’’صوبہ نیلاب ‘‘

موجودہ حکومت کے سو دن کی کارکردگی بتا رہی ہے کہ وزیر اعظم اپنے نصب العین کی تکمیل میں سنجیدہ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں نا تجربہ کار ارباب اختیار کے ساتھ کامیابی سے حکومتی اُمور سر انجام دیے ہیں ۔۔ بلاشُبہ ٹیم کا کپتان حوصلے اور عزم کے ساتھ سب کو کامیابی سے چلا رہا ہے۔ الیکشن سے پہلے کیے گئے وعدے پورے کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ انتہائی عرق ریزی اور ذمہ داری کے ساتھ جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کے معاملات کو بھی آخری شکل دینے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے تمام حلیف اپنے اس وعدے کے ایفاء کے لیے بہت زیادہ سنجیدہ ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ نے بھی ادراک کر لیا ہے کہ ہمارے بہت سے مسائل کا حل زیادہ سے زیادہ انتظامی یونٹوں کی تشکیل میں ہے۔
اس سلسلہ میں ماضی میں بھی وقتا فوقتا آوازیں اُٹھتی رہی ہیں۔ کچھ سال پیشتر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان نئے صوبوں کے قیام کے معاملے پر کشیدگی کئی ہفتوں جاری رہی تھی جس کی وجہ سے نئے صوبوں کے قیام کے موضوع پر ایک مرتبہ پھر گفتگو کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ 25 جولائی سے پہلے بھی اس بارے میں بہت سے مطالبات سامنے آئے ۔ مُلک کے صاحب الرائے افراد کی اکثریت نئے صوبوں یا انتظامی یونٹوں کے قیام کووفاقِ پاکستان کی سلامتی، استحکام اور ترقی کے لیے ضروری سمجھتی ہے۔ سندھ کی تقسیم کے معاملے پر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان موجود تنازع میں شدت کے خوف سے اس حقیقت سے انکار کرنا دانشمندی نہیں ہو گی کہ نئے انتظامی یونٹوں یا صوبوں کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ماضی میں ایم کیو ایم کی طرف سے نئے صوبے کے قیام کے مطالبے کا پس منظر کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن اس وقت ملک میں صوبہ ہزارہ، سرائیکی صوبہ اور صوبہ بہاولپور یا جنوبی پنجاب صوبے کے مطالبات ایک حقیقت کی صورت میں موجود ہیں۔صوبہ ہزارہ کے لوگ اپنے مطالبے کے حق میں کئی قیمتی جانوں کی قربانی بھی دے چُکے ہیں۔ کچھ روز قبل ہی اس تحریک کے بانی ’’ بابا حیدر زمان ‘‘ کا انتقال ہوا ہے۔ ’’ صوبہ ہزارہ ‘‘ کی تحریک کے لیے اُن کی کوششیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔ علامہ طاہر القادری بھی ماضی میں ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ اور منشور پیش کر چُکے ہیں۔ اس تجویز کو ملک کے سنجیدہ اور فہمیدہ حلقوں نے ہمیشہ پزیرائی سے نوازا ہے۔ پوٹھو ہار ، سرائیکی صوبے اور صوبہ بہاولپور کی تحریکیں تو تین عشروں سے زائد عرصہ سے جاری ہیں۔
پیپلز پارٹی نے اپنے سابقہ دورِ حکومت میں جب پانچ سال پورے کیے تو اقتدار کی حالتِ نزع میں جنوبی پنجاب بہاولپور صوبے کے قیام کا اعلان کر دیا۔ اُس وقت کے صدارتی ترجمان سینیٹر فرحت اللہ خان بابر کی سربراہی میں قائم صوبوں کے قیام سے متعلق پارلیمانی کمیشن کے اس اعلان نے پنجاب کے جنوبی اضلاع میں بے چینی کی ایک لہر دوڑا دی تھی۔ کمیشن کے سربراہ سینیٹر فرحت اللہ بابر اپنی شخصیت کی تمام تر سحر انگزیزیوں کے باوجود پیپلزپارٹی کے خول سے باہر نہ نکل پائے تھے۔کمیشن کی جانب سے پیپلز پارٹی کے سیاسی مفاد کی خاطر کیے گئے اس اعلان کے مطابق پنجاب کا شمال مغربی دور دراز علاقہ میانوالی بھی مجوزہ صوبے میں شامل کر دیا گیا تھا۔ جغرافیائی، علاقائی، ثقافتی حوالوں سمیت کسی بھی طریقے سے میانوالی اُس مجوزہ صوبے کا حصہ نہیں بنتا تھا۔ میانوالی کے لوگوں کو موجودہ صوبائی دارالحکومت لاہور جانے کے لیے بھی پانچ گھنٹے کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ اگرانہیں اُس وقت کے بہاولپور جنوبی پنجاب صوبے میں شامل کر دیا جاتا تو انہیں صوبائی دارلحکومت جانے کے لیے دس گھنٹے سے زائد وقت درکار ہوتا۔ معاملے کو متنازع بنانے اور اُلجھانے کے لیے اُس وقت مسلم لیگ ن کی جانب سے ”صوبہ تھل ” کے قیام کی قرارداد صوبائی اسمبلی میں جمع کروائی گئی تھی۔”تھل صوبے ” کی قرارداد کے پیچھے کوئی وژن یا تحریک موجود نہیں تھی اس لیے یہ ”غنچہ بن کھِلے مرجھا گیا ” اور معاملہ پنجاب اسمبلی کی فائلوں میں گُم ہو گیا۔
جنوبی پنجاب بہاولپور صوبے کے اعلان کے بعد ضلع میانوالی کے لوگوں نے دونوں بڑی جماعتوں کے طرزِ عمل پر شدید احتجاج اور ردِ عمل کا اظہارکیا تھا۔ مزاحمتی تحریک کے دوران ہی میانوالی کے لوگوں نے آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں بھی سوچنا شروع کر دیا تھا۔ شاید یہ اُسی سوچ کا نتیجہ کے نئے انتظامی یونٹوں کے قیام کے حوالے سے میانوالی کے عوام میں بیداری کی لہر پیدا ہونے لگی ہے۔ میانوالی پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے سنگم پر آباد ایک دور اُفتاد علاقہ ہے، اپنی جغرافیائی حیثیت کے اعتبار سے یہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے انُ کئی اضلاع جیسا ہے جنہیں جس صوبے میں بھی شامل کر دیا جائے تو وہ ”ٹیل ” پر ہی رہیں گے۔ ان دنوں خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں نئے انتظامی یونٹ یا صوبہ ” نیلاب ” کے قیام کے لیے تحریک کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں۔میانوالی میں یہ احساس بھی بڑے پیمانے پر جاگزیں ہوا ہے وہ کبھی سرائیکی کلچر یا خطہ کا حصہ نہیں رہے ہیں ۔ بلکہ ایسی ہی ایک تحریک ضلع بھکر میں بھی موجود ہے جو اپنے آپ کو سرائیکی کہلانے کے بجائے ’’ تھلوچی ‘‘ کہلانا فخر قرار دیتے ہیں اور اپنی اس شناخت کو کسی بھی قیمت پر چھیننے نہ دینے کا عزم بھی رکھتے ہیں۔ماضی میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی ملتان میں اپنے ایک جلسے میں نئے صوبوں کے قیام کی حمایت کرتے ہوئے دبے لفظوں میں کہا تھا کہ ”ملتان اور میانوالی کے لوگ لاہور کیوں جائیں ”۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی اور پنجاب کے شمال مغربی اضلاع پر مشتمل نئے صوبے ” نیلاب ” کے قیام کا مطالبہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے انتہائی جنوبی اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک(Tank)، کرک، لکی مروت اور پنجاب کے اضلاع میانوالی، بھکر، خوشاب اپنے اپنے صوبوں کے انتہائی آخری اضلاع ہیں۔یہ علاقے اپنے اپنے صوبوں کی باؤنڈری پر واقع ہونے کی وجہ سے ترقی اور خوشحالی کے ثمرات سے محروم ہیں اور ان علاقوں کے عوام پسماندگی اور درماندگی کا شکار ہیں۔ اس وقت جن نئے صوبوں کے قیام کی بات ہو رہی ہے ان میں شمولیت کے بعد بھی ان اضلاع یا علاقوں کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جبکہ انہیں ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانے کے لیے ان پر مشتمل ایک نئے صوبے” صوبہ نیلاب ” کے قیام کی انتہائی ضرورت ہے۔ اس نئے انتظامی یونٹ کا صدر مقام ڈیرہ اسماعیل خان ہوناچاہئے۔ ان علاقوں میں ” صوبہ نیلاب ” کے قیام کی تجویز کو بڑے پیمانے پر پزیرائی ملنے لگی ہے۔
موجودہ حالات میں پاکستان کے لیے قائد اعظم کی فکر او ر وژن کو بروئے کار لانا انتہائی ضروری ہے۔ قومیتی اور لسانی بنیادوں پر نئے صوبوں کا قیام قومی اتحاد و یکجہتی کو پارہ پارہ کر سکتا ہے انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام اور وفاق کی اکائیوں کی تقسیم میں کوئی حرج نہیں۔نئے صوبوں یا انتظامی یونٹوں کے قیام سے نہ صرف لسانی اور قومیتی عصبیتوں کے بُت پاش پاش ہوں گے بلکہ ان علاقوں کے لیے ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کا آغاز بھی ہوگا۔دنیا کے کسی بھی ملک میں خاص کر وفاقی نظام رکھنے والے کسی ملک میں اتنی کم تعداد میں صوبے نہیں ہیں جتنے کہ ہمارے ہاں ہیں۔ صوبوں کی جغرافیائی حدود کی طوالت اور آبادی کے بوجھ کی وجہ سے ترقیاتی عمل بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ بعض علاقوں میں احساسِ محرومی بھی پروان چڑھ رہا ہے جو ہماری قومی یکجہتی، ملی وحدت اور وفاق کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن وہاں ترقیاتی عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ غیر ملکی مداخلت نے بلوچستان میں مختلف نوعیت کی شورشوں کو بھی پروان چڑھایا ہے۔
میانوالی، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، کرک، لکی مروت، بھکر اور خوشاب کے علاقوں پر مشتمل نئے مجوزہ انتظامی یونٹ کے مطالبے پر صاحب الرائے حضرات کو کھل کر اظہارِ خیال کرنا چاہئے اور اس کے منفی اور مثبت دونوں پہلوؤں کو منظرِ عام پر لانا چاہئے تاکہ اس مطالبے میں شدت آنے سے پہلے سب کچھ واضح ہو جائے۔ جنوبی پنجاب خصوصاً سرائیکی علاقوں میں احساسِ محرومی اور پسماندگی نے نئے صوبوں کی تشکیل کے معاملات کو حساس بنانے کے ساتھ ساتھ وقت اور حالات کے تقاضوں میں بھی شامل کر دیا ہے۔