فِحش یا فحش؟

urdu-nastaliq

لاہور سے ایک بار پھر جناب محمد انور علوی نے عنایت نامہ بھیجا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’خط لکھتے وقت کوئی 25 سال پرانا پیڈ ہاتھ لگ گیا۔ خیال تھا کہ بھیجتے وقت ’’اوپر سے‘‘ سرنامہ کاٹ دوں گا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اگر خاکسار کے بس میں ہوتا تو آپ کی تجویز کے مطابق اردو میں نام بدلنے کی کوشش کرتا، مگر مجھے تو سبکدوش ہوئے 20 سال ہوچکے۔ بلاشبہ آپ کا یہ سلسلہ خاصا مفید ہے۔ اسی لیے کبھی کبھی آپ کی معاونت کی غرض سے اس میں شریک ہوجاتا ہوں۔ کیونکہ کامل ہونے کا دعویٰ نہ آپ کرسکتے ہیں نہ کوئی اور۔ (25 سال پرانا پیڈ سنبھال کر رکھنا بھی کمال ہے)۔

جنوری 16 کے دوسرے شمارے میں بھی دو باتوں کی طرف توجہ دلا رہا ہوں۔ اولاً۔ اَہم اور اَحمد کے درست تلفظ کے سلسلے میں یہ بات تو آپ نے درست لکھی ہے۔ تلفظ زبر اور زیر کے درمیان کیا جاتا ہے۔ لیکن ’’لین‘‘ کا جو حوالہ دیا گیا ہے وہ درست نہیں کیونکہ لین تو ’و‘ اور ’ی‘ کی قسم ہے۔ صحیح صورت یہ ہے کہ اردو میں ہائے ہوز ہو یا حطی (ہ، ح) دونوں سے ماقبل حرف کی زبر آدھی پڑھی جاتی ہے۔ جیسے Men, Pen اور Hen وغیرہ الفاظ میں ’e‘ کی آواز ۔ اسے آپ کلیہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ مثلاً رَحمت کو عربی میں/ قرآن میں پڑھیں گے تو زبر پوری پڑھی جائے گی، مگر اردو میں یہی زبر آدھی پڑھی جائے گی۔

رحمت، زحمت، شہر، نہر، محض، بحث، اہم، رہ وغیرہ۔ ثانیاً دو رویہ کی بحث کے دوران میں آپ نے درست نشان دہی کی ہے کہ ’’رو‘‘ فارسی مصدر رفتن سے امر کا صیغہ ہے اور دوسرے مصدر روئیدن سے بھی امر ہی کا صیغہ ہے۔ مگر دونوں کے تلفظ کے فرق کو واضح نہیں کیا۔

یہ تو خیر چینل والے بھولے ہیں جن کو یہ ذمے داری سونپی گئی ہے کہ غلط تلفظ کو رواج دیا جائے۔ لیکن جہاں تک فحش کا تعلق ہے تو بہت سوں سے غلط ہی سنا جب کہ اس کا تلفظ فُحَش (ف پر پیش، ح پر زبر) ہے

جو ’’رو‘‘ رفتن سے امر ہے اس کی ’ز‘ پر زبر ہے اور اس ’ز‘ کو واولین کہتے ہیں۔ جب کہ روئیدن سے بننے والے ’’رو‘‘ میں واؤ مجہول ہے اور اس کا تلفظ ہے جیسے، تو، کو، سو، ہو، جو وغیرہ۔ ان الفاظ میں بھی ماقبل ’و‘ حرف پر ضمّہ ہے مگر پوری طرح پڑھا نہیں جاتا۔ مزید مثالیں گوشت، دوست، پوست وغیرہ۔

بھائی محمد انور علوی، بہت شکریہ۔ آپ کی بات درست ہے کہ کامل ہونے کا دعویٰ نہ آپ کر سکتے ہیں نہ کوئی اور۔ اپنے بارے میں تو یہ بات ہم شروع سے کہہ رہے ہیں۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ پچھلے کالم (داروگیر پر پکڑ) میں کمپوزنگ کے سہو سے ’’روبکار‘‘ روپکار ہو گیا۔ کچھ قارئین سمجھے کہ یہ بھی کوئی لفظ ہے چنانچہ کئی فون آئے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ مطلب تو روپکار کا بھی نکالا جا سکتا ہے۔ مثلا پکار کرنے والے چہرہ۔ لیکن کچھ حق کمپوزر کا بھی ہے اور ہم نے تین غلطیوں تک کی چھوٹ دے رکھی ہے۔

امید ہے کہ اَہم کے تلفظ کے حوالے سے لاہورہی کے جناب افتخار مجاز کی تسلی (بلکہ تسلاّ) ہو گئی ہو گی۔ دراصل ہمارے مخاطب ماہرین لسانیات نہیں، ہم جیسے لوگ ہی ہوتے ہیں جو بڑی معصومیت سے پوچھتے کہ یہ جو آپ ’برو۔زَن‘ (بروزن) لکھتے ہیں اس کا مطلب اور تلفظ کیا ہے۔

