وجود

... loading ...

وجود
وجود

چوہدری نثار علی خان 

منگل 10 اپریل 2018 چوہدری نثار علی خان 

میاں محمد نواز شریف اکتوبر 1990 ء میں جب جنرل پرویز مشرف کو چیف آف آرمی ا سٹاف کے منصب سے معزول کرنے اور جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف بنانے کا ارادہ یا فیصلہ کرکے اُس وقت کے سیکرٹری دفاع لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ افتخار چوہدری سے رُخصت ہو رہے تھے کہ انہوں نے سرگوشی کے انداز میں کہا تھا کہ۔۔

’’ چوہدری صاحب اس سب کچھ کے بارے میں آپ نے اپنے بھائی کو اور میں نے اپنے بھائی کو کُچھ نہیں بتانا ہے ۔ ‘‘

اس کے بعد کیا ہوااوراس بات کا نہ جانے پھر کیسے چوہدری نثار علی خان کو علم ہو گیا تھا۔۔ اس کا جواب یہی ہے کہ چوہدری افتخار اور نثار علی خان کے درمیان میاں صاحبان والی بد اعتمادی نہیں تھی ۔ کیونکہ کالم نگار نے یہ واقعہ خود چوہدری نثار علی خان کی زبان سے اُس وقت سُنا تھا ۔ جب وہ عمران خان کی چچی مرحومہ کی وفات پرتعزیت کے لیے میانوالی آئے تھے ۔

اس واقعہ سے چوہدری نثار علی خان اور میاں محمد شہباز شریف کے درمیان گہرے مراسم کا سُراغ ملتا ہے ۔ 2013 ء کے عام انتخابات کے بعد سے اب تک کے حالات نے دونوں کے درمیان تعلق کی گہرائی کو کئی مرتبہ واضح کیا ۔ میاں محمد نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان جب کبھی فاصلے بڑھے تو یہ چھوٹے میاں صاحب ہی ہوا کرتے تھے ۔ جو چوہدری صاحب کو اُسی پرانی تنخواہ پر کام کرنے کے لیے راضی کر لیا کرتے تھے۔

زیادہ دن نہیں ہوئے کہ ’’ چکری ‘‘ کے چوہدری جب منیر نیازی کا ایک شعر زبان پر لائے توبہت سے چکراگئے تھے ۔ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا تھا کہ چوہدری نثار کے سیاسی مُستقبل کا فیصلہ پارٹی قیادت کرے گی ۔پرویز رشید بھی اس موقع پر چُپ نہ رہ سکے تھے ۔ انہوں نے چوہدری نثار علی کی جانب سے مریم نواز شریف پر پارٹی کو بند گلی میں لے جانے کا الزام مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’ نثار کے پارٹی میں مستقبل کا فیصلہ نومنتخب صدر میاں شہباز شریف کو کرنا ہے ۔

لیکن اب معاملات میاں شہباز شریف کے دسترس سے بھی آگے کی بات بن چُکے ہیں ۔ چوہدری نثار اور میاں شہباز شریف کے درمیان کیا گفتگو ہوئی اس پر نہ جانے یہ اشعار کیوں کالم نگار کا تعاقب کر رہے ہیں ۔

زخمِ دل کب تلک چھُپاؤں تُجھے
کیوں بنہ اُس آنکھ کو دکھاؤں تُجھے
سانس کے ساتھ تیری یادیں ہیں
سانس اُکھڑے تو بھول پاؤں تُجھے

چوہدری نثار علی خان کے مستقبل کا فیصلہ میاں شہباز شریف کے ہاتھوں میں بتایا جا رہا ہے ۔غالب خیال یہی ہے کہ چوہدر نثار علی خان اپنے دوست میاں شہباز شریف کو کسی امتحان میں ڈالنے کی بجائے خود ہی اپنے لیے کسی سیاسی مستقبل کا تعین کر لیں گے۔ پرویز رشید اور بڑے میاں صاحب کے کیمپ کے دوسرے پارٹی لیڈروں کی جانب سے یہ بال چھوٹے میاں صاحب کے کورٹ میں ڈالنا بھی ایک سیاسی چال قرار دی جا رہی ہے۔

گذشتہ سال جب پانامہ کا ہنگامہ اپنے عروج پر تھا تو چوہدری نثار علی خان کے سیاسی وزن کے بارے میں اندازے لگاتے ہوئے ایم این ایز کی ایک سو سے لے کر ایک سو بیس تک کی تعداد ان کی صوابدید پر قرار دی جا رہی تھی۔ ڈان لیکس اسکینڈل کے بعد اور پانامہ کیس کے فیصلے سے پہلے چوہدری نثار علی خان نے کافی طویل پریس کانفرنسیں بھی کی تھیں ۔ ان کی یہ تمام پریس کانفرنسیں اثر پذیری کے حوالے سے فاروق ستار کی پریس کانفرنسیں ثابت ہوئی تھیں ۔سیاسی مستقبل کی راہیں متعین کرنے کا جب وقت تھا تو وہ کوئی جرات مندانہ فیصلہ کرنے سے قاصر رہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کی یہ تاریخ رہی ہے کہ اس جماعت میں شریف برادران کی عطاؤ ں سے زیادہ کا مطالبہ کرنے والوں کو اپنا راستہ علیحدہ کرنا پڑتا ہے۔ میاں منظور احمد وٹو، چوہدری برادران ، میاں محمد اظہر ، جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے صاحبزدوں اعجاز الحق اور انوار الحق سمیت بہت سی مثالیں ہماری ماضی قریب کی تاریخ میں موجود ہیں۔

اتوار کی شام ڈھلے جب راولپنڈی اور گردو نواح میں بارش موسم کو پُر بہار بنا رہی تھی اور عمران خان خطہ پوٹھوہار کے سڑکوں پر ممبر شپ کمپین میں مصروف تھے تو ذرائع پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان رابطے کی خبر دیتے سُنے گئے ۔ راولپنڈی ڈویژن کی سیاست میں چوہدری نثار علی ایک نا قابل تسخیر سیاست دان سمجھے جاتے ہیں وہ 1985 ء کے عام انتخابات میں پہلی مرتبہ آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔1988 ء اور 1990 ء کے عام انتخابات میں وہ اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کے ممبر بنے ۔ 1993 ء اور 1997، 2002 ء ، 2008 ء اور 2013 ء کے انتخابات میں انہوں نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی 2013 ء کے عام انتخابات میں انہوں نے راولپنڈی کی دو نشستوں سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا ۔ ایک پر انہوں نے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ دوسری نشست پر وہ پاکستان تحریک انصاف کے غلا م سرور خان سے شکست کھا گئے تھے۔

پاکستان تحریک انصاف اور چوہدری نثار علی خا ن کے درمیان فاصلے وسمٹنے لگے ہیں ۔ مسلم لیگ ن کے اقلیتی رکن اسمبلی کا پی ٹی آئی کو پیارے ہونے کے ساتھ ساتھ شمالی پنجاب کے آخری ضلع بھکر کے ایک بڑے سیاسی دھڑے کی بنی گالہ یاترا اس کی تازہ ترین مثالیں ہیں ۔

ایک ذریعے کا یہ کہنا بھی ہے کہ چوہدری نثار علی خان اپنا تمام پارلیمانی وزن پاکستان تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈالتے جا رہے ہیں ۔ عین ممکن ہیں وہ خود کافی عرصہ تک کوئی نئی پارٹی جوائن نہ کریں اور آزاد حیثیت میں آئندہ عام انتخابات میں حصہ لیں ۔ اگرچہ مختلف سیاسی پارٹیوں میں ان کی ڈیمانڈ کافی زیادہ ہے لیکن ان کے لیے اپنی ذات کے حوالے سے کسی نئی سیاسی جماعت کو جوائن کرنے کا فیصلہ کوئی بہت آسان نہیں ہے ۔ لیکن کہا جا رہا ہے کہ عمران خان اپنے ماضی کے دوست کی اس مشکل کو آسان اور محفوظ راستہ فراہم کرسکتے ہیں ۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ قومی اسمبلی میں اپنی ایک تقریر کے دوران عمران خان نے انہیں اپنا ایک دوست قرار دیا تھا جبکہ کچھ روز قبل چوہدری نثار علی خان بھی یہ انکشاف کر چُکے ہیں کہ انہوں نے عمران خان کی ذات کو نشانہ بنانے کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک اطلاعات کے مطابق چوہدری نثار علی خان کی اپنے قریبی ساتھیوں سے مشاورت کے بعد قرعہ پاکستان تحریک انصاف کے نام کا نکلا ہے ۔ دلچسپ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف میں ان کی شمولیت کے حوالے سے تحفظات رکھنے والے بھی موجود ہیں ۔ جن میں راولپنڈی ڈویژن کی قیادت اور غلام سرور اعوان نمایاں ہیں ۔

بحرحال یقینی امکانات بتارہے ہیں کہ تبصروں ، تجزیوں ، افواہوں اور اندازوں کی گرد جلد بیٹھنے والی ہے خطہ پوٹھوہار راولپنڈی کی سیاست میں نیا موڑ آیا ہی چاہتا ہے۔ ماضی کے دو غیر سیاسی دوست عمران خان اور چوہدری نثار علی خان سیاست میں بھی ہمقدم ہونے والے ہیں ۔
ایک طرف جی کا جانا ٹذٹھر چُکا ہے تو دوسری جانب ’’ وصالِ یار ‘‘ کی گونج سُنائی دینے لگی ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر