تراویح کے نام پر طوفانِ بدتمیزی

رہی آٹھ رکعات والی حدیث جو بخاری شریف میں ہے اور سند کے اعتبار سے بہت قوی ہے جس کی روای حضرت عائشہ ؓ ہیں اور جس پردور حاضر میں ہمارے بھائی اہلحدیث عمل کرتے ہیں اورعلمائِ اہلحدیث کا دعویٰ ہے کہ یہ روایت تراویح اور تہجدکے متعلق ہے جبکہ مقلدین اسے تہجد پر محمول کرتے ہیں ۔سلف میں سے بہت سے کبار علماء اور ائمہ بیس کے ساتھ ساتھ آٹھ رکعت کے بھی قائل رہے ہیں متقدمین میں امام ابن حجر عسقلانیؒ ،ابن نجیم،ابن ہمامؒ،علامہ سیوطیؒ،امام ابو العباس قرطبیؒ جبکہ متا خرین علما ء کی فہرست بہت طویل ہے جن میں علامہ ناصر الدین البانی اور محدث شہیر مولانا عبد الرحمان مبارکپوری خاصے معروف ہیںاسی طرح امام مالک کی ایک روایت آٹھ رکعت کی بھی ملتی ہے جب کہ بعض علماء نے ان کی جانب اس کی نسبت کی تردید کی ہے حضرت امام ابن تیمیہؒ آٹھ کے قائل رہے ہیں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں اگر کوئی نماز تراویح امام ابو حنیفہ ؒ،امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کے مسلک کے مطابق بیس رکعت یا امام مالک ؒکے مسلک کے مطابق چھتیس رکعت ادا کرے گا یا گیارہ رکعت ادا کرے تو اس نے اچھا کیا۔جیسا کہ امام احمد ؒ نے عدم توقیف کی بنا پر تصریح کی ہے ۔تو رکعات کی کمی اور زیادتی قیام لمبا یا چھوٹا ہونے کے اعتبار سے ہو گی (الاختیارات)اب اگر کوئی آٹھ اور کوئی بیس رکعت یہ سمجھ کر پڑھتا ہے کہ یہ حضور ﷺ یا ان کے صحابہ سے ثابت ہے تو اس میں لڑ نے جھگڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔مگر بعض دیندار حضرات کی یہ عادت بن گئی ہے کہ وہ اپنی رائے یا اپنے مسلک پر اس قدر اصرار کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے دوسرا غلط اور صریح غلط ہے ۔ہم دو انتہاؤں کے بیچ جی رہے ہیں اور ہر ایک کو اپنی بات پر کافی اصرار ہے جو ایک تعمیری ذہن کی عکاسی نہیں کرتا ہے حتیٰ کہ ہم لوگ ایک سنت مطہرہ کے لیے فرض تک کو داؤ پر لگا دیتے ہیں ۔علامہ یوسف القرضاوی صاحب لکھتے ہیں کہ امام حسن البناء شہیدؒ کے دور میں مصر کے ایک علاقے میں بھی تراویح کے مسئلے پر مسلمانوں کے بیچ شدید اختلاف ہو گیا یہاں تک کہ آپسی لڑائی تک کی نوبت آئی ہم امامؒ کے ساتھ علاقے میں گئے تو انھوں نے دونوں جماعتوں کو جمع کر کے پوچھا کہ تراویح کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟دونوں جماعتوں نے بیک زبان کہا ’’سنت‘‘ہے۔امامؒ نے پوچھا مسلمانوں کا آپسی اتحاد کیا ہے ؟تو انھوں نے عرض کیا جناب فرض ہے،امام نے کہا تو کیوں آپ لوگ ایک سنت مطہرہ کی بابت فرض کو چھوڑ دیتے ہو؟؟؟

آج کشمیر کی صورتحال من و عن یہی ہے ۔یہاں ہر فرد اپنے آپ کو عالم بے بدل تصور کرتا ہے اور جو عالم ہیں وہ سماج سے کٹے ہوئے ہیں ۔جو سماج سے جڑے ہیں وہ اپنی ذاتی سوچ اور فکر کو اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے عوام میں اسلام کے روپ میں پیش کرتے ہیں اور اس کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ گویا انہی کے پاس دین ہے ۔نوجوان ایک عجیب مرض میں مبتلا ہیں وہ کم علم ہونے کے باوجود اپنے آپ کو بہت بڑے عالم تصور کرتے ہیں انھیں علماء کی صحبت میں بیٹھ کر دین سیکھنے سے کوئی غرض نہیں ہے ۔چند صفحات کے مطالعے کے بعدانھیں محسوس ہونے لگتا ہے کہ اب ان سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے وہ ہر عالم کی توہین میں مسرت محسوس کرتے ہیں اور بسااوقات بہت ہی نازک اور باریک مسائل پر بھی بڑی بے باکی کے ساتھ رائے زنی کرتے ہیں اور رائے دینے کا انداز ایسا جارحانہ ہوتا ہے کہ گویا اپنی ذات میں کوئی ’’مجتہد‘‘ہو ۔حالانکہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اسے اصل اور فرع کی بنیادی چیزیں بھی معلوم نہیں ہو تی ہیں ۔ان دونوں انتہاؤں کے بیچ ایک تیسری راہ اعتدال کی ہے اور وہ ہے دوسروں کو برداشت کرتے ہوئے اُمت کے اجتماعی مفاد کو مدِ نظر رکھ کر ہر اس مسئلے میں ’’احتیاط اور اعتدال ‘‘برتنا جہاں مسائل میں دونوں جانب دلائل موجود ہوں یا ان میں تھوڑی سی اونچ نیچ ہو اور اسلاف نے دونوں کو اپنایا یا اختیار کیا ہو۔

سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ تراویح پر ہنگامے اور جھگڑے بہت عام ہیں وہ بھی نمازیوں کے بیچ ،حالانکہ ہر ایک اچھی طرح جانتا ہے کہ تراویح سنت ہے اور اس پر امت کے اتحاد کو قربان نہیں کیا جا سکتا ہے ،ہر ایک اچھی طرح یہ بھی جانتا ہے کہ یہ اختلاف آج کا نہیں سینکڑوں سالوں کا ہے جوامت کے سرخیل ائمہ اور مجتہدین کرام کے دور میں بھی اسی طرح قائم رہا جس طرح آج ہے، جب ’’امت کے درد میں پگھلنے والے اُن اصحاب فہم و فراست‘‘کے دورمیں دو کے مقابلے میں ایک ہی چیز ہمیشہ کے لیے قائم نہیں ہو سکی تو اب ہم جیسے ’’بونے مولویوںسے‘‘کیسے ہو گی ؟اس کے باوجود اپنی رائے پر سخت اصرار چہ معنی دارد؟اس ساری صورتحال کا المناک پہلو یہ ہے کہ جھگڑے تو نمازیوں کے بیچ ہورہے ہیں اور بے نمازیوں ’’جو نصوصاََ صریح کفر ہے‘‘کی خوفناک گمراہی پر کسی کو کوئی پریشانی نہیں ؟جتنا زورآٹھ اور بیس پر دیا جاتا ہے کاش اتنا ہی اپنے گمراہ بھائیوں کو نمازی بنانے پر لگا دیا جاتا تو ہمارا سماج اللہ کی رحمت کاملہ کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا ذریعہ بنتا!!!تارکین صلوٰۃ اور تارکین تراویح پر کسی کو رنج نہیں ہے اگر ہے تو اس بات پر کہ آٹھ صحیح تر احادیث سے ثابت ہیں کہ بیس ؟کیااُمت محمدیہ ﷺ کے داعیوں اور مصلحین کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ایک ایسی بات پر جھگڑے جس پر تیرہ سو سال جھگڑنے کے باوجود بھی یک رنگی قائم نہیں ہو سکی ؟ہر ایک عالم اور مبلغ کویہ بات بہت اچھی طرح جان لینی چاہئے کہ امت میں جو اختلافات دونوں طرف کے دلائل کے باوجود ’’معمولی سے فرق کے ساتھ ‘‘قائم رہ چکے ہیںخیر القرون کے علماء کے بعد اب کسی عالم ،مبلغ،محدث،فقیہ اور مفسر کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی ہے کہ وہ ایک بات کہہ دے یا فتویٰ داغ دے تو مخالف فریق اس کی بات آنکھ بند کر کے مان لے گا ۔کبھی نہیں، تو پھر اصرار اور ضد کیوں؟؟؟

