وجود

... loading ...

وجود
وجود

تراویح کے نام پر طوفانِ بدتمیزی 

هفته 26 مئی 2018 تراویح کے نام پر طوفانِ بدتمیزی 

جب کسی قوم کے عقل وشعورمیں بگاڑ آجاتا ہے اور وہ فی الفور ہوش کے ناخن نہ لے توتسلسل کے ساتھ بگڑ تی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ بے عقلی اور بے شعوری کے کاموں کو بھی عقلمندی کے کام سمجھنے لگتی ہے ،یہی حال ہمارا ہے ۔ہم بگاڑ میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ اب مذہب اور اس کے احکام بھی ہمارے اس ظلم سے نہیں بچ پاتے ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم سراپا بگاڑ اور فساد ہیں اور ہماری وجہ سے ہر سو بگاڑ اور فساد پھیل جاتا ہے ۔یہ ہمارا اصل مرض ہے جس کو ہم تاویل کر کے چھپاتے پھرتے ہیں ۔مگر وقت وقت پر ہمارا یہ مرض ظاہر ہو ہی جاتا ہے ۔مجھے اس بات سے انکار نہیں ہے کہ تراویح کی نماز کی تعدد رکعت پر علما ء کے بیچ اختلافات نہیں ہیں اور نہ ہی مجھے اس بات سے انکار ہے کہ دونوں طرف دلائل ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ جب بھی ماہ مبارک رمضان کا رحمت بھرا مہینہ سایہ فگن ہو جاتا ہے تو تراویح کی نمازکی رکعتوں پر منبر ومحراب سے لیکر بازاروں تک ہر جگہ زور دار بحثیں شروع ہو جاتی ہیں اور اپنی اپنی فکر اور سوچ کے لوگوں میں چھوٹے چھوٹے رسائل تقسیم کیے جاتے ہیں اور ہر عالم دوسروں کے دلائل کو رد کرتے ہوئے صرف اپنی بات پر بہت اصرار کرتا ہے کہ گویا حق صرف اسی کے پاس ہے کسی اور کے پاس نہیں ۔المیہ یہ ہے کہ ہمیں بے نمازیوں کی کوئی فکر نہیں ہے بلکہ ہم نمازیوں کے ہی پیچھے پڑے ہو ئے ہیں اور ہماری توتو میں میں سے وہی منتشر اور پریشان ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر انجام دیا جاتا ہے ۔ایک تبلیغی جماعت کے سوا کوئی بھی جماعت ان کے لیے بحیثیت مجموعی پریشانی اور اضطراب کا مظاہرا نہیں کرتی ہے اور اگر کوئی بے چینی کا اظہار کر بھی لیتا ہے مگر عملی طور پر ’’بے نمازیوں کو مسجد تک لانے کے لیے ‘‘کچھ بھی نہیں کیا جاتا ہے اور اس کے لیے ایک تبلیغی جماعت ہی متحرک نظر آتی ہے ۔ہم سب جانتے ہیں کہ تراویح سنت ہے فرض نہیں ،جبکہ تارک صلوٰۃ کافر نہ صحیح عندالکفر ضرور پہنچ جاتا ہے مگر افسوس یہ کہ ہم میں کسی کا دل ان کے لیے رنجیدہ نہیں ہے بلکہ سارا زور تراویح پر لگادیا جاتا ہے جو سنت ہے ۔

یہ صورتحال قابل برداشت ہوتی اگر دونوں طرف کے علماء بردباری کا مظاہراہ کرتے ہوئے اپنے ’’علمی اختلافات‘‘کو کارکنان تک نہ پہنچاتے ۔اختلافات اپنی ذات میں برے نہیں ہو تے ہیں یہ بسا اوقات فائدہ مند بھی ہو تے ہیں مگر کھبی کبھار نقصان دہ بھی ۔تراویح میں تعدد رکعات کا اختلاف اتنا سنگین بن چکا ہے کہ جہاں مسجدیں مخلوط ہو تی ہیں وہاں اگر احتیاط نہ برتی جائے تو روز کے جھگڑے کبھی نہیں رکیں گے مگر ماہ مبارک رمضان میں یہ اختلافات اور بھی طول پکڑتے ہیں ۔یہ صورتحال اور اختلاف تب اور بھی سنگین بن جاتا ہے جب دو مخالف مسالک یا فکر کے لوگ ایک دوسرے کو گمراہ ،ملحد ،زندیق اور نہ معلوم کیا کیا شمار کرنے لگتے ہیں پھر برادریاں ٹوٹ جاتی ہیں بلکہ بسااوقات رشتوں تک کو نقصان پہنچ جاتا ہے ۔عام رفقاء اورر کارکنان اس سب کو کار دین سمجھتے ہوئے اعلیٰ قسم کا جہاد خیال کرتے ہیں اور بعض ’’مبلغ‘‘اسکو ہوا دیکر صورتحال کو مزید خوفناک بناتے ہیں پھر مصالحت پسندوں کی کوششیں بھی بے کار ہو جاتی ہیں ۔ہمارے علاقے میں ایک ناعاقبت اندیش مبلغ سے عوام نے تراویح کی تعدد رکعت پر سوال پوچھا تو جناب نے عوام کے مسلک و مشرب کا اعتبار کیے بغیر اپنی رائے اور مسلک پر شدید اصرار کیا جس سے عوام مشتعل ہوگئی کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے علماء ہم سے جھوٹ بولتے ہیں یا گمراہ کرتے ہیں۔ توتو میں میں سے معاملہ آگے بڑھکر لڑ جھگڑنے تک پہنچ گیا ،پولیس نے دونوں جماعتوں کو گرفتار کر کے تھانے پہنچا دیا اور موقع پر موجود ’’ہندؤپولیس آفیسر‘‘معاملہ سن کر بہت پریشان ہوا کہ اس مسئلے کو حل کیسے کردے تو اس نے دونوں جماعتوں سے تحکمانہ لہجے میں کہا سنو آئندہ اس مسجد میں نہ کوئی آٹھ پڑھے گا نہ بیس بلکہ دونوں جماعتیں صرف بارہ پڑھیں گے اس لیے کہ یہی بیچ کی راہ ہے ۔آخر ایک ہندؤآفیسر کس طرح دین کے اس نازک مسئلے کو حل کر سکتا ہے جس کی اس بے چارے کو ابجد بھی معلوم نہیں ہے ۔یہ تو واعظین اور مبلغین کو سمجھنا چاہیے تھا کہ وہ کس طرح اختلافی امور میں اپنی رائے ’’مخلوط ماحول‘‘میں پیش کریں ۔وہ اپنی روزی روٹی اور تنظیمی نوکری کے لیے مسلمانوں کا اتحاد تو درکنار ان کا قتل عام بھی برداشت کرسکتے ہیں اور کرتے بھی ہیں ،

