وجود

... loading ...

وجود
وجود

پرانے راگ اور نئے سازندے؟

اتوار 15 اپریل 2018 پرانے راگ اور نئے سازندے؟

جنوبی پنجا ب کے چھ قومی اور دو صوبائی اسمبلیوں کے ممبران نے اسمبلیوں سے استعفیٰ دے کر جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے نام سے نئی تنظیم قائم کر لی ہے اس میں سابقہ ریاست بہاولپور کے دو اضلاع بہاولنگر اور رحیم یار خان کے بھی ممبران اسمبلی شامل ہیں جب کے ضلع بہاولپور سے ایک سابقہ ایم پی اے ۔مسٹر بھٹو کے حکومتی عروج کے دور سے ہی بحالی ٔصوبہ بہاولپور کی تحریک چل رہی ہے اور 1970 میںجب پورے ملک میں پی پی پی کا طوطی بولتا تھا تو ضلع بہاولپور سے اس کا کوئی نمائندہ منتخب نہ ہو سکا تھا سبھی ممبران وہی منتخب ہوئے جنہوں نے بہاولپور صوبہ بحالی کے لیے تحریک میں نمایاں حصہ لیا تھا سید تابش الوری رحمت اللہ ارشد وغیرہ معمولی حیثیت کے حامل افراد بھی اس تحریک کے نتیجہ میں منتخب قرار پا گئے تھے ۔

بھٹو صاحب اقتدار میں آئے تو جلسے جلوس شروع ہو گئے مگر ریاستی طاقت نے جبراً اس تحریک کو بری طرح تشدد سے کچل ڈالا اور کئی افراد بہاولپور کو علیحدہ صوبہ قرار دلوانے کے لیے شہید ہوئے یہ تحریک کچھ عرصہ کے لیے دب گئی مگر اندرون خانہ سلگتی رہی اب بلخ شیر مزاری دریشک اور مخدوم خسرو بختیار نے بہاولپور کو علیحدہ صوبہ کا نہیں بلکہ جنوبی پنجاب کے تین ڈویژنوں ملتان ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور کو صوبہ قرار دلوانے کے لیے نئے ملک گیر انتخابات کے اعلان سے صرف پونے دو ماہ قبل آغاز کردیا ہے ان ممبران اسمبلی نے آج تک کسی فورم پر ،پریس /میڈیا حتیٰ کہ اسمبلی کے اجلاسوںتک میں کبھی صوبہ کوبنانے کا قطعاً مطالبہ نہیں کیا تھا ویسے بہاولپوری عوام سچے ہیں کہ جب ون یونٹ بنایا گیا تھا تو حکومت پاکستان نے یہ معاہدہ کیا تھا کہ جب بھی ون یونٹ توڑا جائے گا بہاولپور صوبہ کی حیثیت سے خود بخود بحال ہو جائے گا مگر وہ عدہ ہی کیا جو ایفا ہو

حالانکہ بہاولپور کے عباسی حکمرانوں کے پاکستان کے وجود میں آنے کے فوراً بعد احسانات کا بدلہ چکایا ہی نہیں جا سکتا کہ انہوں نے پورے ملک کے سرکاری ملازمین کی دو سال تک تنخواہیں ادا کی تھیں بہاولپور کے نوابوں نے پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی کسی بھی تردد کے بغیر ریاست بہاولپور کو پاکستان میں شامل کر ڈالا تھا بلوچستان کی ریاستوں نے حالانکہ ایسا نہ کیا تھا۔کئی حیلے بہانوں کے بعدپاکستان کا حصہ بنے تھے اس کے لیے ایک علیحدہ کالم کی ضرورت ہے راقم الحروف نے انتظامی بنیادوں پر ڈویژنوں کو صوبے قرار دینے کے لیے کالم گزشتہ دنوں لکھا تھا مگر یہ بات محیر العقول لگتی ہے کہ صرف انتخابات سے قبل ایسے نعرہ کا لگایا جانا کس طرح منتخب ہو جانے کے لیے منصوبہ بندی کا حصہ قرار نہ دیا جائے گا ؟

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہےپھر اگر یہ تحریک کامیاب بھی ہو گئی تو بہالپور کو علیحدہ صوبہ بنانے والوں کی قربانیوں کا کیا بنے گا ؟اور جن افراد نے سرائیکی دیش سرائیکی صوبہ وغیرہ جیسی تحریکوں میں قربانیاں دی ہیں وہ اس وقت کہاں کھڑے ہیں ؟ان کا آئندہ کیا لائحہ عمل ہو گا؟ پھرکیا جودوسرے صوبوں میںعلیحدگی کی اور مزید صوبے بنانے کی تحریکیں چلتی رہی ہیں ان کا کیا حشر ہو گا؟ صوبہ ہزارہ تحریک کا کیا بنے گا؟ ویسے بھی پاکستان جس نظریے کے تحت معرض وجود میں آیا تھا اس میں تو لسانی علاقائی بنیادوں پر صوبے نہیں بن سکتے مگر صرف انتظامی بنیادوں پر۔ آئینی طور پر بھی صوبہ بنانے کا طریقِ کار موجود ہے اس کے تحت مخصوص صوبہ کے تین چوتھائی ممبران ایسی قرار داد پاس کریں پھر قومی اسمبلی اور سینٹ اس کی توثیق کریں اور بالآخر صدر پاکستان کو اس کی منظوری دینا ہے یہ اتنے کٹھن مراحل ہیں کہ انتخابات کے بعد ان پر روایتی کمیٹیاں بنتی رہیں گی جو کہ ایسی قراردادوں کی تکمیل عرصہ دراز تک نہ کر سکیں گی پھر ایسی بے وقت راگنی کا مقصد صرف انتخاب جیتنا ہی لگتا ہے ممبران اسمبلی تو پرعزم ہیں اور لاہور میں مرکزی دفتر بھی قائم ہو گیا ہے ۔

اخبارات کے فل پیج اشتہارات بھی جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے نام سے شائع ہو نا شروع ہو گئے ہیں صوبہ بنانے کے لیے تو عوام دلی طور پر خواہش رکھتے ہیں مگر صوبہ کے نام پر پرانے جغادری سیاستدانوں کی دوکانداری کو بھی چمکتا نہیں دیکھ سکتے اس طرح تو آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والی کیفیت ہی بن جائے گی ۔بڑی تمام سیاسی پارٹیاں بڑھ چڑھ کر ان کے موقف کی تصدیق کررہی ہیں تاکہ عوام میں ان کے نمبر “ٹنگنے” سے نہ رہ جائیں اور ان کی مقبولیت کہیں انتخابات میں کم نہ ہو جائے ویسے بھی ان کا یہ اعلان کہ ہم صوبہ کی تحریک چلائیں گے مگر کسی پارٹی میں شامل نہیں ہوں گے۔ویسے ن لیگ کو تو جھٹکا لگنا ہی تھا مگر عمران اور زرداری وغیرہ بھی مایوس ہو چکے ہیں کہ کل کلاں ان میں سے جتنے بھی جیتیں گے وہ ہمیں بھی آنکھیں دکھائیں گے سیاسی راہنمائوں کے علاوہ عام آدمی جانتا ہے کہ صوبے تحریکوں سے نہیں بلکہ آئینی طور پر ہی بن سکتے ہیں راقم خود صوبہ کی شدت سے خواہش رکھنے کے باوجود مایوسی کا شکار ہوا ہے کہ الیکشن اسسٹنٹ بھی اگر کامیاب نہ ہو سکا تو پھر جنوبی پنجاب بالخصوص بہاولپور ڈویژن کے عوام تو درجنوں سالوں تک صوبہ بنوانے سے محروم رہ جائیں گے۔

ان کاحشر کہ” نہاتی دھوتی رہ گئی اوپر مکھی بہہ گئی” والی بات ہو گی کاش صوبہ بن سکے مگر وہ آئینی ترمیم کے بغیر ممکن نہ ہے صوبہ محاذ والوں کے ذہنوں میں کوئی پلاننگ تو ہوگی کہ اتنا بڑا قدم اٹھا بیٹھے ہیں یہ اتنا آسان کام ہو تا تو صوبہ ہزارہ،صوبہ کراچی اور سندھودیش کبھی کے بن چکے ہوتے ۔ہندو بنیا للچائی نظروں اور خونی درندے کی طرح ہمارے بارڈروں پر تاک جھانک کر رہا ہے مغربی محاذکو بھی کمانڈو مشرف کی مہا غلطیوں کی وجہ سے ہم دشمن بنا بیٹھے ہیں پھر عالمی غنڈہ سامراج ویسے ہی خشمگیں نگاہوں سے ایٹمی تنصیبات کو تاکے بیٹھا رہتا ہے ہمارے تقریباً سبھی سیاسی لیڈران انتخابی جنگ جیتنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے پر تلے ہو ئے ہیں لسانیت علاقائی صوبائی برادری ازم مسلکی فرقہ واریت جیسے سبھی اختلافات کو اٹھا کر مخصوص اقتداری جنگ کو جیتنا چا ہتے ہیںخدا کو منظور ہوا تو سبھی کو قابل قبول اللہ اکبر تحریک ہی کامیاب و کامران ہو گی کہ مشیعت ایزدی کو اللہ اکبر نام ہی قبول ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر