وجود

... loading ...

وجود
وجود

نئے صوبے کی آواز

جمعرات 12 اپریل 2018 نئے صوبے کی آواز

فرزانہ زین بُلند و بالا پہاڑوں کی دھرتی خیبر پختونخواہ کی ایک ایسی قابل فخر بیٹی ہے جس کی شخصیت کی استقامت نے ہمیشہ راستی کے پیغام کو عام کیا ہے ۔ وہ اپنی سوچ اور فکر کے حوالے سے اپنی ہم عصر خواتین رہنماؤں میں بہت ممتاز ہیں۔ جہاں اس بیٹی سے رشک کرنے والوں کی کمی نہیں وہیں اُس کے سامنے احساس کمتری کا شکار لوگوں کی بھی ایک پوری کھیپ موجود ہے ۔ خیبر پختونخواہ کے صوبائی وزیر شاہ فرمان نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو پختون تحریک کے پروگرام سے دور رہنے کی ہدایت کی ۔ لیکن خیبر پختونخواہ میں سرگرم ہونے والی پختون تحریک کے پس منظر میں فرزانہ زین نے بڑے سلیقے اور قرینے سے کہا کہ ’’جب اپنے مُلک کے لوگ اپنے ہی اداروں سے ناراض ہوں ۔ تو ان کی بات سُننی چاہئے ۔ جس حد تک ممکن ہو تلافی کرنا چاہئے نہ کہ غدار اور غلط الفاظ استعمال کرنے چاہئے۔‘‘

ؔ یہاں مجھے سیموئل جانسن کا یہ قول بھی یاد آ رہا ہے کہ ’’ حُب الوطنی ایک بد معاش کی آخری پناہ ہوتی ہے ۔ساتھ ہی پاکستان کی پولیس سروس کے نابغہ روزگار ذوالفقار احمد چیمہ کے یہ الفاظ میرے ذہن میں مچلنے لگے ہیں جو انہوں نے اپنی آپ بیتی کے باب ’’ پولیس سروس کا پہلا پڑاؤ ۔ سبی ‘‘ میں یوں قلمبند کیے ہیں کہ ’’بلوچستان میں اس وقت جو حالات ہیں اس کی ذمہ داری مشرف حکومت پر ہے، نواب بُگٹی کے ساتھ رائلٹی کا جھگڑا تھا ۔وہ اپنی ناراضگیوں کے باوجود پاکستان کے آئین کے تحت سیاست کرتے رہے، مشرف حکومت ضد پر اڑی رہی اور انتہائی قابل احترام بزرگ رہنما کو قتل کر کے بلوچ نوجوانوں کو ایک شہید فراہم کردیا گیا ۔نواب اکبر بُگٹی مرحوم کو چند کروڑ مزید نہ دیے گئے اور بعد میں امن و امان ٹھیک کرنے پر کروڑوں لگانے پڑے ۔‘‘

مسلم لیگ سے علیحدہ ہونے والے سات ارکان اسمبلی نے سابق نگران وزیر اعظم میر بلخ شیر مزاری کی سرپرستی میں ’’ جنوبی پنجاب محاذ ‘‘ کے نام سے اپنا ایک علیحدہ گروپ قائم کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کے نام سے ایک علیحدہ صوبے کے قیام کو اپنا نصب العین قرار دیا ہے۔ آج کے کالم میں بات سے بات نکلنے کا سلسلہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اس محاذ کے مطالبے سے کالم نگار کو 2013 ء کے اوائل کے وہ دن یاد آ گئے جب پاکستان پیپلز پارٹی کے چوتھے دورِ اقتدار کی آئینی عمر پوری ہونے والی تھی تو پنجاب میں ’’ جنوبی پنجاب بہاولپور ‘‘ نام سے ایک نئے صوبے کے قیام کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ اس اعلان کا حکومت کے اختتام کے ساتھ ہی خاتمہ ہو گیا تھا۔ گزشتہ ہفتے بلاول بھٹو زرداری ملتان میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی میزبانی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران تقریر کرتے ہوئے ’’ گھِن سوں گھِن سوں ۔ صوبہ گھِن سوں ۔۔‘‘ کی قوالی بھی پیش کرتے سُنے گئے ۔ دلچسپی کی بات ہے سید مردان علی شاہ پیر پگاڑو مرحوم کی سفارش سے نگران وزیر اعظم بنائے جانے والے میر بلخ شیر مزاری اور ان کے ساتھیوں کا اپنے نئے نصب العین کے حصول کے لیے ہوم ورک تلاش کرنے میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔

بلاول بھٹو اور اس نئے محاذ کی سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر خاطر خواہ پزیرائی ابھی اپنے ظہور میں کامیاب نہیں ہو سکی ۔ اطلاعات کی وفاقی وزیر مملکت مریم اورنگزیب کے اس حوالے سے اعتراضات اس قدر بے جا بھی نہیں کہ انہیں یکسر مسترد کر دیا جائے ۔ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے سردار فاروق احمد خان لغاری صدرپاکستان کے منصب پر فائز رہے ۔ ان کے بیٹے اور خاندان عرصہ دراز سے اقتدار میں ہے ۔ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے مزاری اور دریشک اور کھوسہ خاندان کبھی بھی اقتدار میں اپنے وافر حصے سے محروم نہیں رہے ۔پنجاب کے سابق سات گورنروں مشتاق احمد گورمانی ، ملک غلام مصطفی کھر ، نواب صادق حُسین قریشی ، محمد عباس عباسی ، مخدوم سجاد حُسین قریشی ، سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ ، سید احمد محمود اور موجودہ گورنر محمد رفیق رجوانہ کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ ملتان کے سید یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم اور قومی اسمبلی کے اسپیکر رہے ۔ اسی طرح سید فخر امام بھی قومی اسمبلی کے اسپیکر تھے ۔ شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ رہے ۔ سردار ذوالفقارعلی خان کھوسہ اور شاہ محمود قریشی کے پاس پنجاب کی وزارت خزانہ کا قلمدان بھی رہا ۔ خطے کے غلام حیدر وائیں اور سردار دوست محمد کھوسہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔لیکن پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وسیع و عریض جنوبی حصہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ترقی سے کوسوں دور ، پسماندگی اور درمانگی کا شکار ہے ۔ یہ درست ہے کہ سینٹرل پنجاب کی قیادت نے ترقی کے ثمرات اس علاقے تک پہنچانے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ لیکن اس سے بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ اس علاقے خاص طور پر بہاولپور ڈویژن ، ملتان اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن کی قیادت نے بھی ایسی کوئی قابل ذکر کاوش نہیں کی جو یہاں کی ترقی کے لیے مہمیز کا کام دے سکے ۔ البتہ بہاولپور کے عباسی خاندان کو اس سے استثنیٰ حاصل ہے کہ انہوں نے صرف بہاولپور کی تعمیرو ترقی کے لیے یاد گار کام کیے بلکہ وہ شروع دن سے ہی بہاولپور صوبے کے قیام کی جدوجہد میں مصروف ہیں ۔ اور ریاست بہاولپور کے پاکستان میں انضمام کے وقت کیے جانے والے وعدے کے ایفاء کے لیے سرگرم عمل ہیں ۔

پاکستان میں پہلے پہل یہ روایت عام تھی کہ صوبے اور اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے والوں پر فوری طور پر غداری کا الزام لگا دیا جاتا تھا ۔ سرائیکی صوبے کی تحریک کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخواہ میں صوبہ ہزارہ کے حامیوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک اس کا واضح ثبوت ہے۔

پاکستانی سماج میں روایتی سیاست سے بغاوت کا جو عنصر سامنے آیا ہے اُس نے سیاست کی ترجیحات بدل ڈالی ہیں ۔اب پنجاب میں بھی صورتحال بدل رہی ہے ۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کے دو صوبائی ادوار میں ترقی کو لاہور اور سینٹرل پنجاب کے ایک آدھ علاقے تک محدود رکھنے اور سوشل میڈیا کے آگاہی ثمرات کی بدولت جنوبی پنجاب کے علاقے کی سیاسی اپروچ نے زبردست انگڑائی لی ہے۔ عوام کہنے لگے ہیں کہ گزشتہ ستر سالہ دور میں جنوبی پنجاب کے لوگوں کی محرومیوں پر مرہم نہیں رکھا جا سکا تو اس کے لیے مزید انتظار کرنا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لہذا س علاقے میں آئینی حدود میں رہتے ہوئے نئے صوبے کے قیام کی جدوجہد کو وقت کی ضرورت کوایقان کی حد تک سمجھا جانے لگا ہے ۔ یہی وجہ ہے تمام سیاسی جماعتیں اس نعرے کو اپنانے پر مجبور ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری کی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اپنے تین تین دور اقتدار میں اس مسئلے کے حل پر نہ تو کوئی توجہ دے پائی ہیں اور نہ ہی ان دونوں جماعتوں نے اس علاقے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار نمایاں طریقے سے ادا کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نئے صوبے کے قیام کے حامی ان دونوں جماعتوں سے اُمید بہار رکھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

عمران خان نے گزشتہ دنوں نئے صوبے کی تجویز کی حمایت میں جو بیان دیا ہے اُسے جنوبی پنجاب کے علاقے میں بھر پور پزیرائی ملی ہے۔پختونوں کے حقوق خاص کر راؤ انوار کے حوالے سے موجود تحفظات اور نئے صوبوں کے قیام کی تحریکوں جن میں صوبہ جنوبی پنجاب ، سرائیکی صوبہ ، صوبہ ہزار اور پوٹھوہار صوبے کی تحریک شامل ہیں ان سب کے مطالبوں پر کھلے ذہن کے ساتھ غوروخوض کرنا چاہیے او ر انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں یا انتظامی یونٹوں کی تشکیل کو کسی جانب سے انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ اس حوالے سے قومی سطح پر ایک ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے تو صورتحال کسی حوصلہ افزا ء اور مفید نتیجے کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ کسی کے موقف کو بھی بلا سوچے سمجھے غداری اور ملک دشمنی کا سرٹیفیکٹ دینے سے گریز کرنا چاہئے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر