وجود

... loading ...

وجود
وجود

خلائی مخلوق یا خدائی مخلوق

هفته 12 مئی 2018 خلائی مخلوق یا خدائی مخلوق

میاں نوازشریف پہلیاں ہی سناتے رہتے ہیں کہ بوجھو تو جانیں ان کے اس بیان پرکہ میرا مقابلہ کسی عمران زرداری سے نہیںبلکہ خلائی مخلوق سے ہے میڈیا پر عجیب و غریب بحث چھڑ گئی ہے ٹی وی چینلز پر اینکر حضرات اب مزے لے لے کر اس پربحث و مباحثہ کر رہے ہیں۔ بلاول نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ اگر میاں صاحب کا مقابلہ بقول ان کے خلائی مخلوق سے ہے تو وہ خلاء میں جائیں اور اس کا مقابلہ کریں ویسے بھی انتخابات سے قبل ایسی راگنی چھیڑ ٖڈالنا کوئی مناسب عمل نہیں وہ جتنا بھی چھپائیںان کی نظر میںتو واضح ہے کہ ان کے مطابق افواج پاکستان (جن کی ان گنت قربانیوں کی مثالیں پوری دنیا میں نہیںملتیں )عدلیہ پر دبائو ڈال کر ان کے خلاف فیصلے کرو ارہی ہیں یہ ایسا الزام ہے کہ جس کی وجہ سے افواج کی سخت بدنامی ہوتی ہے اور بیرون ملک بھی خوا مخواہ بھد اڑتی رہتی ہے ۔

ہماری آئی ایس آئی تو دنیا کی مانی ہوئی ایجنسی ہے حتیٰ کہ امریکن سی آئی اے ،بھارتی را، کے جی بی بھی اس کے “کارناموں کے گن گاتی “رہتی ہیں، انہی دنوں اصغر خان کیس بھی سپریم کورٹ میں کھل چکا ہے جس میںخود سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے تسلیم کیا ہے کہ میں نے حکماً بھاری رقوم اسلامی جمہوری اتحاد کے راہنمائوں میں تقسیم کروائی تھیںاور اعلیٰ عدلیہ نے مرزا اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کی نظر ثانی کی درخواستیں اس لیے رد کردی ہیں کہ ان کی منظوری سے سارا مقدمہ ہی الٹ جاتا اور ان کے خلاف سابقہ فیصلہ بھی کالعدم قرار پا جاتا اورعدلیہ نے یہ بھی طے کیا کہ اب اس مقدمہ کو ملتوی نہیں کیا جائے گا ۔

پرانے عدالتی فیصلے نے جن کو ملزم ٹھہرایا تھا انہیں اب تک عملاً سزا کیوں نہیں دی جا سکی ؟اگر عدلیہ اس مقدمہ پر مکمل غور و غوض کے بعد قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے کوئی ارجنٹ فیصلہ فرما ڈالتی ہے تو ملک کا سیاسی نقشہ ہی یکسر تبدیل ہو کر رہ جائے گا۔میاں نواز شریف اور ان کے اس دور کے بیشتر ساتھی رقوم حاصل کرنے کے مجرم ڈکلئیرہو گئے تو انہیں وصول کردہ وہ بھاری رقوم بھی واپس کرنا ہوں گی اور سزائیں کاٹنے کے لیے جیل یاترا بھی ہو سکتی ہے ،تاہم اس کا امکان ففٹی ففٹی لگتا ہے ۔اگر ہمارے دونوں افواج کے سابق ذمہ داران ہی مجرم قرار پاگئے تو سویلین افراد جنہوں نے ان کی وساطت سے بھاری رقوم وصول کی تھیں اور اس دور میں ان رقوم سے انتخابات جیتے تھے تو وہ لازماً جیلوں میں پہنچ جائیں گے قوی امید لگتی ہے کہ موجودہ دور کے عدلیہ کے روشن کردار اور ان کے دلیرانہ فیصلوں ( جو کہ آئین اور قانون سے بالکل مطابقت رکھتے ہیں ) کی وجہ سے اصغر خان کیس کا بھی(گو ان کی وفات کے بعد ہی سہی ) فیصلہ تاریخی قرار پاجائے گااور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس دور میں رقوم وصول کرنے والے بھی “مجرم اعلیٰ”ہونے کی بناء پر سیاست سے ساری عمر کے لیے نااہل قرار پاجائیں ۔

رہی خدائی مخلوق اور خلائی مخلوق والی بات تو وہ کون سادور تھا ؟جب کہ فضائی مخلوق انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوئی 2013 کے انتخابات میں تو رزلٹ بناتے وقت امیدواروں تک کو بھی ریٹرننگ افسروں کے کمروں میں جانے کی اجازت نہ تھی۔راقم خود اسکا گواہ ہے کہ چشتیاں شریف کے قومی اسمبلی کے اس وقت کے حلقہ NA-190سے آزاد امیدوار تھااور جو 21000ووٹ حاصل کیے تھے حکمرانوں کی طرف سے جس کو جتوانے کا آرڈر آیا تھا اسے میرے کل ووٹوں میں سے 14000نکال کر اسی مخصوص امیدوار کے کھاتے میںجمع کر ڈالے گئے تھے اور ساتھ والی سیٹ NA191سے بڑے امیدوار سے باقاعدہ پو چھا گیا کہ آپ ان دونوں سیٹوں میں سے بتادیویں کہ کس پر اپنی جیت چاہتے ہیں کہ وہ دونوں سیٹوں پر امیدوار تھے انہوں نے اپنے سابقہ جیت والے حلقہ NA191(ہارون آباد/فورٹ عباس ) کو ترجیح دی اس طرح NA-190(چشتیاں شہر )والی سیٹ سے دوسرے ن لیگی امیدوار(میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی) کی جیت کا اعلان کر ڈالا گیا۔

ایسا ہی واقعہ2006کے ضمنی انتخاب میں بھی ہو اتھا کہ راقم نے اس وقت کی سیٹ NA-189ؓٓ سے بہاولنگر شہر کے60پولنگ اسٹیشنوں سے 72فیصد ووٹ حاصل کیے اور شہر کی چھ یونین کونسلوں میں جیت گیا کہ اس کا باقاعدہ اعلان ٹی وی بلیٹن میں بھی ہو تارہامگر بعد ازاں رات گئے سرکاری امیدوار(ق لیگ)جو کہ اپنے آپ کو چو دھریوں کا رشتہ دار بھی بتاتا تھا اور جس نے پورے حلقہ میں کل11000ووٹ حاصل کیے تھے اسے58000کرکے اس کی جیت کا اعلان کردیا گیا تھا واضح ہے کہ برسر اقتدار ٹولوں کے ساتھ ہی ہمیشہ خلائی مخلوق رہی ہے مگر اس بار اس کا امکان قطعاً نہیں لگتاقبل از مرگ واویلا اس لیے مچایا جا رہا ہے کہ اگر تو جیت گئے تو درست ہے وگرنہ قبل از وقت شور مچایا ہوا “دھاندلی دھاندلی “کا ڈھنڈورا پیٹنے کے کام مستقبل میں آتا رہے گا اور اس طرح2013کے انتخابات کے بعد اب تک کیا جانے والا دھاندلی پروپیگنڈااب دوسرے فریق کی طرف سے چالو رہ سکے گا(دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے )۔

ویسے امید ہے کہ خلائی مخلوق نہیں بلکہ خدائی مخلوق یعنی اصل21کروڑ عوام ہی فیصلہ کریں گے وہ شایدبڑی پارٹیوں کے راہنمائوں اور ان کے قریبی ساتھیوں کی آپس میں گالم گلوچ تبرے بازی دھینگا مشتی فائرنگ کرنے ایکدوسرے کے فلیکسوں و پوسٹروں پر کالے رنگ کی خفیہ سپرے کرڈالنے ایک دوسرے کی مار کٹائی ،جوتم پیزار ہونے اور جوتے پھینکنے کی وجہ سے شاید ان میں سے کسی کو ووٹ نہ پڑیں تمام جاگیردار سرمایہ دار اور سود خور نو دولتیے اور لوٹا تحریک کے موجدین پولنگ والے دن اوندھے منہ گر پڑیں اور کسی مسلکی اختلاف سے مبرا طبقاتی علاقائی اور برادری ازم جیسے ناسوروں سے پاک تحریک اللہ اکبر کی جیت کا ساماں باندھ دیں اوراللہ کی کبریائی کا ڈنکا ہر طرف بج جائے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر