ترقی یافتہ عورتیں مرتی رہیں گی

(دوسری قسط)
مگر افسوس اکیسویں صدی کے جدید دور کی عورتیں اس فرض سے غافل ہے۔ المیہ یہ ہے کہ صرف نوکری کرنے والی عورتیں ہی اس جرم کا ارتکاب نہیں کرتی ہیں بلکہ سارا دن گھر میں رہنے والی عورتیں بھی دودھ پلانے سے پرہیر کرتی ہیں ۔ سارا دن ڈرامے دیکھنا، موبائل فون پر مصروف رہنے والی عورتیں اپنا انجام سوچ لیں !!!، یہ مرض صرف شادی شدہ عورتوں کو نہیں ہوتا، بلکہ کنواری عورتیں بھی اس مرض کا شکار ہوجاتی ہیں ۔ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ سادہ غذا کھائیں ۔ سوال یہ ہے کہ کس نے دنیا میں رنگ برنگے پکوانوں کو گھر گھر دکھانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟ یہ سارا دن، شام، رات ٹی وی پرجو مسلسل کھانے پکانے کے پروگرامات آتے ہیں کیا وہ عورت اور مرد جو، ان پروگرامات کو روز دیکھتے ہیں وہ سادہ غذا کھائیں گے؟ تو ڈاکٹرز یہ مطالبہ کریں نا، کہ ٹی وی پر کھانے پکانے کے پروگرامات پر مکمل پابندی ہونی چاہئے۔ لوگوں نے کھانا پکانا کیا ٹی وی سے سیکھا ہے؟ جب دنیا میں ٹی وی نہیں تھا اس وقت کیا لوگ پتے کھاتے تھے؟ امریکی ڈاکٹرز کے مطابق بریسٹ کینسر سے بچنے کے لیے ہفتے میں 150 منٹ ورزش کرنی چاہئے۔ اگر کوئی عورت صرف گھر کے تمام کام اپنے ہاتھ سے کرے تو کیا اس عورت کو کبھی چربی چڑھ سکتی ہے؟ جتنی عورتیں بڑے بڑے ہیلتھ کلب میں ورزش کرتی ہیں یہ تمام گھر سے کام چوری کرتی ہیں ۔ ان کے گھر میں ماسیاں کام کرتی ہیں لہٰذا وہ عورتیں جو گھر کا کام نہیں کرتی ہیں ان کی ماسیوں کی صحت الحمد اللہ مالکن سے ہزار گناہ اچھی ہوتی ہیں یہی عورتیں حسرت سے ایک دوسرے کوکہہ رہی ہوتی ہیں ، ’’ہماری ماسی اتنی فٹ ہے‘‘ مگر اس عورت کو یہ فلسفہ سمجھ نہیں آتا کہ ماسی صبح سے شام تک کام کرتی ہے۔ اس لیے وہ بیماریوں اور موٹاپے سے محفوظ رہتی ہے۔
میں نے ایک انتہائی دین داربزرگ عورت کوسناوہ کہہ رہی تھی ’’میں نے بچے پال دیئے ،شادیاں کردیں ۔کیامیں اب بھی بیٹھ کرماسیوں کی طرح برتن مانجھوں ؟‘‘ بریسٹ کینسر کی ایک وجہ پیدائش روکنے والی ادویات کا استعمال بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عورت کیوں بچے پیداکرنا نہیں چاہتی؟ وہ بچوں کی پیدائش کے عمل کو کیوں روکنا چاہتی ہے؟جواب ہے کیونکہ وہ خوشحال زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ کیونکہ وہ اپنی آزادی قربان کرنا نہیں چاہتی۔ یہاں مردوں کو رسول ﷺ کی بچوں کی پیدائش کے حوالے سے سنت یاد نہیں آتی؟ حضرت عائشہؓ کی مثال پیش کرنے والی خواتین جو کہتی ہیں کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ خواتین کی تعلیم حاصل کرنے کے حوالے سے مثال ہیں وہ حضرت عائشہؓ کے بچوں کی تعداد بھی معلوم کریں نا؟؟ بس اماں عائشہ رضی اللہ عنہ عورتوں کو اپنی تعلیم کے لیے یاد ہیں ؟ جو عورتیں حضرت خدیجہؓ کی تجارت کی مثال دیتی ہیں وہ ان کی پہلی شادی کی عمر کیوں نہیں معلوم کرتی ہیں ؟ڈاکٹرشائستہ مسعود شکوہ کرتی ہیں کہ عالمی ادارہ صحت صرف بریسٹ کینسر پر تحقیق کے لیے رقم دیتا ہے یہ ادارہ مریضوں کے علاج معالجے کے لیے رقم فراہم نہیں کرتا۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ابھی ،عالمی طور پر اس خطرناک حد ، کو نہیں چھوا ، جہاں بریسٹ کینسرایک مسئلہ بنے۔ اس لیے عالمی ادارہ صحت والے ابھی صرف تحقیق کے لیے رقم دیتے ہیں ۔
جب پاکستان کی ہردوسری عورت تعلیم حاصل کرے گی ،جس کی وجہ سے اس کی شادی میں تاخیرہوگی اوروہ نوکری بھی کرناچاہے گی تب امریکہ کی طرح پاکستان میں بھی سالانہ چالیس ہزارعورتیں چھاتی کے کینسرسے مریں گی اس وقت عالمی ادارہ صحت ہمیں علاج کے لیے رقم ضروردے گا۔ماڈرن ازم کے مسائل پرعہدجدیدکاانسان سوال نہیں کرتاکیوں کہ ترقی ’’الحق‘‘ کے پیمانے پرقبول کی جاچکی ہے ۔اس لیے ترقی کرتے لوگ بس کہتے رہیں گے ماشاء اللہ کینسر کا علاج آگیا۔ ماشاء اللہ گردے ناکارہ ہونے سے بچنے کا علاج آگیا۔ اوبھائی سوال یہ ہے کہ کون ہے جس کی وجہ سے گردے خراب ہوئے تھے؟ کون ہے جس کی وجہ سے کینسر پیدا ہوا تھا؟ کون ہے جس کی وجہ سے دل کی بیماریاں پیدا ہوئی تھیں ؟ کون ہے جن کی وجہ سے بریسٹ کینسر پیدا ہوا تھا؟ ماڈرن میڈیسن مرض کو اہمیت دیتی ہے ناکہ انسان کو۔وہ کبھی مسئلے کی وجہ نہیں بتاتی بلکہ مسئلے کے حل پرزوردیتی ہے ۔کیونکہ مسئلے کی وجہ وہ خود ہوتے ہیں ۔آج وہ والدین ،جن کا خواب ہے کہ ان کی بچیاں ڈاکٹر بنیں ، انجینئر بنیں ، بینکر بنیں ۔پی ایچ ڈی کریں ۔سوال یہ ہے کہ ان بچیوں کی شادیاں کیسے16سال ، 18 سال، 21 سال میں ہوسکتی ہیں ۔ 18 سال 21 سال میں تو آج لڑکی FSC اور MSC کررہی ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ بریسٹ کینسر کی وجہ جدید طرز زندگی ہے یہ فیصل مسجد کو پنک کرنے سے نہیں رکے گا یہ عورتوں کو روایتی، قدیم اور فطری طرز زندگی دینے سے رکے گا اور ایسا اب ہو نہیں سکتا، ہر گزرتے دن کے ساتھ ہماری قوم ترقی کی آگ میں جلتی جائے گی اس لیے دنیا بھر کی عورتوں میں بریسٹ کینسر سے متاثرہ خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوگا کمی نہیں ۔ کیونکہ جدید طرز زندگی اور ترقی کرنا آج کے انسانوں کا نصب العین بن چکا ہے۔ اس لیے انتہائی دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ترقی یافتہ عورتیں مرتی رہیں گے۔
(ختم شد)