وجود

... loading ...

وجود
وجود

عمران خان اور پرویز مشرف کی لاعلمی

اتوار 27 مئی 2018 عمران خان اور پرویز مشرف کی لاعلمی

اکتوبر 2002 ء میں پرویز مشرف کے جرنیلی استبداد کا سورج النصف النہار پر تھا ۔ ماحول کیا ہوگا اور امکانات کا رُخ کس جانب ہوگا ۔

جب کُہرا پھیلا لگتا ہو
سورج بھی میلا لگتا ہو
ہر شخص اکیلا لگتا ہو
سمجھو یہ کہ بستی اُجڑے گی

کپتان میانوالی کے سنگلاخ پہاڑوں اور دریائے کرم کے پہلو میں آباد آریاؤں کی قدیم بستی کنڈل اور بابر شاہ کی گذر گاہ عیسیٰ خیل میں اپنی انتخابی مہم میں مصروف تھے ۔

انہیں ایک کال موصول ہوئی ۔۔۔کچھ دیر علیحدگی میں فون سُننے کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کے درمیان آکر بیٹھ گئے ۔ وہ کچھ دیر خاموش رہے۔ سمندر کا سکوت کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوا کرتا ہے ۔ کپتان سمندر جیسا گہرا کبھی نہیں رہا البتہ پہاڑوں کی طرح بُلند آہنگ اور چٹان جیسے مضبوط ارادوں کا مالک ضرور ہے ۔ اُن کی جو سیاسی استقامت آج دو دہائیوں سے زائد کی عُمر کو پہنچتی ہے اُس کا ابتدائی عشرہ تھا ۔قدرے توقف کے بعد گویائی کا سبب جب ساتھیوں کا استفسار بنا تو کہنے لگے ۔۔

’’ جمائما سے بات ہوئی ہے ۔ جنرل پرویز مشرف نے انہیں فیملی ڈنر پر بُلایا تھا ۔ جنرل نے انہیں بتایا ہے کہ عمران خان میانوالی میں الیکش ہار رہا ہے ۔ لیکن آپ فکر نہ کریں میں انہیں ضمنی الیکشن میں جتوا دوں گا ۔ ‘‘ ۔۔ جنرل پرویز مشرف نے یہ بھی بتایا کہ یہ اطلاعات انہیں ’’ خفیہ اداروں ‘‘ نے فراہم کی ہیں ۔

کپتان نے ارادہ ظاہر کیا کہ میں الیکشن مہم مختصر کرکے کچھ دن کے لیے اسلام آباد لوٹ جاتا ہوں جہاں شوکت خانم ہسپتال سمیت کچھ دیگر معاملات کو نمٹا لیتا ہوں ۔ مہم کو زیادہ وقت نہیں دیتا ۔ پولنگ سے ایک دو روز قبل واپس میانوالی آجاؤں گا ۔ وہاں موجود سب ساتھیوں کا اصرار اور تکرار یہی تھی کہ آپ جنرل پرویز مشرف کی اطلاعات کی وجہ سے انتخابی مہم کو مختصر یا محدود نہ کریں ۔ یہ ہمارا اور آپ کا علاقہ ہے یہاں ووٹ خُفیہ اداروں نے نہیں عوام نے ڈالنے ہیں ۔ آپ اس مرتبہ ضرور کامیاب ہوں گے ۔ اور میانوالی سے ہی قومی اسمبلی میں جائیں گے ۔ عمران خان خاموش ہو گئے اور ایک دو روز مُہم جاری رکھی ۔ پولنگ کے روز وہ شام سے پہلے نتائج اللہ پر چھوڑتے ہوئے اسلام آباد روانہ ہوگئے ۔

پولنگ ختم ہونے کے بعد سے نتائج کے اعلان تک اُن کے ساتھیوں کی ایک ٹیم نے مُشکل ترین حالات کا سامنا کرتے ہوئے ’’نتائج کے عمل ‘‘ پر کڑا پہرا رکھا ۔ بار بار ایسے مراحل آئے جن سے یہ ظاہر ہوتا تھاکہ انتخابی نتیجہ مشرف کی پیشن گوئی کے مطابق تیار کرنے کی تما م تر تیاریاں مکمل تھیں ۔ اور اگر ان میں سے کسی ایک ساتھی کی بھی آنکھ لگ جاتی تو اُسی نتیجے کا اعلان ہونا تھا جس کی اطلاع جنرل پرویز مشرف نے جمائما خان کو دی تھی ۔ عمران خان صبح نیند سے بیدار ہوئے تو انہیں ٹی وی ٹکر کے ذریعے معلوم ہوا کہ وہ قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوچُکے ہیں یہ وہ دور تھا کہ جب علاقے کے وہ تمام بڑے سیاسی دھڑے جو آج بنی گالہ کے طواف میں ہیں یا پارٹی میں ہیں سب کے سب عمران خان کے مخالف تھے ۔ ناشتہ کے بعد وہ میانوالی کی جانب رواں دواں تھے جہاں پہنچ کر انہوں نے اپنے ساتھیوں کے چہرے پر طمانیت بھری مسکراہٹ اور خوشی کو اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھا ۔ ساتھیوں کی رسیلی آنکھوں میں ایک فاتحانہ چمک تھی ۔ یہ سب اس لیے تھی کہ میانوالی نے اپنی دھرتی کے فرزند کے بارے میں وقت کے ’’ آمر ‘‘ کے اندازوں اور اطلاعات کو غلط ثابت کر دیا تھا۔

اس موقع پر موجود اُن کے میانوالی کے ابتدائی ساتھیوں کا ذکر کسی دوسرے کالم میں تفصیل سے کیا جائے گا ۔ یہ ایک اپنی طرز کا ایک ایسا حسین اور دِلرُبا گلدستہ تھا ۔ جس کے ہر پھول کا رنگ جُدا اور خوشبو منفرد تھی ۔ گذشتہ دنوں کپتان سے بنی گالہ میں ملنا ہوا تو وہ الیکٹبلز میں گھرے ہوئے تھے ۔وقت نے ان کی جدوجہد اور استقامت کے صلے میں انہیں اندھیروں کے پالنہاروں کے مقابل سورج بنادیا ہے ۔ لیکن ہر ملاقات میں وہ اپنے ابتدائی دوستوں اور ساتھیوں کا ذکر بہت محبت سے کرتے ہیں ۔ وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ میرے ساتھیوں نے میرا بہت مشکل حالات میں ساتھ دیا ہے۔ سچ کے ساتھ اس جدوجہد کے اولین دوستوں کی محبت اور خلوص ہی تھا کہ آج پاکستان میں سچ کی فتح نے دھرتی کو تپتا تانبا بننے سے محفوظ رکھا ۔ سچ کو حیات تازہ دینے کی جدوجہد کے آغاز سے قبل اُن کے لیے میانوالی کے دو حلقوں میں سے جس حلقے کا انتخاب کیا گیا تھا وہ 220 کلومیٹر کا ایک مربع شکل کا ایسا علاقہ ہے جس کے اکثر علاقے دشوار گذار حصوں پر مشتمل ہیں ۔ اس حلقہ میں بلندوبالا پہاڑوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو خیبر پختونخواہ سے اس ضلع میں داخل ہوتا ہے اور پھر سالٹ رینج کے بلند ترین پہاڑ سے ہوتا ہوا ضلع خوشاب میں داخل ہوجا تا ہے اور ایک طرف سے چکوال اور دوسری طرف سے اٹک اور ضلع کرک کی حدود کو چھوتا ہے۔ تبت کی برف پوش وادیوں سے نکلنے والا دریائے سندھ اسی حلقہ میں افسانوی شہر کالاباغ کے مقام پرپہلی مرتبہ میدانی علاقے میں داخل ہوکر میلوں چوڑائی میں پھیل جاتا ہے۔ پیر پہائی کا مقام بھی اسی علاقے میں ہے جہاں پوٹھوہار کے علاقے کا اہم ترین ’’دریا ئے سواں ‘‘ شیر دریا کا حصہ بنتا ہے۔ یہی وہ کالاباغ ڈیم کا مجوزہ مقام ہے۔ اس کے قریب ہی کالاباغ کے نوابوں کی کئی سو ایکٹرز پر پھیلی ہوئی شکار گاہ ’’ جابہ ‘‘ ہے جو اپنے چنکارے ہرنوں اور ہُڑیال کی وجہ سے عالمگیر شُہرت کی حامل ہے ۔ مولانا فضل الرحمن دو سال پہلے یہاں اپنے بیوروکریٹ بھائی کے ہمراہ شکار بھی کھیل چُکے ہیں ۔

عمران خا ن کے حلقہ میں ایک جناح بیراج اور چشمہ بیراج کا علاقہ بھی شامل ہے ۔ایک طرف یہاں جہاں گرمیوں کے موسم جہاں جلادینے والی گرمی پڑتی ہے وہیں شُمال میںآسمان کی پیشانی کو چومتا ’’ قمر سر ‘‘ ایک ایسا پہاڑی مقام ہے جہاں جون اور جولائی کے گرم ترین دنوں میں بھی موسم سرد ہوتا ہے ۔ ایک اہم بات یہ کہ قومی اسمبلی کے اسی حلقے کے بارے میں ممتاز مورخین کا دعویٰ کے کہ یہ علاقہ باب الاسلام سندھ اور بلوچستان کی فتح سے بھی پہلے حضرت امیر معاویہ کے دور میں ایک جرنیل مہلب بن ابی صفرہ کی قیادت میں اسلامی سلطنت کا حصہ بنا تھا۔

ایک مرتبہ پھر انتخابات کا موسم اپنے جوبن کی طرف بڑھ رہا ہے خطہ پوٹھوہار کو چومتی نمل جھیل ، گذرے زمانوں کے رازوں اور کئی تہذیبوں

کے رازدان اور امین سندھ ساگر کے کنارے کپتان کے پُرانے ساتھی ان کی انتخابی مہم کے لیے کمر بستہ نظر آتے ہیں ۔ ان کی پارٹی کے بڑے گروپ اور ٹکٹوں کے اُمیدوار اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ترتیب دی گئی اپنی مختلف حکمت عملیوں پر کام کر رہے ہیں ۔ وہ کارکن جن کے نعرے اور ترانے صرف کپتان کے لیے بُلند ہوتے تھے اب مختلف گروپ ، دھڑے اور شخصیات انہیں اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں ۔ گذشتہ عام انتخابات میں منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی اپنے سوز سے خالی دامن کے ساتھ ایک مرتبہ پھر قسمت کی دیوی کو خود پر مہربان دیکھنا چاہتے ہیں ۔اپنی ضد اور انا کی تسکین کرنے والی نارتھ زون کی قیادت کو شاید اس علاقے کی تاریخ میں سُر خرو ہونے کی کوئی خواہش ہی نہیں ہے ۔ عمران خان کی چھوڑی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست پر شکست اور بلدیاتی انتخابات میں غداروں اور ناقص حکمت کاروں کا بوجھ پارٹی کے کاندھوں پر ہے ۔ نئے الیکشن کے لیے صف بندی کا فقدان ہے ۔

عمران خان کے لیے میانوالی کے عوام اپنی آنکھیں بچھانے کے لیے تیار ہیں عوام کی غالب اکثریت کا کہنا ہے کہ 2013 ء کی انتخابی مہم کی تاریخ دوہرائے بغیر پھر پور کامیابی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اب بھی پورا علاقہ عمران خان کے حوالے سے تاریخ کا ورثہ بننے کے لیے تیار ہے یہاں آنے جانے والی تمام ہواؤں میں وہی پہلے جیسی خوشبوئیں ہیں ۔ لیکن شرط یہی ہے کہ انتخابات کے بارے میں تمام فیصلے کپتان خود کرے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر