وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاک افغان سرحد پرآہنی دیوار کی تنصیب

اتوار 20 مئی 2018 پاک افغان سرحد پرآہنی دیوار کی تنصیب

افغانستان کے غیر یقینی حالات پاکستان پر بُری طرح اثر انداز ہیں افغانستان سے ملحق طویل سر حد غیر محفوظ ہے ۔اور یہ صورتحال حال پاکستان کے لیے باعث تشویش ہے ان سرحدوں کی کماحقہ نگرانی و حفاظت یقینی بنائی جاتی ہے تو دہشت گرد عملیات اور ان کے کُل پرزوں پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔اس مقصد کے تحت پاک افغان سرحد پر پنجپائی کے مقام پر آہنی باڑ کی تنصیب کا کام شروع ہوگیا ہے۔ افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ 8 مئی 2018ء کو پنجپائی پہنچے اور وہاں قبائلی عمائدین کی تقریب سے خطاب کیا۔ یوں آہنی باڑ کی تنصیب کا باقاعدہ افتتاح ہوگیا۔ اب تک افغانستان کی سرحد سے متصل 5کلومیٹر باڑ لگائی جاچکی ہے۔ پیش ازیں 2013ء سے2016ء کے دوران قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، ڑوب، پشین اور نوشکی میں 470کلومیٹر طویل خندقیں بھی کھودی جاچکی ہیں۔ یہ خندقیں گیارہ فٹ گہری اور چودہ فٹ چوڑی ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد سرحد کو محفوظ بنانا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان مجموعی طور پر تقریباً ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل سرحد ہے، جس میں1268کلومیٹر کی سرحد بلوچستان کی ہے۔ پاک فوج اس وقت تک220کلومیٹر سرحد پر باڑ لگاچکی ہے۔ سرحد پر 95 قلعے تعمیر کیے گئے ہیں، یعنی 665 قلعوں کی تعمیر کا منصوبہ زیر تکمیل ہے۔ بلوچستان میں بھی ہر تین کلومیٹر کے فاصلے پر قلعے اور ہر ایک کلومیٹر پر واچ ٹاور تعمیر کیے جائیں گے۔ مجموعی طور پر صوبے میں 250 قلعے اور 1500واچ ٹاور تعمیر ہوں گے۔ سرحد پر لگانے کے لیے باڑ خصوصی طور پر چین سے منگوائی گئی ہے۔ باڑکی اونچائی 12 فٹ اور چوڑائی 9 فٹ ہوگی، جبکہ درمیان میں خاردار تار کا رول ڈالاجائے گا جو بتیس بتیس انچ کی ہوگی۔ آئندہ چند ماہ میں فرنٹیئر کور کے دو نئے ونگ تشکیل دینے کا بھی امکان ہے جو فینسنگ کے کام کو مکمل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

پنجپائی ضلع کوئٹہ کی تحصیل ہے۔ ضلع نوشکی جاتے ہوئے پہلے پنجپائی آتا ہے۔ ضلع نوشکی سے افغانستان کا علاقہ ’’شوراوک‘‘ ملحق ہے، جبکہ پنجپائی سے افغانستان کا علاقہ ’’سرلٹ‘‘ لگتا ہے۔ پنجپائی کے مقام پر یہ سرحد صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے صرف85کلومیٹر دوری پر ہے۔1948ء میں خان آف قلات میر احمد یار خان نے جب پاکستان سے الحاق کا معاہدہ کیا تو الحاق کو ان کے بھائی اور دوسرے بلوچ سیاسی رہنمائوں نے جبری قرار دیا۔ چنانچہ شہزادہ عبدالکریم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ افغانستان کی طرف نقل مکانی کی۔ گویا نیت نوزائیدہ پاکستان کے خلاف مسلح مزاحمت کی تھی، لیکن افغانستان کی حکومت نے انہیں اس کی اجازت نہ دی البتہ انہیں پْرامن طور پر پناہ گزین کی حیثیت سے رہنے کی اجازت دے دی۔ شہزادہ عبدالکریم نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ’’سرلٹ ‘‘کے مقام پر پڑائو کیا۔ افغان حکومت کے عدم تعاون کے بعد شہزاد عبدالکریم لوٹ آئے، اورگرفتار ہوئے۔ انہیں قید و بند کی سزا ہوئی۔ پھر وہ پاکستان کی پارلیمانی سیاست کا حصہ بھی بنے۔ بزرگ بلوچ قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری مرحوم کے بیٹے نواب زادہ بالاچ مری نے جب ریاست کے خلاف مسلح مزاحمت شروع کی تو کچھ عرصے بعد وہ بھی افغانستان منتقل ہوگئے تھے اور اسی سرلٹ کے علاقے میں مقیم رہے۔ ان کا افغانستان میں انتقال ہوا تو الزام یہ لگایا گیا کہ پاکستان کی فورسز نے سرلٹ کے علاقے میں ان کے کانوائے پر حملہ کرکے انہیں قتل کردیا۔ سرلٹ کی اکثریتی آبادی پشتونوں کے بڑیچ قبائل کی ہے۔ نواب رئیسانی کے خاندان کی زمینیں بھی واقع ہیں، جبکہ براہوی بلوچ اقوام کے ساسولی اور پاکستانی حدود کے سرلٹ کے سرحدی علاقوں میں پرکانی بلوچ قبائل آباد ہیں ۔ گویا قبائل کا سرحد کے دونوں طرف آنا جانا بغیر کسی رکاوٹ و مشکل کے رہتا ہے۔ نومبر1893ء میں انگریز نے ڈیورنڈ معاہدے کے ذریعے خطِ تقسیم کھینچ کر صدیوں ہزاروں سال سے ایک سرزمین کو جدا کردیا۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس ارتباط کی وجہ سے دونوں جانب کے عوام کا آنا جانا پھر بھی بند نہ ہوا۔ آہنی باڑ لگنے کے بعد معلوم نہیںان کی آمدورفت کا کیا طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔ بہرحال یہ طویل سرحد پاکستان کے لیے غیر محفوظ ہے، چاہے صوبہ خیبر پختون خوا ہو، فاٹا ہو یا پھر بلوچستان… سرحد کے اْْس پار سے مسائل کا سامنا ہے۔بلوچستان میں دہشت گردی کی دو الگ نوعیتیں ہیں۔ ایک مذہب کے نام پر، جبکہ دہشت گردی کی دوسری صورت قوم پرستی اور علیحدگی کے نام پر ہے، اور دونوں ناموں پر دہشت گردی کرنے والے گروہوں کے محفوظ ٹھکانے افغانستان میں ہیں۔ بلوچ شدت پسندوں کی ہر طرح کی مدد افغان حکومت کررہی ہے۔ اس وقت بھی ایک بڑی تعداد بلوچ رہنمائوں اور جنگجوئوں کی افغانستان کے مختلف شہروں اور دوسرے علاقوںمیں رہائش پذیر ہے جو قلعہ عبد اللہ، پنجپائی اور نوشکی اور دوسرے سرحدی علاقے آمدورفت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ رہی بات مذہبی گروہوں کی، تو وہ بھی افغانستان کے اندر محفوظ جگہوں میں سکونت رکھتے ہیں اور بلوچستان کے اندر مذکورہ سرحدی علاقے بلکہ دوسرے محفوظ اور دشوار گزار راستوں کے ذریعے داخل ہوتے ہیں۔ لہٰذا ضروری تھا کہ اس سرحد کو محفوظ تر بنالیا جائے، اور جتنی جلدی اس پر کام ہوگا ملک کی سیکورٹی کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ پنجپائی کا مقام جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے کوئٹہ سے محض85کلومیٹر دوری پر ہے۔ اس قدر قریب سرحد صوبائی دارالحکومت کے لیے سنگین خطرہ ہی ہے، اور یقینا ان گروہوں پر نظر صرف سیکورٹی کے اداروں کی نہیں ہونی چاہیے بلکہ عوام بھی اتنے ہی ذمے دار ہیں، کیونکہ ان گروہوں نے عوام کے مفادات اور سلامتی پر مسلسل حملے کیے ہیں۔

کوئٹہ سیف سٹی منصوبے کا افتتاح بھی امروز ہی ہوا۔ 2 ارب 28 کروڑ روپے لاگت کے اس منصوبے کے تحت کوئٹہ کے داخلی و خارجی راستوں اور اندرون شہر 261 مقامات پر1400 سی سی ٹی وی کیمرے لگیں گے۔ گویا اس منصوبے سے دہشت گردی کے واقعات پر قابو پانے اور دہشت گردوں کی فوری شناخت اور گرفتاری میں مدد ملے گی۔ آئی جی پولیس بلوچستان معظم جاہ انصاری کے مطابق گزشتہ چھے برسوں میں کوئٹہ کے اندر399 شیعہ ہزارہ، 36 سنی، 29 آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے اور سیکورٹی فورسز کے344 اہلکار اور اقلیتی برادری کے 19 افراد قتل ہوئے ہیں۔ رواں سال چار ماہ کے اندر ہزارہ برادری کے9 افراد قتل ہوئے ہیں جبکہ سیکورٹی فورسز کے28 اہلکار بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر