیں لیکن گزشتہ چند ماہ کے دوران برآمدات سے ہونے والی متوقع آمدنی میں اضافہ ریکارڈ کیاگیاہے جس کی وجہ سے ملک کی درآمدی اور برآمدی تجارت کے خسارے میں معمولی سی کمی ریکارڈ کی گئی تاہم تجزیہ کار اس کمی کو بھی اس اعتبار سے غنیمت قرار دے رہے ہیں کہ حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود گزشتہ چند سال کے دوران تجارتی خسارے میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا جا رہاتھا جس نے وزارت خزانہ کو ہلا کر رکھ دیاتھا۔
ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ ملک میں صحیح معنوں تجارتی اور اقتصادی سرگرمیاں سیاسی سطح پر طاری غیر یقینی کی صورت حال ختم ہونے کے بعد ہی بھرپور انداز میں شروع ہوسکیں گی اور سیاسی سطح پر طاری جمود کے خاتمے کے بعد ہی سرمایہ کاروں کااعتماد بحال ہونا شروع ہوسکے گا۔دوسری جانب سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ سیاسی سطح پر قائم غیر یقینی کی موجودہ صورت حال ابھی کچھ عرصہ قائم رہنے کاامکان ہے کیونکہ نواز فیملی کے خلاف مقدمے کافیصلہ آنے میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں جبکہ اس فیصلے پر عملدرآمد میں مزید کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