نمازتراویح کی رکعتوں میں اختلاف آج کانہیں بہت پرانا ہے ۔ ائمہ اربعہ سے تروایح کم از کم بیس رکعات ثابت ہیں البتہ امام مالکؒ سے ایک روایت اکتالیس اور ایک چھتیس کی مروی ہیں جبکہ ان کی ایک روایت جمہور کے مطابق ہے ۔اکتالیس والی روایت میں بھی تین وتر اور دو نفل بعد الوتر کی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل بیس اور چھتیس رکعات ہی ہیں اور چھتیس کے متعلق بھی یہ ثابت ہے کہ اہل مکہ کا معمول بیس رکعات تراویح پڑھنے کا تھا لیکن وہ ہر ترویحہ کے درمیان ایک طواف کرتے تھے ۔اہل مدینہ چونکہ طواف نہیں کر سکتے تھے ،اسلیے انھوں نے اپنی نماز میں ایک طواف کی جگہ چار رکعتیں بڑھا دیں اور اس طرح اہل مکہ کے مقابلے میں سولہ رکعتیں زیادہ ہو گئیں اسے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بھی رکعات تراویح کی تعداد بیس تھیں گویا بیس رکعات پر ائمہ اربعہ کا اجماع ہے ۔امام ابن خزیمہؒ اور امام ابن حبانؒ دونوں نے اپنی صحیح میں یہ روایت درج کی ہے کہ حضور ﷺ انھیں قیام رمضان (تراویح) کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماََ نہیں فرماتے تھے چنانچہ فرماتے تھے کہ جو شخص رمضان المبارک میں ایمان اور ثواب کی نیت سے قیامکرتا ہے تو اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دئے جاتے ہیں پھر حضور ﷺ کے وصال تک قیام رمضان کی یہی صورت برقرار رہی اور یہی صورت خلافت ابو بکرؓ اور خلافت عمرؓ کے اوائل تک جاری رہی یہاں تک کہ حضرت عمرؓ نے انھیں حضرت اُبی بن کعبؓ کی اقتدأ میں جمع کردیااور وہ انھیں نماز(تراویح) پڑھایا کرتے تھے ۔لہذا یہ وہ پہلا موقع تھا جب لوگ نمازتراویح کے لیے اکٹھے ہوئے تھے (ابن حبانؒ الصحیح جلد اول 353،امام ابن خزیمہؒ جلد3،833)حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے فرمایا کہ حضورﷺرمضان المبارک میں وتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے (طبرانی ،المعجم الکبیر ،11،311،ابن ابی شیبہ ،المصنف،2،164)حضرت سائب بن یزیدؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضرت عمرؓ کے زمانے میں بیس رکعت تراویح اور وتر پڑھتے تھے (بیہقی ،السنن الکبریٰ،2:699) ۔امام مالک ؒ اپنی موطا میں حضرت یزید بن رومان کی روایت نقل کی ہے کہ رمضان میں حضرت عمرؓ کے زمانے میں لوگ بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے(اس روایت پر بعض علماء نے کلام کیا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے )۔ اگر حضرت عمرؓ کے فعل ہی کو تنہا لیا جائے کہ انھوں نے صحابہ کی کافی بڑی تعداد کی موجودگی میں سارے مسلمانوں کو بیس رکعت پر جمع کر دیا تو یہ اپنی ذات میں بہت بڑی دلیل ہے اس لیے حضڑت عمرؓ سے بڑا ’’بدعت کا دشمن‘‘کون ہو سکتا تھا ؟اور اگر بالفرض ایسا بھی ہوتا کہ ان میں کسی طرح کا کوئی تساہل ہی پیدا ہو جاتا تو وہ صحابہ جو حضور ﷺ کی سنتوں پر اپنی جانیں نچھاور کرتے تھے کیا اس چیز کو کسی بھی طرح برداشت کرتے کہ حضرت عمرؓ انھیں کسی ایسی چیز پر عمل کرائیں جو حضور ﷺ ثابت ہی نہ ہو ۔ (جاری ہے )


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر