لالچ مذکر یا مونث؟

urdu words

آئیے، آج ایک بچے کے خط سے آغاز کرتے ہیں جو غالباً بچوں کے رسالے ’ساتھی‘ کا قاری ہے۔ برخوردار نے لکھا ہے کہ ’’انکل‘ آپ ہمیں تو سمجھاتے ہیں کہ ’’لالچ‘‘ مونث نہیں مذکر ہے، لیکن سنڈے میگزین (6 تا 12 ستمبر) میں ایک بڑے قلمکار نے صفحہ 6 پر اپنے مضمون میں کم از کم چھ بار لالچ کو مونث لکھا ہے۔ اس سے اگلے صفحے پر دوسرے مضمون نگار نے بھی لالچ کو مونث ہی ثابت کیا ہے (بہشت کی لالچ)۔ اب آپ ہی بتائیے، ہم کس کی بات مانیں؟ ہماری تو اپنے دوستوں سے بحث ہوتی رہتی ہے کہ لالچ مذکر ہے، مونث نہیں۔ اب اگر انہوں نے مذکورہ مضامین کو بطور سند پیش کردیا تو ہماری تو کچی ہوجائے گی۔‘‘

اب ہم کیا عذر پیش کریں! غنیمت ہے کہ کسی قاری نے صفحہ 7 کے مضمون میں ’’سبز زمرد‘‘ اور ’’سرخ یاقوت‘‘ پر اعتراض نہیں کیا۔ سنا ہے کہ زمرد سبز اور یاقوت سرخ ہی ہوتا ہے۔

چلیے، یہ تو ہوگیا گریبان کا احوال۔ آج کل پنجاب بھر میں گدھوں اور مُردار جانوروں کا گوشت پکڑا جارہا ہے۔ اس کے بارے میں ہر ٹی وی چینل ’’مذبحہ خانہ‘‘ کا ذکر کررہا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے اردو کے نفاذ کا حکم تو جاری کردیا ہے لیکن زبان بگاڑنے والوں پر کوئی جرمانہ عائد کرنے کا ذکر نہیں۔ مذبح میں خانہ داخل ہے، چنانچہ مذبح خانہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح مقتل کو مقتل گاہ کہنا مناسب نہیں۔ خانہ اور گاہ لکھنا اتنا ہی ضروری ہو تو ذبح خانہ اور قتل گاہ کہہ دیا جائے۔ ایک ٹی وی چینل غالباً ’کیپٹل‘ پر ذبح خانہ سن کر خوشی ہوئی۔

گزشتہ دنوں پشاور میں طوفانِ بادوباراں آیا۔ جو خاتون اس کی خبر دے رہی تھیں انہوں نے ایک بار نہیں کئی بار طوفان کی ’ط‘ اور موسلا دھار کے ’م‘ پر زبر لگانا ضروری سمجھا۔ یعنی طَو اور مَو۔ شاید اس طرح طوفان کی شدت بڑھ جاتی ہو۔

عدالتِ عظمیٰ نے تو اردو کے عملی نفاذ کا حکم جاری کردیا، لیکن اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے برقی و غیر برقی ذرائع ابلاغ کا کردار اہم ہوگا۔ ٹی وی پر خبریں پڑھنے والوں/ والیوں کا تلفظ درست کرنے کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔ لیکن یہ کام کون کرے گا؟ منگل کو ایک ٹی وی چینل پر بلوچستان کے ایک اسکول کے بارے میں رپورٹ دی جارہی تھی کہ اردو پڑھانے والے اساتذہ کو بھی اردو نہیں آتی۔ ایسی صورت حال میں ہم چینی زبان سکھانے کا اہتمام کررہے ہیں۔ ایک فوری کام اخبارات کو یہ کرنا چاہیے کہ جو انگریزی الفاظ غیر ضروری طور پر اردو کا حصہ بنا دیے گئے ہیں ان کی جگہ اردو کے الفاظ شامل کیے جائیں۔ البتہ جو الفاظ اردو کا حصہ بن گئے اور عام آدمی بھی سمجھ لیتا ہے، ان کا متبادل تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ مثال کے طور پر آرمی چیف کی جگہ سپہ سالار یا فوج کا سربراہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کا آج کل بڑا زور ہے۔ اسے ’قومی منصوبۂ عمل‘ کہا اور لکھا جائے تو بھی منصوبہ متاثر نہیں ہوگا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار ’’چارٹر آف اکنامی‘‘ کا ذکر کررہے ہیں۔ اسے ’منشورِ معیشت‘ کہا جا سکتا ہے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کو بھی پڑھے لکھے لوگ’منشورِ جمہوریت‘‘ کہتے ہی ہیں، اس پر عمل ہو یا نہ ہو۔ ایسے ہی کوئی چیز ’’بورڈ آف انوسٹمنٹ‘‘ ہے۔ بورڈ کا ترجمہ مناسب نہیں تو اسے سرمایہ کاری بورڈ تو کہا جا سکتا ہے۔ بورڈ تو اب اتنا دخیل ہوگیا ہے کہ سڑکوں پر بھی لگا ہوا نظر آتا ہے اور تعلیم میں بھی، جیسے انٹرمیڈیٹ بورڈ۔ انٹر میڈیٹ پہلے کبھی انٹرنس کہلاتا تھا لیکن وہ بھی انگریزی ہے، میٹرک بھی…… جس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں۔

مرحوم روزنامہ امروز میں معروف سیاست دان نواب زادہ نصر اﷲ خان کوموسمی سیاستدان لکھا تھا اور جب استفسارکیا گیا تو انگریزی کی خبر سامنے کردی جس میں SEASONED سیاست دان لکھا تھا۔

ایسی ہی ایک اصطلاح ’’سافٹ امیج‘‘، ’’سافٹ کارنر‘‘ کی رائج ہوگئی ہے۔ اس کا مناسب ترجمہ تلاش کیا جا سکتا ہے۔

کراچی سے شائع ہونے والے ایک اخبار کی شہ سرخی میں پڑھا ’’احسانات جتوائے‘‘۔ یہ بالکل ہی غلط ہے۔ یا توجتوائے کی جگہ گنوائے ہونا چاہیے تھا یا پھر ’’احسانات جتائے‘‘۔ شاید ایسا سہو جلدی میں ہوجاتا ہے۔

ہمارے کچھ دوست بھی آج کل مخبری کرکے ہماری مدد کررہے ہیں۔ لاہور سے افتخار مجاز نے خبر دی ہے کہ ایک چینل نے بتایاکہ ’’یوم دفاعِ پاکستان ملک بھر میں نیشنل ڈیفنس ڈے کے طور پر منایا گیا‘‘۔ انہوں نے ہی یہ اطلاع دی ہے کہ مرحوم روزنامہ امروز میں معروف سیاست دان نواب زادہ نصر اﷲ خان کو موسمی سیاستدان لکھا تھا اور جب استفسارکیا گیا تو انگریزی کی خبر سامنے کردی جس میں SEASONED سیاست دان لکھا تھا۔ معصومیت ملاحظہ کیجیے کہ پوچھا: کیا سیزن کو اردو میں موسم نہیں کہتے؟ جواز تو معقول تھا۔ نیوز ایڈیٹر نے بھی یونہی جانے دیا۔ یہ اُس وقت کی باتیں ہیں جب اردو اخبارات کو بھی انگریزی میں خبریں موصول ہوتی تھیں، چنانچہ ترجمے کے متعدد لطیفے ہوتے۔ اب اردو خبررساں ایجنسیوں کی بھرمار ہے اور وہ بھی کسی سے کم نہیں کہ وہاں ہم جیسے لوگ ہی بیٹھے ہیں، اور جو اخبارات کے دفاتر میں سب ایڈیٹر ہیں وہ بھی سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ اچھے پڑھے لکھے لوگوں سے سنا اور پڑھا جو تھیلی کی جگہ تھالی کے چٹے بٹے کہتے ہیں۔ جانے کیوں ؟