وجود

... loading ...

وجود
وجود

لکھے پڑھے وکلا کاآصفہ کی روح سے انتقام کی جنگ

جمعه 20 اپریل 2018 لکھے پڑھے وکلا کاآصفہ کی روح سے انتقام کی جنگ

(قسط نمبر:2)

آخری حد یہ کہ بارایسوسیشن کٹھوعہ نے اس پر جموں بند کی کال دیکر اپنی بے رحمی اور سنگدلی کا ناقابل انکار ثبوت پیش کردیا ۔جس پر جموں کی تاجرانجمنوں کے فورم نے خود کو جموں بارایسوسی ایشن کی ہڑتال کال سے الگ کرلیا۔جموں چیمبرآف کامرس اینڈاندسٹریز کے صدرپرکاش گپتانے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہاکہ وہ مختلف معاملات پرجموں بارایسوسی ایشن کی جانب سے دی گئی یک روزہ ہڑتال کال کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ کوئی احتجاجی پروگرام یاہڑتال کال دینے سے پہلے مختلف معاملات پرجموں بارایسوسی ایشن نے جموں چیمبرآف کامرس اینڈاندسٹریزکیساتھ نہ توکوئی مشاورت کی اورنہ مطالبات کاایجنڈامرتب کرتے وقت ہمیں اعتمادمیں ہی لیاگیا۔پرکاش گپتانے کہاکہ جموں کے تاجر،کاروباری افراداورصنعت کارکسی بھی طورآصفہ کیس کے سلسلے میں جموں بارایسوسی ایشن کے اختیارکردہ موقف کوصحیح نہیں مانتے اورنہ ہمیں بارایسوسی ایشن کی جانب سے اْٹھائے گئے دیگرمعاملات پرکوئی اتفاق ہے۔انہوں نے کہاکہ جب ہائی کورٹ کٹھوعہ کیس کی تحقیقات پرروزانہ بنیادوں پرنظررکھے ہوئے ہے تواس تحقیقاتی عمل اورقانونی کارروائی کی مخالفت کرناہی بلاجوازہے۔پرکاش گپتاکاکہناتھاکہ ہم کرائم برانچ کی جانب سے کی جارہی تحقیقات کی حمایت کرتے ہیں اورہم اسبات کے طرفدارہیں کہ جن لوگوں نے آٹھ سالہ معصوم بچی کااغواکرنے کے بعداس کی آبروریزی کی اورپھراس کمسن بچی کوموت کی نیندسلادیا،اْن سبھی ملزمان کوسلاخوں کے پیچھے ڈالکرسخت سزادی جائے۔جموں چیمبرکے صدرنے کہاکہ یہ کوئی مذہبی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ محض ایک انسانی اورقانونی معاملہ ہے ،اوریہ کہ ہم آصفہ کیس کومذہبی عینک لگاکرنہیں دیکھتے ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں نے یہ سنگین نوعیت کاجرم انجام دیا،اْن کوقانون کے کٹہرے میں لاکھڑاکیاجائے۔

پولیس نے آصفہ کیس کا چالان پیش کرنے کے دوران ہنگامہ کرنے اور کرائم برانچ ٹیم کو زبردستی روکنے پر وکلاء کے خلاف ایف آئی آر درج کرلیا ہے۔اس دوران کرائم برانچ نے نابالغ ملزم کیخلاف بھی ضمنی چارج شیٹ عدالت میں پیش کردی ۔جموں و کشمیر کی آزادی پسندقیادت نے اپنے مشترکہ بیان میں کٹھوعہ کی 8سالہ معصوم آصفہ عصمت ریزی اور بہیمانہ قتل کے معاملے میں کٹھوعہ بار ایسو سی ایشن اور جموںکے کئی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے مداخلت اور رکاوٹیں ڈالنے اور اس حوالے سے جموں بندھ کی کال کو اخلاقی دیوالیہ پن کی انتہا سے تعبیر کرتے ہوئے کہاہے کہ دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں اس قسم کی مثال نہیں ملتی جب ایک کمسن اور معصوم بچی کی پہلے عصمت ریزی اور پھر بعد میں بہیمانہ قتل میںملوث قاتلوں کو بچانے کے لیے اس طرح کا عمل دہرایا گیا ہو۔قائدین نے کہا کہ کٹھوعہ بار ایسو سی ایشن سے وابستہ وکلاء کا یہ عمل شرمناک ، تعصب اور تنگ نظری سے عبارت ایسا رویہ ہے جو حد درجہ قابل مذمت ہے۔قائدین نے کہا کہ وکلاء جو کسی بھی سماج اور سوسائٹی کے اہم ارکان اور عدل و انصاف کے علمبردار ہوتے ہیں کاآصفہ قتل کیس میں ان کا کردار انتہا پسندانہ سیاست کاری سے عبارت ہے۔انہوں نے کہا کہ دلی میںنربھیا واقعہ میںبلا امتیاز بھارت کی تمام سیاسی جماعتوں ، سول سوسائٹی اور دانشوروں نے تاریخ ساز احتجاج کرکے پورے بھارت اور وہاں کی سیاسی قیادت کو مجبور کردیا تھا یہاں تک کہ اس واقعہ میں متاثرہ لواحقین کو انصاف فراہم کیا گیا تاہم آصفہ کیس میں ان کی پْر اسرار اور مجرمانہ خاموشی ان کے دوہرے معیار کا عکاس اور حد درجہ افسوسناک ہے۔قائدین نے آصفہ معاملے میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ شاید اس معصوم بچی کا تعلق چونکہ ایک خاص طبقے کے ساتھ ہے اسی لیے اس کے تئیں امتیاز برتا جارہا ہے جبکہ اس وحشیانہ ہلاکت کو انسانیت اور عدل و انصاف کے نقطہ نظر سے دیکھا جانا چاہئے جیسا کہ نربھیا معاملے میں پورا بھارت ایک آواز ہوکر اٹھا کھڑا ہوا تھا۔

کٹھوعہ کے وکلاء کے اس رویے سے یہ بات صاف ہوگئی کہ مروجہ تعلیم اتنے اعلیٰ ڈگری یافتہ لوگوں کو بھی ’’ انسانیت کا ہمدرد‘‘بنانے میں نا کام رہی ہے ۔یہ خود نہ صرف تعلیمی ماہرین کے لیے مقام عبرت ہے بلکہ ہندوستان کی وکلاء برادری کے لیے بھی ایک امتحان ہے کہ آیا وہ اجتماعی طور پر اس ظالمانہ رویہ کو مسترد کرتے ہیں یا یہ کہ وہ بھی مظلوم کے بجائے ظالم کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں ۔عدل و انصاف کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا شرمناک ترین واقعہ ہے بلکہ یہ وکلاء کی تاریخ پر ایک ایسا دھبہ ہے جس کو وہ لاکھ بیانات۔

ہزارہا سیمناروں سے دھو نہیں سکتے ہیں ۔اس لیے کہ وکلاء کو تمام شعبہائے حیات کے مقابلے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ جس فرد اور انسان کی شنوائی کہیں نہیں ہو سکتی ہے اس کی شنوائی عدالت میں ہوتی ہے اور جس کو کہیں بھی انصاف نہیں مل سکتا ہے اس کو وکلاء عدالتوں سے انصاف دلاتے ہیں ۔اب جب عدالتوں میں ہی وکلاء برادری اجتماعی طور پر عدل و انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالدیں تو آپ کیسے کسی سے انصاف کی توقع کر سکتے ہیں۔کٹھوعہ کے وکلاء نے ایسا صرف مسلمانوں سے نفرت و عداوت میں کیا ہے اور سارا بھارت تماشا دیکھ کر خاموش ہے ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس سماج میں اخلاقیات کے ترجمان اس سطح تک پہنچ چکے ہوں گے اس سماج کے ’’رہزن اور ڈاکو‘‘کیسے ہوں گے ؟جہاں انصاف کے علمبرداروں کی حالت ایسی پست ہو گی کہ ان کے ہاں انسانیت کی کون سی قیمت ہوگی ور اس سماج کے پولیس والے کی حالت کیا ہو گی ؟جس سند یافتہ وکیل اور ان کی بڑی جماعت کی ذہنی حالت یہ ہو اس سماج کے چوراور ڈاکو کتنے بے رحم ہو ں گے ؟کٹھوعہ کے وکلاء کا ’’قاتل اور زانی ‘‘کے حق میں ریلی اور احتجاج نے یہ ثابت کردیا کہ ان کے سینوں میں دل نہیں پتھر ہیں ۔انہیں ایک معصوم سی کلی کو جانور کی طرح گاؤخانے میں آٹھ روز تک قید رکھنے جیسے ظلمِ عظیم پرجب رحم نہیں آیا تو ان کے نزدیک پھر قابل رحم کون ہوگا؟جنہیں معلوم ہے کہ آصفہ کو جس درندے نے آٹھ روز تک نشے کی حالت میں رکھ کر’’حیوانیت‘‘کا نشانہ بنا کر اپنے چہرے پر غلاظت مل لی اس کے باوجود ان کا اس کے حق میں تڑپ اٹھنا یہ ثابت کرتا ہے کہ کٹھوعہ کے یہ لوگ انسانیت کے ماتھے پر ایک کلنک ہیں جن کے لیے کم سے کم انسانی سماج میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ساتھ ہی ساتھ اسے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ انہیں مسلمانوں سے کس قدر نفرت اور عداوت ہے ؟ نہیں تو انہیں اتنا پست کام کرنا زیب نہیں دیتا تھا ۔یہ بات بھی میڈیا کی وساطت سے ثابت ہو چکی ہے کہ یہ سازش حکمران جماعت کے چندافراد نے بالعموم اور آر ایس ایس کے پرچارکوں نے بالخصوص صرف اس لیے رچائی تھی کہ وہ کٹھوعہ سے مسلمانوں کا جبری انخلا چاہتے ہیں ۔ان باتوں سے اہل اسلام کو باخبر ہو جانا چاہیے کہ ہمارا دشمن کتنا بے رحم،سفاک اور خوفناک عزائم رکھتا ہے ۔یہ مین اسٹریم جماعتوں کے لیے بھی ایک اور سبق ہے جو اپنی ہی قوم کے ساتھ سن سنتالیس سے برسرِ پیکار ہیں تاکہ نئی دہلی کی آشیرواد اور داد انہیں ملتی رہے ۔ ان لکھے پڑھے وکلا (جنہیں جہلا کہنا زیادہ مناسب ہے)کاآصفہ کی روح سے انتقام کی اس جنگ میں پہلے ہی دن ذلت و خواری کا شکار ہونا پڑا اور یقیناََ وہ ناکام ہوں گے اس لیے کہ صوبہ جموں کے اکثر ہندؤں نے ان کو شدت کے ساتھ رد کردیاہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ بھارت بھر کے ہندؤں کو چاہیے کہ وہ بغیر کسی تعصب کے اس اقدام کی بھرپور مذمت کریں نہیں تو اسے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہندؤ اب مذہبی اختلافات کی آڑ میں مسلمانوں کی بہو بیٹیوں کی عزتوں کو لوٹ کر قتل کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیارہیں۔ہندو برادری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت سے پوری قوت اور شدت کے ساتھ یہ مطالبہ کر ے کہ مجرموں کو سزا دیکر تختہ دار پر لٹکا کر ایک مثال قائم کی جائے تاکہ آئندہ کوئی مجرم ایسی گھناونی حرکت انجام دینے سے پہلے ہزار مرتبہ غور کرنے پر مجبور ہو جائے ۔ (ختم شد)


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر