وجود

... loading ...

وجود
وجود

جناحؒ کی تصویر ہٹانے کی مذموم کوشش

اتوار 13 مئی 2018 جناحؒ کی تصویر ہٹانے کی مذموم کوشش

ریاض احمد چوہدری

بھارتی معاشرے میں انتہا پسندی کا رجحان بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے ہمیشہ مقامی آبادی کو اپنے اقتدار میں شریک کیا اور انہیں فوج اور انتظامیہ میں اہم عہدوں پر فائز کیا۔ مگر اس کے جواب میں ہمیشہ نفرت ، غداری اور دھوکہ ہی ملا۔ آج بھی مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے والے واقعات کو مختلف مقامات پر دہرا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کا عرصہ حیات اب ان مٹھی بھر لوگوں کی مرضی و منشاء میں پھنسا ہوا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہندوستان میں اس وقت ایسے لوگ قیادت کے منصب پر فائز ہوگئے ہیں جو صرف فرقہ پرستی کو اپنی پالیسی بناکر رکھنا چاہتے ہیں۔

ہندو انتہا پسندوں کی مسلمانوں سے نفرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمان حکمرانوں او رہنماؤں کی بنائی نشانیوں اور ملکی تاریخ کو مسخ کرنے کے درپے رہتے ہیں۔آج کل انتہا پسند مسلم اکابرین کے پیچھے پڑے ہیں۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد سے ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شرپسندوں کا ہدف رہی ہے لیکن ملک میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد اس میں شدت آگئی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)کے رہنما ستیش کمار نے علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر طارق منصور کے نام لکھے گئے خط میں یونیورسٹی میں آویزاں محمد علی جناح کی تصویر ہٹانے کا مطالبہ کیااور اب ایک بھارتی نیوز چینل کے دعوی کے مطابق قائداعظم کی تصویر یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ یونین آفس سے غائب ہوگئی ہے۔ تاہم اس حوالے سے اب تک کچھ سامنے نہیں آیا کہ یہ تصویر کس نے ہٹائی ہے۔

محمد علی جناح ؒکو 1938 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اعزازی رکنیت دی گئی تھی اور ان کی تصویر دیگر رہنما ؤں کے ساتھ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ یونین آفس میں لگائی گئی تھی۔ اس سے قبل یونیورسٹی کے ترجمان شافع کدوائی نے تصویر کی حمایت میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ محمد علی جناح اس جامعہ کے بانیوں میں سے تھے اور ان کی یہ تصویر کئی عشروں سے یہاں لگی ہوئی ہے۔

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلبہ تنظیم کے ہال میں نصب بانی پاکستان محمد علی جناح کی تصویر ہٹائے جانے پر ہنگاموں کے دوران سوشل میڈیا پر وڈیو وائر ل ہورہی ہے جس میں آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے طلبا نظر آرہے ہیں۔اس وڈیو کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے یہ اے ایم یو کا ہوسکتا ہے۔ اس وڈیو میں مظاہرہ کرنے والے طلبہ نے بھارت کے خلاف نعرے لگائے۔وڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بابائے سید گیٹ پر بنائی گئی ہے۔ پولیس نے بتایا کہ وڈیو کی تحقیقات شروع کردی گئی ہے اور جلد اس کی حقیقت سے آگاہ کیا جائیگا۔ پولیس نے قائد اعظم کی تصویر کی توہین اورہنگامہ برپا کرنے کے الزام میں ہندونواز طلبا تنظیم کے رہنما امیت گوسوامی اور یوگیش واشنے کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔ پولیس کے مطابق دونوں ملزمان نے مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر آگ بھڑکانے والا مواد پوسٹ کرکے امن کو تباہ کرنے کی کوشش کی جس کے باعث انتظامیہ کو شہر میں انٹرنیٹ سروس عارضی طور پر معطل کرنا پڑی۔طلبہ کا کہنا ہے کہ ملزموں کیخلاف’’ راسوکا‘‘ قانون کے تحت کارروائی کی جائے۔ اے ایم یو میں پھیلی کشیدگی کے پیش نظر امتحانات ملتوی کردیئے گئے ہیں۔

یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے سابق صدر زیڈ کے فیضان نے کہا کہ محمد علی جناح کی تصویر یونین ہال میں 1938ء سے آویزاں ہے۔ وہ یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے لائف ممبر تھے اور یونیورسٹی کے طلبہ کو اس پر فخر ہے۔ تصویر کے خلاف ہندو احیا پسند تنظیموں ہندو جاگرن منچ، ہندو یووا واہنی اور بی جے پی کی طلبہ شاخ اے بی وی پی کے کارکنوں نے بدھ کو مسلم یونیورسٹی میں گھسنے کی کوشش کی۔ مشتعل مظاہرین نے محمد علی جناح اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر طارق منصور کے پتلے نذرِ آتش کیے اور ان کے خلاف نعرے لگائے۔ایک اطلاع کے مطابق سردست محمد علی جناح کی تصویر یونین ہال سے ہٹا دی گئی ہے۔ ایک خبر میں طلبہ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ صفائی کی وجہ سے ہٹائی گئی جسے پھر لگا دیا جائے گا۔

محمد علی جناحؒ کی تصویر کے بہانے مسلم یونیورسٹی کو ہدف بنانے کی کوشش کے بعد کئی حلقوں کی جانب سے مذمت کی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ اتر پردیش کی ریاستی حکومت میں بی جے پی کے ایک وزیر سوامی پرساد موریہ نے بھی علی گڑھ کے بی جے پی کے رکنِ پارلیمنٹ کے مطالبے پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے ایک گھٹیا اقدام قرار دیا ہے۔ مسلم یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے صدر مشکور احمد عثمانی کا کہنا ہے کہ محمد علی جناح کی تصویر یونین کے پروٹوکول کے تحت لگائی گئی ہے کیوں کہ یونین یونیورسٹی جس کا بھی خیر مقدم کرتی ہے اس کی تصویر آویزاں کرتی ہے۔ یونین ہال میں گاندھی جی، پنڈت نہرو، مولانا آزاد اور ڈاکٹر ذاکر حسین سمیت متعدد رہنماؤں کی تصویریں آویزاں ہیں۔کئی دیگر جماعتوں اور تنظیموں کے عہدیداروں نے بھی بی جے پی اور اس کے کارکنوں کی کارروائی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا جلال الدین عمری نے کہا ہے کہ آزادی کے 70 سال بعد جناح کی تصویر ہٹانے کا خیال آیا۔دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے گفتگو کرتے ہوئے واقعے کو افسوس ناک قرار دیا اور کہا کہ 2019ء کے عام انتخابات سے قبل ماحول تیار کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ محمد علی جناح کو گاندھی جی نے ہندو مسلم بھائی چارے کا سفیر کہا تھا۔آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے کہا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ علی گڑھ یونیورسٹی بنانے میں جناح کا بھی کردار رہا ہے۔ آج وہ لوگ جناح کی مخالفت کر رہے ہیں جن کا ملک کی آزادی میں کسی قسم کا کوئی کردار ہی نہیں رہا۔

ایک اطلاع کے مطابق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے بعد اب یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاںؒ کی تصویر پر بھی انتہا پسند ہندوؤں نے احتجاج کیا اور غنڈہ گردی کرتے ہوئے پی ڈبلیو ڈی کے گیسٹ ہاوس میں آویزاں سرسید احمد خاں کی تصویر ہٹا دی گئی۔ جس کی اطلاع ملنے پر یونیورسٹی کے طلبہ مشتعل ہو گئے اور انتہا پسند ہندوؤں نے ہنگامہ آرائی شروع کر دی۔ اس ہنگامہ آرائی میں چند صحافیوں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا نے ایک بار پھر موقف اپنایا ہے کہ وہ کسی صورت کسی کو بھی قائد اعظم محمد علی جناحؒاور سرسید احمد خان کی تصویریں ہٹانے کی اجازت نہیں دیں گے۔کشیدہ صورتحال کے پیش نظر یونیورسٹی میں اضافی سیکیورٹی تعینات کر دی گئی ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پبلک ریلیشن آفیسر عمر پیر زادہ کا کہنا تھا کہ کسی تعلیمی ادارے کے لیے ایسے مسئلے کا اٹھایا جانا افسوسناک بات ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بحث و مباحثہ منعقد کرنے کی انتہائی قدیم روایت رہی ہے اور یہ بات ہندوستان کی آزادی سے قبل کی ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ یونین نے اس سلسلے میں سب سے پہلے مہاتما گاندھی کو 1920 میں مدعو کیا تھا اور انھیں لائف ممبرشپ عطا کی تھی۔ اس سے قبل جب یہ اینگلو محمڈن کالج ہوتا تھا تو بھی اس طرح کی روایت تھی۔اسی طرح 1938 میں یونین نے مسلم لیگ کے رہنما محمد علی جناحؒ کو مدعو کیا تھا اور انھیں بھی لائف ممبر شپ دی گئی تھی اور سٹوڈنٹ یونین ہی یہ فیصلہ لیتی ہے کہ کس کی تصویر لگنی ہے۔یونین نے اب تک 35 بڑے رہنماؤں کو لائف ممبرشپ دی ہے ہے جن مہاتما گاندھی، دلائی لاما، خان عبدالغفار خان، سروجنی نائیڈو، کماری امرت کور، برطانوی مصنف ای ایم فاسٹر، مولانا آزاد، سی وی رمن، وی وی گری، سی راج گوپالاچاریہ، جواہر لعل نہرو، جمال عبدالناصر، بدرالدین طیب جی، جے پرکاش ناراین، کلدیپ نیر، مدر ٹریسا وغیرہ شامل ہیں۔ سید حامد انصاری 36 ویں ایسی شخصیت ہیں جنھیں یہ رکنیت دی جا رہی ہے۔

علی گڑھ کے علاوہ شملہ میں جو ایڈوانس سٹڈی سینٹر ہے جہاں پہلے وائس رائے کا ریزیڈنٹ ہوتا تھا وہاں بھی محمد علی جناح کی تصویر ہے۔ کہیں بھی ایسا قانونی فریم ورک نہیں ہے جس میں یہ ہدایت دی گئی ہو کہ ان کی تصویر کو ہٹانا ہے۔بھارت میں ہندو تنظیمیں اس سے قبل دہلی کی جے این یو، حیدرآباد یونیورسٹی اور دہلی کے رام جس کالج کو نشانہ بنا چکی ہیں جبکہ علی گڑھ ان کے نشانے پر ایک عرصے سے رہا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر