بھارت کی زہر آلود صحافت

کشمیر کی گتھی کو سمجھنے اور سلجھانے میں ناکام حکومتِ ہندوستان کے منفی اثرات اکثر شعبہ ہائے زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں ۔اس ناکامی میں جو کردار بھارت بھر کے الیکٹرانک میڈیا کا ہے وہ المناک بھی ہے اور شرمناک بھی ۔یہ ذرائع ابلاغ نہیں بلکہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کا روپ دینے والی وہ مشین ہے جس کا اوڑھنا بچھونا ہی بے ضمیری ہے ۔اس کی سینکڑوں نہیں ہزاروں مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔جب بھی بھارت میں کوئی دھماکا ہوتا ہے تودھماکے سے ایک لمحہ قبل’’بے خبر میڈیا‘‘ دھما کے کے ایک لمحہ بعد ’’باخبر‘‘ہو جاتا ہے اور خصوصی نشریات اس طرح چلائی جاتی ہے کہ گویا اس چینل ہی کا کوئی فرد سایے کی طرح دھماکا کرنے والوں کے ساتھ ساتھ رہا ہو ۔خبر لکھنے اور نشر کرنے کے الفاظ ہی حیرت انگیز ہوتے ہیں۔ آپ بھی ملاحظہ فرما لیجیے ’’نئی دہلی کے صدر بازار میں دھماکا کئی ہلاک اور زخمی ،کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی ،مگر انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ’’انڈین مجاہدین پر شک ‘‘۔دس منٹ بعد خبر چلائی جاتی ہے ’’ابھی ابھی نیوز روم کو ایک ای میل ملی ہے جو ’’القائدہ کی ہندوستانی شاخ‘‘نے بھیجی ہے اور اس تنظیم نے دہلی دھماکے کی ذمہ داری قبول کرتے ہو ئے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ یہ بابری مسجد کی شہادت ،کشمیر ،گجرات اور مظفر نگر قتل عام کا بدلہ ہے جبکہ آئندہ کے لئے حکومت ہندوستان کو خبردار کیاہے کہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائے ۔1947ء سے لیکر 2016ء تک آپ کو ایک بھی ایسی نیوزپڑھنے یا سننے کو نہیں ملے گی جس میں شک کی سوئی مسلمانوں کے بجائے کسی اور کی جانب گھومی ہو یا گھمائی گئی ہو ۔اس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ مسلمانوں کے ساتھ ہندوستانی میڈیا کی شدید نفرت ۔

جھوٹی خبریں پھیلانے اور تخلیق کرنے کا ثانی مغرب کے بعد اگر کوئی ہے تو وہ ہے بھارتی میڈیا ۔9ستمبر2016ء کو بھارت کے معروف نیوز چینل انڈیا ٹوڈے پر دن کے پانچ بجے کشمیر کی تازہ شورش پر ایک رپورٹ نشر کی گئی ۔میں حیران ہی نہیں بلکہ بہت شرمندہ بھی ہوا کہ کیا واقعی انڈیا ٹوڈے جیسے کسی حد تک غیر جانبدارسمجھے جانے والے چینل پر ایک قوم کے خلاف اس قدرتعصب برتا جا سکتا ہے، اور کیا سچ میں ایک نیوز چینل جھوٹ کو سچ کے روپ میں پیش کرنے کے لئے اتنی نچلی سطح تک گر سکتاہے ۔اخلاقی گراوٹ جب اتنے بڑے لوگوں میں اس حد تک آجائے تب آپ ایک پولیس والے یا فوجی سے کیا توقع کر سکتے ہیں ؟جن کے ذہن کو’’ میڈیا رومز‘‘ میں بیٹھے لکھے پڑھے ’’خفیہ ایجنڈے پر مامور‘‘صحافت کی آڑ میں زہرآلود ہ کرنے والے ’’مجرم‘‘ کوئی کسر باقی نہیں چھوڑرہے ہوں ۔پھر آپ یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ بھارت کی سوا ارب آبادی والے ملک میں عوام سچائی اور حق کا ساتھ دیں گے جب سچائی کے سوتے ہی خشک ہو چکے ہوں یا ان سے رواں فطری شفاف خیالات کو فاسد کر نے والے لوگ ہی سرچشمہ پر ڈھیرہ ڈالے انسانیت کو رسوا کرنے پر بضد ہوں۔

چینل انڈیا ٹوڈے نے رپورٹ کو خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ تار ملاکر کشمیر کی رواں تحریک کے حوالے سے چند حیرت انگیز انکشافات کیے۔ اولاً:کشمیر کی رواں ایجی ٹیشن ’’وہابیت‘‘کی دین ہے ۔ثانیاً:اس کا تعلق کہیں نہ کہیں آئی ،ایس ،آئی سے ہے یعنی یہ داعش سے جڑا معاملہ ہے ۔ثالثاً:یہ کشمیر کو ’’طالبانائزڈ‘‘کرنے کی سازش ہے ۔رابعاً :یہ ’’جماعت اورجمعیت‘‘کے تین ہزار مساجد میں مبلغین کی کارستانی ہے ۔خامساً:یہ سید صلاح الدین سید علی گیلانی کے ذریعہ کراتا ہے ۔ان الزامات کے علاوہ اور شگوفے اینکر نے چھوڑے جن پر کچھ کہنا ہی غیر ضروری ہے البتہ چند چٹکلے یہاں تفنن طبع کے لئے عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ پتہ چلے کہ بھارت کے اتنے مشہور نیوز چینل کے نامی گرامی اینکرز کی معلومات کس قدر سطحی ہوتی ہیں ۔جناب کی طویل ’’بکواس‘‘کو سننے کے لئے مجھے بہت صبر کرنا پڑا مگر میری ہنسی ضبط کرنا اس وقت مشکل ہوگیا جب اس نے سید علی گیلانی کی تنظیم سے متعلق یہ انکشاف کیا کہ اس کا نام ’’تحریک انصاف‘‘ہے حالانکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس کا نام ’’تحریک حریت ‘‘ہے ۔اینکر کبھی کبھی تین ہزار مساجد میں خطباء کو ’’جماعتی اور کبھی جمیعتی‘‘قرار دیتا تھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ وقت کی کمی کے بیچ جب اینکر کے لئے جھوٹ گھڑتے گھڑتے مواد ہاتھ نہیں لگا تو اُس نے جماعت اسلامی کی جگہ جماعتی اورجمعیت اہلحدیث کی جگہ جمعیتی کے الفاظ استعمال کر کے اپنی کمزوری چھپانے کی ناکام کوشش ضرور کی ہے۔ اس لئے کہ انٹرنیٹ کے ذریعہ تحقیقات کرنے والے ان تیس مار خانوں کا ’’سارامواد‘‘ ہی انسائیکلوپیڈیا کے لنکس کے علاوہ چند خبریں ہوتا ہے جن کی رپورٹنگ کرنے والے انہی جیسے وہ رپورٹر ہو تے ہیں جن کے نزدیک ہیجان پیدا کرنے کے لئے رائی کو پہاڑ ثابت کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے ۔

جہاں تک داعش کا تعلق ہے کشمیر میں تحریک کے پس منظر میں ایجی ٹیشن کے باوجود اس کا دور دور تک کوئی سراغ نہیں ہے ممکن ہے کسی فرد کو ذاتی حد تک ان سے کوئی فکری یا سیاسی مناسبت ہو مگر بحیثیت قوم ان کو کشمیریوں نے مجموعی طور پر رد کردیا ہے ۔یہی حال پاکستانی طالبان کا ہے البتہ کشمیریوں کو افغان طالبان سے محبت ضرور ہے ۔مگر پاکستانی طالبان ہی نہیں بلکہ افغان طالبان کا بھی زمینی سطح پر کوئی وجود نہیں ہے ۔رہے یہاں کے تین ہزار مساجد کے مبلغین ،سچائی یہ ہے کہ کشمیر کے مبلغین اکثر غیر سیاسی تقاریر کرتے ہیں البتہ جب کوئی بڑی آفت محسوس ہو تو اس کا سنجیدہ نوٹس لیتے ہیں ۔وہابیت سے مراد اگر داعش ہے تو کشمیر میں اس سوچ کے لوگ ایک فیصد بھی نہیں ہیں، ہاں سلفی المسلک لوگ تو یہاں ہیں مگر ہیں اقلیت میں ۔کشمیر میں حنفی المسلک لوگوں کی اکثریت آباد ہے ۔جن میں اکثر یت غیر متشدد مسلمانوں کی ہے باوجود اس کے کہ کشمیر کے لوگ احیائے خلافت کے متمنی ہیں اور مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کے خواہش مند بھی ۔کشمیر میں جماعت اسلامی ایک طاقتوراور موثر مذہبی اور سیاسی جماعت ہے ۔جس کی پر امن دعوت و تبلیغ اور سیاسی جدوجہد کی طویل ترین داستان تاریخ کشمیر کا حصہ بن چکی ہے ۔جہاں تک سید صلاح الدین کا سید علی گیلانی کے ذریعے شورش برپا کرانے کا الزام ہے اس پر ہنسے بغیر کوئی صورت ہی نظر نہیں آتی ہے بلکہ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ لوگ کشمیر کی تحریک اور اس کے لیڈران کے قد و قامت سے کس قدر ناواقف ہیں اور بھارت کی زہر آلودہ صحافت کس قدر کشمیر کے حوالے سے تعصب میں مبتلا ہے کہ اب حریت کے ساتھ ساتھ وہ کس طرح کشمیر کی مذہبی تنظیموں اور علماء کو بھی پروپیگنڈہ کی زد میں لاکر ریاستی جبر کا نشانہ بنوانا چاہتے ہیں۔