امریکا پاکستان کے خلاف کاروائی کے لیے بہانہ ڈھونڈتا ہے


موضوع پر آنے سے پہلے گزارش ہے کہ امریکا افغانستان میں طالبا ن سے شکست کا بدلہ پاکستان سے لینا چاہتا ہے۔فاقہ مست افغانوں کے خلاف سولہ سالہ ظالمانہ فوجی کاروائیوں کر رہا ہے۔ اپنے48 ملکوں کے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر بھی افغانیوں کو فتح نہیں کر سکااس لیے اپنی ناکامی پر پریشان ہے۔ جنگ کے زور پر امریکا افغانوں پر مسلط نہیں ہو سکتا۔ یہ بات امریکا کی فوجی اسٹبلشمنٹ کو اپنی کانگریس نے پہلے ہی بتا دی تھی۔ ہوا یوں کہ جب امریکی فوجی اسٹبلیشمنٹ نے افغانستان پر حملے کے لیے اپنی کانگریس سے اجازت مانگی تھی تو کانگریس نے ان سے کہا تھا کہ آپ کو معلوم بھی ہے اور تا ریخ میں بھی درج ہے کہ افغانوں نے پہلے برطانیہ جس کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا کو شکست دی تھی۔ اور اس کے بعد روس جو دنیا کی سب سے بڑی مشین تھا۔ جس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ جس ملک میں داخل ہوا،اس سے واپس نہیں نکلا۔ افغانوں نے اسے بھی اپنے ملک سے شکست دے کر نکال دیا تھا۔ امریکی فوجی اسٹبلیشمنٹ نے اپنی کانگریس کو بتلایا تھا کہ ہم نے اس کا علاج کر لیا ہے۔ یہ علاج کیا تھا ۔
یہ بات تو تاریخی طور پر ثابت ہے کہ جب بھی افغانستان پربُرا وقت آیا پاکستان میں موجود ان کے رشتہ داروں اور ہم مذہب مسلمانوں نے ان کی مدد کی۔ امریکا نے سوچا کہ ایک طرف تو افغانستان کی طالبان حکومت پر حملہ قبضہ کر لیا جائے اور دوسری طرف ان کے پاکستان میں حماییتوں کو ختم بھی کیا جائے یا اس کو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ وہ افغانوں کی مدد نہ کر سکیں اور اپنے میں ہی الجھے رہیں ۔ اس پالیسی کے تحت پاکستان میں جعلی طالبان پیدا کیے گئے۔جنہوں نے بھارت اور امریکا کی مدد اور مغربی ملکوں کی خفیہ اداروں کے اہل کار کی مدد سے پاکستان کی سیکورٹی فوجوں پر حملے کرنا شروع کیے۔ پاکستان کے دفاعی ادروں پر بھی حملے کرنا شروع کیے ۔دوسری طرف اسی پالیسی پر ہی امریکا نے اُس دور کی خبیرپختونخواہ کی نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی کی مخلوق حکومت اور مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ ساز باز کر کے پاکستان میں سوات، باجوڑ، وزیرستان میں فوجی آپریشن کی ابتدا کی۔ اس سے پاکستان میں موجود افغانوں کے ہمدردوں کو ختم یا کمزرو کرنا تھا۔پہلے تو ہمارے کمانڈو ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے قوم اور اپنی فوج سے اجازت لیے بغیر امریکا کی ایک ٹیلی فون کال پر امریکا کو لاجسٹک سپورٹ مہیا کی۔پھر پاکستان میں افغانوں کے خیر خواہوں کے خلاف مہم شروع کی۔ چھ سو لوگوں کو پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا۔
اس سے قبل امریکا نے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے معاشی حب میں غدار پاکستان الطاف حسین کو 35 سال سے کام پر لگایاہوا تھا۔ الطان حسین نے برطانیا کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر کو بھی خط لکھا تھا کہ آپ پاکستان کی آئی ایس آئی کو ختم کریں میں اس میں آپ کا ساتھ دوں گا۔ اگر عوام کو یاد ہو تو اس سازش کو پیپلز پارٹی کے منحرف لیڈر ، سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا صاحب نے نے قوم کے سامنے رکھا تھا کہ ایک ملاقات میں الطاف حسین نے کہا تھا، امریکا پاکستان کو توڑ کر اس کے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے اور میں اس میں امریکا کی مدد کروں گا۔یہ بات مرزا صاحب نے قرآن سر پر رکھ الیکٹرونک میڈیا میں کہی تھی۔ میڈیا کے سوال پر کہا تھا کہ اس سازش کو پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور فوج کی سربراہ کو بھی بتا دی تھی۔ امریکا ،اسرائیل اور بھارت نے توگریٹ گیم کے تحت پاکستان کے ٹکڑے کرنے کا پروگرام پہلے سے بنایا ہوا ہے۔یہ تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے اور مثل مدینہ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان پر اللہ کا خاص رحم اور کرم ہے اللہ نے پاکستان کو قائم دائم رکھا ہوا ہے۔
سوات، باجوڑ، وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن امریکا اورپاکستان میں امریکی پٹھو حکمرانوں کی وجہ سے ہوا۔ اس کی وجہ پاکستان میں اتنی بڑی ہجرت کے باجود اللہ نے خیبر پختونخواہ کے لوگوں کو حوصلہ دیا۔ اتنی بڑی قربانیوں کے باوجود اللہ نے انہیں محفوظ رکھا۔ اب اللہ کے فضل سے ۵۹ فی صد واپس اپنے گھروں میں واپس پہنچ چکے ہیں ۔ اسی طرح افغانستان کے فاقہ مست عوام نے امریکا اور اس کے 48 ناتو اتحادیوں کی فوجیوں کوناکوں چنے چبا دیے اور وہ ایک ایک کر کے افغانستان سے نکل گئے اور امریکا کو شکست ہوئی۔ اب امریکا کے صرف دس بارہ ہزار فوجی افغانستان میں ہیں وہ بھی اپنے فوجی اڈوں میں چھپے بیٹھے ہیں ۔ لوگ تو کہتے ہیں کہ امریکا کو چاہےے کہ سیدھی طرح شکست مان کر افغانستان سے نکل جائے۔ مگر امریکا ایسے نہیں کرے گا بقول ایک سابق جنرل، امریاکا 119بہانہ، افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ ہے۔وہ اسلامی اور ایٹمی پاکستان کو ہر گز نہیں چلنے دے گا۔وہ ایک عرصہ سے پاکستان میں دین بیزاری، روشن خیالی اور سیکولر سوچ والے حلقے پیدا کر رہا ہے۔70 سال پاکستان کے ساتھ دوستی کی آر میں دشمنی کر رہا ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں کو اس کی سمجھ نہیں آرہی۔ اب امریکا کی خواہش کہ ہم افغانستان کی جنگ اپنے ملک میں لے آئیں ۔ جس افغانستان کو امریکا اپنے48 نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر بھی فتح نہیں کر سکا۔ ان سے پاکستانی فوج فتح حاصل کر کے امریکا کی جھولی میں ڈال دے۔ اس کے لیے بھارت کی طرف سے ہم پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ وہ کشمیر کی سرحد پر گولہ باری کرتا رہتا ہے۔ ہمارے شہریوں کو بے گناہ شہید کر رہا ہے۔
امریکا کا وزیر خارجہ پاکستان میں آکر کہتا ہے کہ پاکستان سے مخصوص مطالبات کیے ہیں ۔ امریکا نے75 مطلوب لوگوں کی فہرست بھی دی ہے۔ پاکستان نے بھی 100 مطلوب افراد کی فہرست امریکا کر دی ہے جو افغانستان میں مقیم ہیں اور وہاں سے پاکستان میں حملے کر رہے ہیں ۔ امریک وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان سے ہمارا رشتہ شرائط پر مبنی ہو گا۔امریکا کہتا کہ حقانی نیٹ کے خلاف جنگ کرو۔افغان طالبان کے خلاف جنگ کرو۔پاکستام میں دہشت گردچھپے ہوئے ہیں اس کے خلاف جنگ کرو۔ پاکستان کے سپہ سالار نے پہلے بھی کہا تھا جس کی چین نے بھی حمایت کی تھی کہ دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ لڑائی پاکستان نے کی ہے۔ دنیا کو اس کا اعتراف کرناچاہےے۔ دنیا کو پاکستان کی مدد کرنی چاہےے نہ کہ ڈو مور کا مطالبہ کیا جائے۔ پاکستان نے امریکا کے نئے ڈومور کے مطالبے کے مقابلہ میں کہا ہے کہ اب امریکا اور دنیا ڈو مور کرےپاکستان نہیں ۔ہمیں امداد نہیں چاہےے۔امریکا کی طرف سے الزام تراشی ختم ہونی چاہےے۔ ویسے بھی افغانستان کا پچاس فی صدعلاقہ افغان طالبان کے پاس ہے ۔انہیں پاکستان میں پناہ کی ضرورت نہیں ۔امریکا پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو پاکستان کے خلاف استعمال کرناچاہتاہے۔ اس لیے پاکستان کو چین کے ساتھ دفاعی معاہدے کرنا چاہےے۔ اپنی حفاظت کے لیے ایٹمی اور میزائل طاقت کو مذید ترقی دینا چاہےے۔صاحبو! پا کستان کے وزیر خارجہ نے صحیح کہا ہے کہ امریکا پاکستان کے خلاف کاروائی کے لیے بہانہ ڈھونڈتا ہے۔