ہمیں تو خوشی اس بات کی ہے کہ ہمیں دور دور تک پڑھا جارہا ہے اور اس کے سہارے ہمارا بھی نام ہو رہا ہے۔ اب دیکھیے، وہاڑی، پنجاب سے جناب اللہ داد نظامی نے ٹیلی فون کر کے داد دی ہے۔ لتمبر، خیبر پختون خوا کے عدنان صاحب کچھ عرصے سے خاموش ہیں۔ لاہور سے رضا کارانہ طور پر مخبری کرنے والے جناب افتخار مجاز نے ایک بار پھر مخبری کی ہے کہ چینل 24 پر ایک پروگرام چل رہا ہے جس میں بار بار ’’فِحش‘‘ کہا جارہا ہے۔ کسی سینئر پروڈیوسر نے بھی تصحیح نہیں کی اور یہی تلفظ دہرایا جارہا ہے۔ یہ تو خیر چینل والے بھولے ہیں جن کو یہ ذمے داری سونپی گئی ہے کہ غلط تلفظ کو رواج دیا جائے۔ لیکن جہاں تک فحش کا تعلق ہے تو بہت سوں سے غلط ہی سنا جب کہ اس کا تلفظ فُحَش (ف پر پیش، ح پر زبر) ہے۔ ٹی وی پر ہم نے ایک اورلفظ سنا ’’بل بَوتے پر‘‘ یعنی ب بالفتح۔ آپ میں بُوتا‘‘ ہو تو تصحیح کر دیجیے۔ بُوتا یعنی زور، طاقت، بل وغیرہ۔ اسی ہجے کے ساتھ ایک اور لفظ ’’بَوتا‘‘ بہ وائے مجہول ہے جس کا مطلب ہے درخت کا تنا، حقے کی نال، اور بوتہ کہتے ہیں دھات گلانے کی کٹھالی (فارسی)۔ فارسی میں بَوتہ چھوٹے درخت کو بھی کہتے ہیں۔ ممکن ہے بُوٹا اسی بوتے سے پھوٹا ہو۔ اس حوالے سے فارسی ہی کی ترکیب ہے بوتۂ خار اور بوتۂ خاک۔ یعنی کانٹوں بھرا درخت اور آدمی کا بدن جو خاک کا بوٹا ہے اور خاک ہی میں مل جائے گا۔ اور بوتہ اونٹ کے بچے کو بھی کہتے ہیں، مونث اس کا ’’بوتی‘‘ ہے۔ اس حوالے سے مزید لکھنے کا بُوتا نہیں ہے۔

آئیے، اپنے گریبان میں جھانکیں۔ ہم نے اصرار کیا تھا کہ قصائی صحیح نہیں بلکہ قسائی ہے اور اسی سے عربی میں اسم کیفیت قساوت ہے۔ جسارت کے اداریے میں قصاب بھی قساب بن گیا۔ اب یہ واضح نہیں کہ یہ چھوٹے گوشت کا ہے یا بڑے گوشت کا۔ ویسے تو وطن عزیز میں گدھوں کے قصاب بھی موجود ہیں جو صحیح معنوں میں قسائی ہیں، قساوت سے بھرے ہوئے۔ سنڈے میگزین (بقول کسے اتواری مجلہ) میں جناب نجیب ایوبی 1857ء کی جنگ آزادی کا احوال لکھ رہے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ ’’اکبر کے بعد مغل شہزادہ اورنگ زیب عالمگیر تخت نشین ہوا۔‘‘ ممکن ہے کہ اکبر کے بعد جہانگیر اور شاہجہاں کو ’’نشینی‘‘ کے لیے تخت ہی نہ مل سکا ہو۔ نجیب ایوبی تو کمال کے مورخ ہیں لیکن کسی ادیب شہیر (ایک شمارے میں جو ادیب شہر ہو گیا تھا) نے پڑھنے کی زحمت بھی گوارہ نہ کی ورنہ جنگ آزادی میں حصہ لینے والوں کو ’’باغی فوج‘‘ نہ لکھا جاتا جب کہ خود ہی اسے جنگ آزادی قرار دے رہے ہیں۔ باغی قرار دے کر تو انگریزوں کے موقف کی تائید ہو رہی ہے کہ یہ بغاوت تھی۔

چلتے چلتے ایک بات ماہنامہ قومی زبان بڑا معتبر رسالہ ہے۔ اس میں پروف ریڈنگ بھی زیادہ احتیاط سے ہونی چاہیے ورنہ غلطی سند بن جائے گی۔ بیکل اتساہی کے شعری مجموعے پُروائیاں پر تبصرے میں ان کا ایک مصرع یوں ہے ’’کیا جانے کب ناگن بن کر ڈس لے گا کوئی لکیر رے جوگی‘‘۔ کیا پتا کل کو کوئی لکیر کے مذکر ہونے کی سند میں یہ مصرع پیش کر دے۔ بہتر تھا کہ مصرعے میں سے ’گا‘ نکال دیا جاتا تو بے وزنی بھی دور ہو جاتی۔ قومی زبان کے مدیر یہ بھی طے کر لیں کہ ذرائع کا املاکیا ہے، کیا یہ ذرائع ہے یا ذرایع۔ (صفحہ 84)۔ مبصر معصومہ شیرازی کا یہ جملہ بھی دلچسپ ہے ’’پانی…… جس کی جلترنگ……‘‘ ہم نے سنا تھا کہ جل پانی ہی کو کہتے ہیں۔