آخری قسط۔۔۔ متناسب انتخابی نظام… موجود حالات کا تقاضا

یہاں المیہ یہ ہے جس کی بناء پراصل مسائل کا تریاق نہیں ہو پاتا۔جب اقتدار کی مسند پرفائز لوگ حقیقی عوامی حما یت یافتہ نہ ہوں تو پھر عوام کے مسائل بھی اُن کی زبا ن پر نہیں ہوتے اور ضمیر نا م کی چیز بھی اُنہیں ملا مت نہیں کرتی۔پاکستان میں ایسی کئی سیا سی پارٹیا ں ہیں جن کی عوام میں نفوذپزیری قابل قدر ہے کہ لیکن اسمبلی میں اُن کی آواز نہیں پہنچ پار ہی ہے۔یااگر اُن کو سیٹیں ملتی بھی میں تو بہت کم ۔اس حوالے سے پاکستا ن عوامی تحریک کے چیئرمین ڈاکٹر طاہر القادری نے کا فی عرصہ سے آواز بلند کررکھی ہے کہ انتخابی نظام بدلا جا ئے۔وطن پاک میں سیا سی جماعتوں میں ڈاکڑ طا ہرالقادری کی جما عت عوامی تحریک،مو لا نا فضل الرحمان کی جما عت جمعیت علما ئے اسلا م (ف) جما عت اسلا می، مولا نا سیمع الحق کی جما عت جمعیت علما کے اسلا م (س)مولاناشاہ احمد نورانی صاحب مرحوم کی جمعیت علما ئے پاکستان، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ فضل کریم مرحوم کی جمعیت علمائے پاکستان،اسی طرح پاکستان سُنی تحریک عمران خان کی تحریک انصاف، انجمن طلبہ اسلام کے سابقین کی جماعت پاکستان فلاح پارٹی، تحریک لبیک پاکستان وغیرہ یہ وہ سیاسی قوتیں ہیں اکہ اگر متناسب نمائندگی کی بنیاد پر الیکشن ہوں تو پھر پورے پاکستان میں کا سٹ ہونے والے ووٹوں کی بنیاد پر یہ جماعتیں اسمبلی میں پہنچ کر اپنا مثبت کردار اِدا کر سکتی ہیں۔اور وفاق کی مضبوطی میں اہم پیش رفت بھی اس طرح ممکن ہے۔

جما عت اسلامی گزشتہ نصف صدی سے انتخابی سیاست میں ہے لیکن اسے جب بھی اسمبلی میں نشستیں ملی ہیں اُس کے لیے اِسکو نواز لیگ کا سہارا لینا پڑا یا جنرل ضیا ء الحق کی آشیر با دحاصل تھی حالا نکہ متنا سب نمائندگی کی بناء پر جماعت اسلامی کی قوت مجتمع ہوسکتی ہے اور نشستوں کی تعداد بھی زیا دہ ہوسکتی ہے۔یہ ہی حال جے یوپی کا ہے پورے ملک میں اسکے چاہنے والے بے شمار ہیں لیکن اس وقت اس کی اسمبلی میں کوئی نشست نہیں۔عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی )کے چا ہنے والے پورے ملک میں ہیں لیکن سوائے خیبر پختون خواہ کے اسکی عددی اکثریت کہیں نہیں ہوتی۔اِس نظام میں عوامی نیشنل پارٹی کو بھی تقویت حاصل ہوسکتی ہے۔اس نظام کے تحت بظاہر لسانی،مذہبی قوم پرستوں کے نشستیں لینے کے چانسز بن جاتے ہیں لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ یہ تمام گرو پ قومی دھا رے میں آکر وفاق کی بات کرنے پر مجبور بھی ہوسکتے ہیں اوروفاقی کی مضبوطی میں اپنا کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔پاکستانی معاشرے کے کئی رنگ ہیں۔ اِس ملک کی نظریاتی اساس بھی اِس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہر طبقے کو اپنی بات کہنے کا حق ملے لیکن یہ تو تب ہی ممکن ہے جب اِن کی آواز پارلیمنٹ میں پہنچ سکے۔ حقیقی مسائل کا ادراک تب ہی ممکن ہے جب حقیقی نمائندں پر مشتمل اسمبلیاں وجود میں آئے۔

بے روزگاری کے زخموں سے چور چور نوجوان نسل بے یقینی کی کیفیت میں اندھیروں میں ڈوبتی جا رہی ہے۔معاشی وسماجی ناانصافیا ں دہشت گردی،ڈاکے لوٹ مار کو جنم دی رہی ہیں ملک میں موجود اشرافیہ طاؤس رباب کی مدھ بھری تانوں پر تھرک رہی ہے اور ملک کے حقیقی نمائندہ عوام ظلم وجبرکی چکی میں پس رہے ہیں۔جس کو دیکھیں وہ پاکستان ٹوٹنے کی بات کررہاہے۔اِس بے چینی کی وجہ ہی یہ ہے کہ حقیقی

نما ئندگی حکومتی ایوانوں تک پہنچ نہیں سکی۔ پس اِس وطن کا وجود،خوش حالی،سماجی ومذہبی رواداری معاشی آسودگی اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک نام نہاد جمہوریت پسند لیڈروں کے بجائے حقیقی عوامی نمائندگی کے حامل افراد قوم کی باگ دوڑ نہ سنبھال لیں۔اِس ملک میں دو پارٹی نظام نہ تو پنپ سکا ہے۔نہ کوئی چانس ہے۔اس وقت دُنیا کے تقریبا87ممالک میں متناسب نمائندگی کانظام رائج ہے۔ان ممالک میں ترکی،جرمنی،سری لنکا،سویڈ ن،سوئٹزر لینڈ، ساوتھ افریقہ،روس جیسے ممالک بھی شامل ہے ۔

چنداہم خرابیاں جوکہ موجودہ جمہوری نظام میں موجودہ ہیں۔
1۔95%عوام کو 5%طبقے نے یر غمال بنارکھا ہے
2۔مالی طور پر مضبوط اور بااثر افراد ہی اِس نظام میں الیکشن میں حصہ لے کر کا میابی حاصل کر سکتے ہیں۔
3۔الیکشن جیتنے کے لیے امیدوار خوب رقم لگاتے ہیں اور پھر اُس سے کئی گنا کر پشن کرتے ہیں۔
4۔عا م پڑ ھا لکھا باشعور آدمی جو معاشی طور پر اس قابل نہ ہوکروڑوں روپے انتخابی مہم پر خرچ نہ کرسکتا ہو وہ الیکشن کے عمل سے باہر ہے۔
5۔بااثر افراد کی انتخا بات میں کا میابی سے پسے ہوئے طبقے کی آواز دب کررہ گئی ہے۔
6۔عوام کے حقیقی مسائل کیونکہ ان وڈیروں،سرمایہ داروں کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے اِس لیے اُن کو عوام کے درد کانہ کوئی احساس ہے اور نہ کوئی پرواہ۔
7ََ۔موجودہ جمہوری نظام نے فوج،سول بیوروکریسی اور وڈیرہ شاہی کی ایک مثلث قائم کررکھی ہے جس کی وجہ سے عوام کواپنی حالت بدلنے کے لیے خودہی اُٹھا ہوگا۔
8۔مختلف گروپوں،علاقائی پارٹیوں کی آواز موثر نہ ہونے سے وفاقی اور قومی یک جہتی کوخطرات لاحق ہیں۔بلوچستان میں لگی ہوئی آگ کی وجہ بھی یہی ہے کہ حقیقی عوام حکومت میں نہیں ہوتے۔
9۔موجودہ نظام کی وجہ سے جمہوریت لوٹ مار اور کرپشن کا نشان بن چکی ہے چند سال بعد ہی اِس نظام کے تحت منتخب حکومت عوام کے لیے سوہان روح بن جاتی ہے،اور لوٖگ پھر تبدیلی کے لیے فوج کا راستہ دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔گھٹن کے ایسے ماحول میں فوج کو چا ر ونا چار حکومتی ایوانوں میں گھسناپڑتاہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان آرمی کو دُنیا کی بہترین پیشہ ورانہ فوج گردانا جاتاہے۔تو پھر ایسی فوج کو مجبور ا ً اگر ا قتدار میں آنا پڑتا ہے تو اِس کا مطلب صاٖف ہے کہ موجودہ انتخابی نظام ہما رے مسائل کا ادراک نہیں رکھتا۔