تراویح کی نماز پر غور کرنے سے مجھے جو بات سمجھ میں آئی وہ یہ کہ یہ اختلاف اور افتراق کی علامت نہیں ہے بلکہ اتفاق اور اتحاد کی عظیم الشان نشانی ہے ۔حضرت عمرؓ ؓنے اس میں تفریق محسوس کرتے ہوئے اس میں اتحاد واتفاق پیدا کرکے عبادت الٰہی کی ایک ایسی نظیر کی صورت عطا کی کہ آج اُمت اس کے بغیر جی نہیں پاتی ہے ۔یہ حضرت عمرؓ کے صاحب بصیرت و فراست ہونے کی اہم ترین دلیل ہے ورنہ آج اُمت اتنے شدید اختلاف میں ہوتی کہ تصور کرنا بھی محال ہوتا ،اورتواور شاید یہ اُمت خیر کثیر سے ہی محروم ہو جاتی ۔یہ صحابہ کبار ؓکا خاصا رہا ہے کہ انکی تمام تر توجہ اور محنت دین کے قیام کی جانب رہتی تھی اور وہ اس حوالے سے بہت حساس ثابت ہو ئے ہیں ۔برعکس اس کے ہم دنیوی امور کے حوالے سے بہت حساس ہیں اور دین کے حوالے سے بہت ہی کم فہم اور کم ظرف اور پھر جب کبھی دینی اُمور کی جانب توجہ ہو بھی جائے تو بگاڑ کی ایسی مثال قائم کرتے ہیں کہ اس کے اثرات نسل در نسل منتقل ہو جاتے ہیں اور المیہ یہ کہ اس سب کا نام ہم ’’خدمت دین‘‘رکھتے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دین دار حضرات ایک دوسرے کو ان مسائل کے حوالے سے برداشت کرنے کی راہ اپنائیں اور اپنے کارکنان کو بھی ’’خلوت اور جلوت‘‘میں اسکی تعلیم دیں ۔بصورت دیگر ہم آپس میں ہی اُلجھ کر اپنے حقیقی اور مشترکہ دشمن کو بھول جائیں گے اور شاید جس منصوبے پر اسے بے شمار دولت خرچ کرنے کی ضرورت پڑتی وہ منصوبہ ہم مفت میں پایۂ تکمیل تک پہنچا کرایک ’’ظالمانہ اور بد بختانہ‘‘کام انجام دیکر آنے والی نسلوں کو ایسی مصیبت میں مبتلأ کریں جس کی تلافی ان سے ممکن ہی نہ ہو؟؟؟ہاں اگر اس پر بحث ہی کی شدید ضرورت ہو تو علماء اس کو اپنی حدود تک محدود کردیں اور اب شاید ایسا ممکن نہ ہو تو دوسری صورت یہ ہے کہ دوسروں کو برا بلا کہنے کے بجائے اس سے ان کی ذاتی رائے قرار دیا جائے اور بس ۔نہ کہ ’’کفر وکافری‘‘کے فتوے جاری کر کے صورتحال کو آخری درجے تک پہنچا کر بگاڑا جائے ۔یہ بات تو طے ہے کہ جب آٹھ رکعت کے قائلین بیس والوں کو گمراہ اور بیس والے آٹھ والوں کو گمراہ قرار دیں گے اور ایک دوسرے کے دلائل کو ’’بے اصل‘‘ہونے کی بات کریں گے تو معاملہ بگڑ جائے گا ۔اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ اب ایک تفریق پیدا ہو چکی ہے اس کو مزید وسعت دینے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ اسے محبت اور ہمدردی کے بولوں سے پاٹا جائے اس لئے کہ ہمارے اختلافات دو مذاہب کے نہیں دو مشارب کے ہیں ۔(ختم شد)