عمران خان اور پرویز مشرف کی لاعلمی

اکتوبر 2002 ء میں پرویز مشرف کے جرنیلی استبداد کا سورج النصف النہار پر تھا ۔ ماحول کیا ہوگا اور امکانات کا رُخ کس جانب ہوگا ۔

جب کُہرا پھیلا لگتا ہو
سورج بھی میلا لگتا ہو
ہر شخص اکیلا لگتا ہو
سمجھو یہ کہ بستی اُجڑے گی

کپتان میانوالی کے سنگلاخ پہاڑوں اور دریائے کرم کے پہلو میں آباد آریاؤں کی قدیم بستی کنڈل اور بابر شاہ کی گذر گاہ عیسیٰ خیل میں اپنی انتخابی مہم میں مصروف تھے ۔

انہیں ایک کال موصول ہوئی ۔۔۔کچھ دیر علیحدگی میں فون سُننے کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کے درمیان آکر بیٹھ گئے ۔ وہ کچھ دیر خاموش رہے۔ سمندر کا سکوت کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوا کرتا ہے ۔ کپتان سمندر جیسا گہرا کبھی نہیں رہا البتہ پہاڑوں کی طرح بُلند آہنگ اور چٹان جیسے مضبوط ارادوں کا مالک ضرور ہے ۔ اُن کی جو سیاسی استقامت آج دو دہائیوں سے زائد کی عُمر کو پہنچتی ہے اُس کا ابتدائی عشرہ تھا ۔قدرے توقف کے بعد گویائی کا سبب جب ساتھیوں کا استفسار بنا تو کہنے لگے ۔۔

’’ جمائما سے بات ہوئی ہے ۔ جنرل پرویز مشرف نے انہیں فیملی ڈنر پر بُلایا تھا ۔ جنرل نے انہیں بتایا ہے کہ عمران خان میانوالی میں الیکش ہار رہا ہے ۔ لیکن آپ فکر نہ کریں میں انہیں ضمنی الیکشن میں جتوا دوں گا ۔ ‘‘ ۔۔ جنرل پرویز مشرف نے یہ بھی بتایا کہ یہ اطلاعات انہیں ’’ خفیہ اداروں ‘‘ نے فراہم کی ہیں ۔

کپتان نے ارادہ ظاہر کیا کہ میں الیکشن مہم مختصر کرکے کچھ دن کے لیے اسلام آباد لوٹ جاتا ہوں جہاں شوکت خانم ہسپتال سمیت کچھ دیگر معاملات کو نمٹا لیتا ہوں ۔ مہم کو زیادہ وقت نہیں دیتا ۔ پولنگ سے ایک دو روز قبل واپس میانوالی آجاؤں گا ۔ وہاں موجود سب ساتھیوں کا اصرار اور تکرار یہی تھی کہ آپ جنرل پرویز مشرف کی اطلاعات کی وجہ سے انتخابی مہم کو مختصر یا محدود نہ کریں ۔ یہ ہمارا اور آپ کا علاقہ ہے یہاں ووٹ خُفیہ اداروں نے نہیں عوام نے ڈالنے ہیں ۔ آپ اس مرتبہ ضرور کامیاب ہوں گے ۔ اور میانوالی سے ہی قومی اسمبلی میں جائیں گے ۔ عمران خان خاموش ہو گئے اور ایک دو روز مُہم جاری رکھی ۔ پولنگ کے روز وہ شام سے پہلے نتائج اللہ پر چھوڑتے ہوئے اسلام آباد روانہ ہوگئے ۔

پولنگ ختم ہونے کے بعد سے نتائج کے اعلان تک اُن کے ساتھیوں کی ایک ٹیم نے مُشکل ترین حالات کا سامنا کرتے ہوئے ’’نتائج کے عمل ‘‘ پر کڑا پہرا رکھا ۔ بار بار ایسے مراحل آئے جن سے یہ ظاہر ہوتا تھاکہ انتخابی نتیجہ مشرف کی پیشن گوئی کے مطابق تیار کرنے کی تما م تر تیاریاں مکمل تھیں ۔ اور اگر ان میں سے کسی ایک ساتھی کی بھی آنکھ لگ جاتی تو اُسی نتیجے کا اعلان ہونا تھا جس کی اطلاع جنرل پرویز مشرف نے جمائما خان کو دی تھی ۔ عمران خان صبح نیند سے بیدار ہوئے تو انہیں ٹی وی ٹکر کے ذریعے معلوم ہوا کہ وہ قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوچُکے ہیں یہ وہ دور تھا کہ جب علاقے کے وہ تمام بڑے سیاسی دھڑے جو آج بنی گالہ کے طواف میں ہیں یا پارٹی میں ہیں سب کے سب عمران خان کے مخالف تھے ۔ ناشتہ کے بعد وہ میانوالی کی جانب رواں دواں تھے جہاں پہنچ کر انہوں نے اپنے ساتھیوں کے چہرے پر طمانیت بھری مسکراہٹ اور خوشی کو اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھا ۔ ساتھیوں کی رسیلی آنکھوں میں ایک فاتحانہ چمک تھی ۔ یہ سب اس لیے تھی کہ میانوالی نے اپنی دھرتی کے فرزند کے بارے میں وقت کے ’’ آمر ‘‘ کے اندازوں اور اطلاعات کو غلط ثابت کر دیا تھا۔

اس موقع پر موجود اُن کے میانوالی کے ابتدائی ساتھیوں کا ذکر کسی دوسرے کالم میں تفصیل سے کیا جائے گا ۔ یہ ایک اپنی طرز کا ایک ایسا حسین اور دِلرُبا گلدستہ تھا ۔ جس کے ہر پھول کا رنگ جُدا اور خوشبو منفرد تھی ۔ گذشتہ دنوں کپتان سے بنی گالہ میں ملنا ہوا تو وہ الیکٹبلز میں گھرے ہوئے تھے ۔وقت نے ان کی جدوجہد اور استقامت کے صلے میں انہیں اندھیروں کے پالنہاروں کے مقابل سورج بنادیا ہے ۔ لیکن ہر ملاقات میں وہ اپنے ابتدائی دوستوں اور ساتھیوں کا ذکر بہت محبت سے کرتے ہیں ۔ وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ میرے ساتھیوں نے میرا بہت مشکل حالات میں ساتھ دیا ہے۔ سچ کے ساتھ اس جدوجہد کے اولین دوستوں کی محبت اور خلوص ہی تھا کہ آج پاکستان میں سچ کی فتح نے دھرتی کو تپتا تانبا بننے سے محفوظ رکھا ۔ سچ کو حیات تازہ دینے کی جدوجہد کے آغاز سے قبل اُن کے لیے میانوالی کے دو حلقوں میں سے جس حلقے کا انتخاب کیا گیا تھا وہ 220 کلومیٹر کا ایک مربع شکل کا ایسا علاقہ ہے جس کے اکثر علاقے دشوار گذار حصوں پر مشتمل ہیں ۔ اس حلقہ میں بلندوبالا پہاڑوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو خیبر پختونخواہ سے اس ضلع میں داخل ہوتا ہے اور پھر سالٹ رینج کے بلند ترین پہاڑ سے ہوتا ہوا ضلع خوشاب میں داخل ہوجا تا ہے اور ایک طرف سے چکوال اور دوسری طرف سے اٹک اور ضلع کرک کی حدود کو چھوتا ہے۔ تبت کی برف پوش وادیوں سے نکلنے والا دریائے سندھ اسی حلقہ میں افسانوی شہر کالاباغ کے مقام پرپہلی مرتبہ میدانی علاقے میں داخل ہوکر میلوں چوڑائی میں پھیل جاتا ہے۔ پیر پہائی کا مقام بھی اسی علاقے میں ہے جہاں پوٹھوہار کے علاقے کا اہم ترین ’’دریا ئے سواں ‘‘ شیر دریا کا حصہ بنتا ہے۔ یہی وہ کالاباغ ڈیم کا مجوزہ مقام ہے۔ اس کے قریب ہی کالاباغ کے نوابوں کی کئی سو ایکٹرز پر پھیلی ہوئی شکار گاہ ’’ جابہ ‘‘ ہے جو اپنے چنکارے ہرنوں اور ہُڑیال کی وجہ سے عالمگیر شُہرت کی حامل ہے ۔ مولانا فضل الرحمن دو سال پہلے یہاں اپنے بیوروکریٹ بھائی کے ہمراہ شکار بھی کھیل چُکے ہیں ۔

عمران خا ن کے حلقہ میں ایک جناح بیراج اور چشمہ بیراج کا علاقہ بھی شامل ہے ۔ایک طرف یہاں جہاں گرمیوں کے موسم جہاں جلادینے والی گرمی پڑتی ہے وہیں شُمال میںآسمان کی پیشانی کو چومتا ’’ قمر سر ‘‘ ایک ایسا پہاڑی مقام ہے جہاں جون اور جولائی کے گرم ترین دنوں میں بھی موسم سرد ہوتا ہے ۔ ایک اہم بات یہ کہ قومی اسمبلی کے اسی حلقے کے بارے میں ممتاز مورخین کا دعویٰ کے کہ یہ علاقہ باب الاسلام سندھ اور بلوچستان کی فتح سے بھی پہلے حضرت امیر معاویہ کے دور میں ایک جرنیل مہلب بن ابی صفرہ کی قیادت میں اسلامی سلطنت کا حصہ بنا تھا۔

ایک مرتبہ پھر انتخابات کا موسم اپنے جوبن کی طرف بڑھ رہا ہے خطہ پوٹھوہار کو چومتی نمل جھیل ، گذرے زمانوں کے رازوں اور کئی تہذیبوں

کے رازدان اور امین سندھ ساگر کے کنارے کپتان کے پُرانے ساتھی ان کی انتخابی مہم کے لیے کمر بستہ نظر آتے ہیں ۔ ان کی پارٹی کے بڑے گروپ اور ٹکٹوں کے اُمیدوار اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ترتیب دی گئی اپنی مختلف حکمت عملیوں پر کام کر رہے ہیں ۔ وہ کارکن جن کے نعرے اور ترانے صرف کپتان کے لیے بُلند ہوتے تھے اب مختلف گروپ ، دھڑے اور شخصیات انہیں اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں ۔ گذشتہ عام انتخابات میں منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی اپنے سوز سے خالی دامن کے ساتھ ایک مرتبہ پھر قسمت کی دیوی کو خود پر مہربان دیکھنا چاہتے ہیں ۔اپنی ضد اور انا کی تسکین کرنے والی نارتھ زون کی قیادت کو شاید اس علاقے کی تاریخ میں سُر خرو ہونے کی کوئی خواہش ہی نہیں ہے ۔ عمران خان کی چھوڑی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست پر شکست اور بلدیاتی انتخابات میں غداروں اور ناقص حکمت کاروں کا بوجھ پارٹی کے کاندھوں پر ہے ۔ نئے الیکشن کے لیے صف بندی کا فقدان ہے ۔

عمران خان کے لیے میانوالی کے عوام اپنی آنکھیں بچھانے کے لیے تیار ہیں عوام کی غالب اکثریت کا کہنا ہے کہ 2013 ء کی انتخابی مہم کی تاریخ دوہرائے بغیر پھر پور کامیابی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اب بھی پورا علاقہ عمران خان کے حوالے سے تاریخ کا ورثہ بننے کے لیے تیار ہے یہاں آنے جانے والی تمام ہواؤں میں وہی پہلے جیسی خوشبوئیں ہیں ۔ لیکن شرط یہی ہے کہ انتخابات کے بارے میں تمام فیصلے کپتان خود کرے ۔