...اب مراد سائیں

کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن حکمت ودانائی اور کچھ اُصول یا ضابطے ضرور ہوتے ہیں ۔ پاکستان کی سیاست پر وہ تمام اقوال اور ضرب الامثال درست بیٹھتی ہیں جن سے اس اہم ترین شعبے کا منفی تأثر اُبھرتا ہو ۔ پاکستان میں اس وقت سیاست کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اُس کے لیے کوئی معقول عنوان یا مناسب نام میری دانست کی محدود حدوں میں کہیں نظر نہیں آتا ۔ بس اتنا معلوم ہے کہ ہمارے ہاں مایوسی، غلامی ، انتہا پسندی ، جہل اور ظلم کے شکار معاشرے کے لوگوں کی روحیں کچلی بھی جائیں ، ان کی گردنوں میں تقلید اور خوف کے قلاوے ڈال کر ان کو کیڑوں مکوڑوں کی طرح مار بھی دیا جائے تو پھر بھی اس قوم کا ’’ بھٹو ‘‘ زندہ رہتا ہے ۔
ایک دن پہلے فرمائے گئے وزیر اعظم میاں نوازشریف اور شہباز قلندر کی دھرتی کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے ارشادات کافی دیر تک سوچ کو اذیت کے شکنجے میں جکڑے رہے ۔ سید مراد علی شاہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان پر خوب برسے ایسا لگتا تھا کہ اپنی نوکری پکی کر رہے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ شکر ہے پاکستان کرکٹ ٹیم جیت گئی ہے اگر عمران خان اس ٹیم میں ہوتے تو پاکستان میچ ہار جاتا۔ انہوں نے عمران خان کو تحریک انصاف کا 65 سالہ غیر سنجیدہ نوجوان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں سندھ کرکٹ ایسوسی ایشن بنا رہا ہوں اگر عمران خان کو ملازمت چاہیے تو میں انہیں ملازم رکھنے کے لیے تیار ہوں۔۔۔‘‘
مراد علی شاہ کے ارشادات بتا رہے تھے کہ ان کے خیالات ان کی اپنی ذہانت کا اظہاریہ ہیں، ان فرمودات کے لیے انہوں نے کسی کی مدد نہیں لی۔ یہ ان کے اپنے فن کی یکتائی ہے ۔
شاہ صاحب کا بیان سن کر تجزیہ نگاروں کی اُس رائے کی حقانیت مجھ پر واضح ہو گئی جس میں کہا گیا تھا کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کی تبدیلی صرف’’ ریپر‘‘ کی تبدیلی ہے ،آنے والا وزیر اعلیٰ بھی ’’ سائیں ‘‘ ہی ہوگا ۔۔۔ گزشتہ کئی حکومتوں سے ثابت ہوا ہے کہ سندھ کی وزارتِ اعلیٰ پیپلز پارٹی کے ’’ زرداری اور بھٹو خاندان ‘‘ کی تابعداری کی میراتھن دوڑ ہے ۔
اس دوڑ میں وہی لوگ کامیاب ہو سکتے ہیں جن کو پشتوں سے تابعداری کا تجربہ ہو ۔ پنجاب اور سندھ کے بڑے خاندانوں اور سیاسی گھرانوں کی تاریخ اور شجرے کھنگالے جائیں تو تاجِ انگلیشیا سے وفاداری اور خدمت گزاری کے دبستان بھرے پڑے ہیں ۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ کا خاندانی پس منظر بھی یقیناً وڈیرہ ازم سے عبارت ہو گا ۔ وہ جس سماجی اوتار گروپ سے تعلق رکھتے ہیں وہ ’’ا سٹیٹس کو ‘‘ کا سب سے بڑا حامی اور داعی ہے ۔ پاکستان کی 65 سالہ سیاست اسی گروپ کے ہاتھ میں رہی ہے ۔ ہمارے وڈیروں ، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور بیوروکریسی کے درمیان ایک غیر تحریری دستور موجود ہے جس کے دیپاچے میں ہی یہ طے کر دیا گیا ہے کہ جو کوئی بھی ان کے نظام کو للکارے گا اُس کا مقابلہ متحد ہو کر کیا جائے گا ۔گزشتہ ایک عشرے کی پاکستانی سیاست اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔ غور کیجئے جو کچھ عمران خان کہ رہا ہے اُس سے سب اتفاق کرتے ہیں ۔ لیکن اس نظام کے بچاؤ کے لیے یہ سب اُس کی مخالفت میں متحد ہیں ۔
عمران خان کو 65 سالہ غیر سنجیدہ نوجوان قرار دینے کے بعد رات کو مراد علی شاہ نے جب اپنی پارٹی کی ’’سنجیدہ سیاست‘‘ پر غور کیا ہو گا تو یقیناًحسد کی آگ نے اپنے الاؤایک مرتبہ پھر تیز کیے ہوں گے ۔ کیونکہ ’’ بھٹو ‘‘ جیسے آبِ حیات کی موجودگی اور ہمراہی کے باوجود بلاول بھٹو زرداری اپنی عمر کے لوگوں کو بھی متأثر کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی بڑی قربانیوں اور ورثے کے ہوتے ہوئے پارٹی کے چیئرمین کے والدِ گرامی اور پھپھو محترمہ کا ’’ شناختی کارڈ ‘‘ کامیابی کے راستے میں اسپیڈ بریکر بن گیا ہے ۔
عمران خان نے دو نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کے لیے جو کال دی ہوئی ہے ۔ اس سے نہ صرف حکومت خوفزدہ ہے بلکہ ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ کی حامی تمام قوتوں پر لرزہ طاری ہے ۔ لیاری میں بلاول بھٹو زرداری کی تقریر ، مراد علی شاہ کا بیان ، مسلم لیگ ن کی قیادت کے خیالات ، بیوروکریسی اور میڈیا کے مخصوص گروپوں کی سرگرمیاں اس بات کا اشارہ ہے کہ قوم دو گروپوں میں بٹتی نظر آ رہی ہے ۔ اسٹیٹس کو اور پرانے نظام کی حامی قوتوں کے مقابلے میں ایک ایسا گروہ تشکیل پا رہا ہے جس میں وہ لوگ شامل ہورہے ہیں ۔ جو زندگی کو اپنے ذہن سے سوچنے اور جانچنے پر اصرار کرتے ہیں ۔ جو خوف اور مرعوبیت کا شکار نہیں ہوتے ۔
سید مراد علی شاہ نے جس عمران خان کو ملازمت کی پیش کش کی ہے اُس کے خاندان میں ملازمت پیشہ افراد نظر نہیں آتے ان کے بزرگوں نے تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ جدوجہد کی تھی ۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان اپنے علاقے میانوالی میں مولانا عبد الستار خان نیازی کے ہمراہ مادرِِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ رہا ۔ سید مراد علی شاہ کی باتیں بتاتی ہیں کہ وہ کبھی تاریخ کے حقیقی طالب علم نہیں رہے ورنہ وہ یہ ضرور جانتے کہ ’’ ساٹھ کی دہائی میں جب ایوبی آمریت کا سورج نصف النہار پر تھا اور مغربی پاکستان میں نواب امیر محمد خان آف کالاباغ کا رعب و دبدبہ محترمہ فاطمہ جناحؒ کو صدارتی انتخابات میں شکست سے دوچار کرنے کے لیے پورے طمطراق کے ساتھ مصروفِ کار تھا تو عمران خان کے والد اکرام اللہ خان نیازی ان کے بھائیوں اور خاندان نے سابق گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان نواب آف کالاباغ کو عین اس وقت للکارا تھاجب ان کی سطوَت عروج پر تھی ۔مادرِ ملت کی حمایت میں ان کے خاندان کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے اس وقت کے گورنرمغربی پاکستان ملک امیر محمد خان آف کالاباغ اکرام اللہ خان سے ناراض تھے۔گورنر نے انجینئر اکرام اللہ خان نیازی پردباؤ بڑھایا جو ان دنوں محکمہ انہار میں ایک اعلیٰ منصب پر فائز تھے ۔ گورنر کا دباؤ کپتان کے والد اور ان کے خاندان کو مادرِ ملت کی حمایت سے باز رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ۔ اکرام اللہ خان نے گورنر کا دباؤ قبول کرنے کی بجائے اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا تھا ۔
دلچسپ بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کی کرکٹ کے بارے میں معلومات بھی کچھ اسی طرح کی ہیں جس طرح امجد فرید صابری قوال کے انتقال پر اُس وقت کے ’’ سائیں ‘‘نے ایک زندہ فنکار کا نام لے کر دکھ اور افسوس کا اظہار کر دیا تھا۔
ہمیں نہ تو مراد علی شاہ اور ان کے قبیل کے دیگر سیاست دانوں سے کوئی مخاصمت ہے اور نہ ہی عمران خان سے کسی قسم کی کوئی وفاداری کا معاملہ۔۔۔ جو ہے توبس ملک کے غریب ، کمزور اور محکوم عوام سے وابستگی ہے ۔ بھٹو زندہ رہے یا آلو سستا ہو، ہمارا تو کسی صاحبِ دانش کی طرف سے کہے گئے ان الفاظ پر پورا ایقان ہے کہ ’’ ہر دور کے اپنے اپنے فرعون ہوتے ہیں اور اپنے اپنے یزید ۔۔۔ ان کے مقابل میں اپنے اپنے موسیٰ ہوتے ہیں اور اپنے اپنے حُسین ۔۔۔ نہ ماضی میں کوئی فرعون یا یزید انقلاب لایا نہ آئندہ لائے گا۔۔۔ کہ انقلاب ہمیشہ موسیٰ اور حُسین کی قسمت میں لکھے ہوتے ہیں ۔۔‘‘