حکمرانو !صرف 80کروڑ روپے دے دو !

پیارے وطن کے سیاسی خاردار جنگل میں (ہندو بنیوں کی طرف سے پانی روکنے اور اسطرح انتہائی کمی ہو جانے سے)صرف کانٹے ہی اگ رہے ہیں سیاست میں برداشت کا مادہ عنقا ہو چکا سبھی بڑی بڑی مقتدر سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کو سیاسی گندے جوہڑمیں ڈبکیاں لگوادی ہیں اور موجودہ مقتدر سیاستدانوں کا ایک آدھ کو چھوڑ کر پورا جسم لوگوں کو بدبو کے بھبھوکے دینے لگا ہے، سبھی نے سیاسی حمام میں ایک دوسرے کو الف ننگا کر ڈالا ہے اور خلق خدا سخت پریشان ہے کہ کدھر جائیں کس کو راہنما مانیں نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والا معاملہ پیدا ہو چکا کہ آگے دریا پیچھے کھائی ہے کچھ تو اس شعر کی مانند ہیں کہ
؎ لوگ کہتے ہیں کہ موت آئی تومرجائوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا

آصف زرداری ملک میں دوسرے نمبر پراور شریفین چوتھے نمبر پر بڑے سرمایہ دار بن چکے ہیں کہ عالمی میڈیا اور بین الاقوامی تجزیہ نگار اس کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ رہے عمران خان تو انہوں نے اس اسمبلی کو ہی گالی دے ڈالی لعنتی قرار دیا جو ممبران اسمبلی کو ماں کی طرح پالتی ہے سالانہ تیس سے پینتیس لاکھ روپے انہیں تنخواہوں اور مراعات کی مد میں دے رہی ہے جس کا کھاتے ہیں اسی کو غراتے ہیں خود اپنے ہی پی ٹی آئی کے وہاں بیٹھے ممبران اس طرح سے لعنتی قرار پاچکے ہیں انہیں ماڈل ٹائون کے مقتولین کے بارے میں لاہور کے احتجاجی جلسہ کی ناکامی پر اتنا بڑا بدلہ لینے کا کوئی حق نہ تھا پھر پوری اسمبلی نے جب مذمتی قرارداد منظور کر لی تھی تو کسی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے مزید زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے کہہ ڈالا کہ میں تواس سے بھی بد ترین الفاظ کے القابات اسمبلی کو دیتا صرف لعنتی کہنے کو ہی میری رعایت سمجھیں ۔ن لیگی قیادت ایک مل سے درجنوں ملیں بنا چکی اور ہر حکمران اپنے دور میں نجکاری کیے گئے اداروں سے باقاعدہ حصہ / بھتہ لیتا ہے بیرون ممالک پلازے اور لیکس میں اربوں روپے دفن ہیں صرف فون والی کمپنی اتصالات نے پہلی قسط کے بعد 2004سے لیکر اب تک70ارب دینے ہیںنہ زرداری صاحب نے وصول فرمائے اور نہ ہی موجودہ حکمرانوں نے ۔اس کا سود ہی دونوں حکمران وصول فرمالیتے ہوں تو بھی اربو ں کا کھابا ہے زرداری صاحب کے سرے محل ،وکی لیکس اور سوئس اکائونٹس کا کیا بنا؟ غرضیکہ صرف اور صرف یہ ملک کے کرتا دھرتا سود خور نودولتیے سرمایہ دار بنے ہوئے ہیںاور مقتدر شخصیتوں کے پاس اتناڈھیروں فالتو سرمایہ موجود ہے کہ پورے آئندہ انتخابات کو ہی خرید سکتے ہیںان میں سے کوئی بھی جیت جائے کتا کنوئیں کے اندر موجود رہنے سے کیاپانی صاف قرار پاسکتا ہے؟ نہیں نہیں ہر گز نہیں ۔اس بظاہر لا ینحل مسئلہ کا حل اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا کہ الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کی طرح خود مختار ادارہ بنایا جائے اور وہ 2018کے عام انتخابات کو مکمل طور پر خود کنٹرول کرے آئینی طور پر پورے ملک کی انتظامیہ/ادارے اس کے احکامات کے پابند ہوں ۔

اسے امیدواروں کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کے حربوں /مال خرچ کرکے ووٹوں کو خریدنے اور ان کی بندر بانٹ کرتے وقت مجسٹریٹ کے اختیارات حاصل ہوں فوراً انہیں نااہل کرکے گرفتار کرسکے موقع پر بھاری جرمانے وصول کرسکے و دیگر شفاف انتخابات کے اقدامات کرسکیں ۔انتخابی امیدوار اگر وہی پرانے انگریزوں کی ناجائز اولاد جاگیردار بیٹے بیٹیاں ہی ہوئے اور ڈھیروں منافع لوٹنے والے صنعتکار اور وڈیروں کی اولادیں ہی ہوئیں تو پھر سابقہ 70سالوں کی طرح عوام کی گردنوں پر یہی سارے جغادری سیاستدان سوار ہو کر اگلے پانچ سالوں میں بھی غریبوں کے ٹیکسوں سے بننے والے سرکاری خزانہ کو لوٹتے رہیں گے اور ہم صرف کڑھتے رہنے کے علاوہ کچھ بھی نہ کر سکیں گے کہ یہ لوگ تو خون مزدور شرابوں میں ملا دیتے ہیں کی طرح ہیں ۔اور ایسے انتخابی امیدوار جب کروڑوں اربوں روپے الیکشن جیتنے کے لیے خرچ کریں گے توپھر ” وصولیاں بمعہ منافع”تو حاصل کرکے ہی رہیں گے اور ہمارے ملکی سیاسی حمام میں پھر ایک دوسرے کو ننگا کرنے گالی گلوچ مغلظات کا عمل مسلسل جاری رہے گا مگر اب کی بار تو ملک اس کا بالکل متحمل نہیں ہوسکتاکہ چاروں طرف انتہائی کمینے اور رزیل دشمن ہندو بنیے یہود و نصاریٰ نے سبھی سامراجی قوتوں کے روپ میں گھیرا ڈال رکھا ہے جب تک اندرون ملک اتحاد ،یگانگت اور محبت و اتفاق پیدا نہیں ہو گا بیرونی دشمنوں سے نپٹنا آسان نہ ہو گا ۔

اگر سود در سود مزید قرضے لیکر حکمران اپنے من پسند پروجیکٹس پر لگاتے رہے تو معیشت مزید تباہ ہو کر ہماری مشکلات بڑھ جائیں گی الیکشن کمیشن خود مختار ادارہ بنتے ہی بڑے بڑے زمینداروں جاگیرداروں وڈیروں اور نودولتیے سود خور سرمایہ داروں کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردے ۔کہ کوئی پانچ ایکڑ سے زائد زمین کا مالک یا 25لاکھ سے زائد سرمایہ رکھنے والا خواہ وہ کسی دوکان یا کاروبار کی ہی صورت میں کیوں نہ ہو انتخابات میں حصہ نہ لے سکے تمام امیدواروں کا مشترکہ انتخابی پبلسٹی میٹریل خود الیکشن کمیشن چھپوائے جس میں ان کے پروگرام /منشور کے اہم نکات بھی شامل ہوںہر قومی اسمبلی کے حلقہ میں 5/6 بڑے مشترکہ جلسوں کا اہتمام کرے جس میں سبھی امیدوار اپنے اپنے خیالات کا اظہار کریں اس کا خرچہ بھی الیکشن کمیشن کرے کروڑوں کے کپڑے / فلیکس ٹانگنے اور جلوسوں پر پابندی ہو ۔انتخاب کے روز ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں پر لانے واپس لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ الیکشن کمیشن کے ذمہ ہو اس طرح سے کل 25/30لاکھ روپے فی قومی اسمبلی کے حلقہ میں خرچ کرکے پورا انتخابی عمل پایہ تکیمل کو پہنچ سکتا ہے حکمرانوں سے صرف80کروڑ روپے اس مد میں دینے کی ہاتھ جوڑ کر التجا ہے کسی امیدوار کے انتخابات کے دنوں میں ایک کپ چائے کے پینے پلانے پر بھی سخت پابندی ہو اگر کہیں ووٹروں کی خرید و فروخت کی بابت ذرا سی بھی کان میںبھنک پڑجائے تو امیدوار تاحیات نا اہل تصور کیا جائے گا۔

گالی گلوچ اور ایک دوسرے کو مار ڈالنے کے پروگرام دیکھ کر عوام چاہتی ہے کہ سبھی دریا برد ہوںیا سمندر غرق ہو جائیں کہ انہوں نے1971میں بھی اقتدار کی لالچ میں ملک دو لخت کر ڈالا تھا اور اب علاقائی لسانی مسلکی فرقہ وارانہ زہریلے نعروں کے ذریعے ملک کی تباہی کا موجب بنے ہوئے ہیں مذکورہ طریقِ کار کے مطابق انتخابات کے انعقاد سے ملک بھر سے قابل ترین باشعورمخلص قیادت اللہ اکبر تحریک کی صورت اختیار کرتے ہوئے اسے مکمل اسلامی جمہوری فلاحی مملکت بنادے گی۔